سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور یونائیٹڈ بینک کی اپیل

   
تاریخ : 
۲۷ مئی ۲۰۰۱ء

گزشتہ اتوار کو جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ ’’علماء کنونشن‘‘ میں شرکت کے لیے گیا تو اس موقع پر دارالعلوم کراچی کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی سے غیر سودی مالیاتی نظام کے سلسلہ میں تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ مفتی صاحب اس کمیشن کے واحد عالم دین رکن ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی روشنی میں غیر سودی مالیاتی نظام کے مسودہ کی تیاری کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر جناب ایم آئی حنفی کی سربراہی میں قائم کیا گیا ہے اور جس نے مسودہ قانون مرتب کر کے حکومت کے سپرد کر دیا ہے۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات سے اس موضوع پر تبادلۂ خیالات ہوا اور مذکورہ علماء کنونشن میں جو مولانا فداء الرحمان درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا متعدد علماء کرام اور دانشوروں نے اس عنوان پر گفتگو کی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں رائج سودی قوانین اور نظام کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سودی نظام ملک سے مکمل طور پر ختم کر دے اور اسلامی تعلیمات پر مبنی غیر سودی مالیاتی نظام یکم جولائی ۲۰۰۱ء سے پاکستان میں نافذ کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق حکومت نے غیر سودی مالیاتی نظام کے مسودہ کی تیاری کے لیے جناب ایم آئی حنفی کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جبکہ عملی اقدامات کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کی گئی۔ ہماری معلومات کے مطابق کمیشن میں سودی نظام کے متبادل سسٹم کے حوالہ سے بعض مسائل پر اختلاف چلتا رہا جس پر مولانا مفتی محمد رفیع عثانی نے خاصا مضبوط اسٹینڈ لیا، مثلاً:

  • بینکوں کے اکاؤنٹ ہولڈرز سے منافع کی بجائے ’’جرمانہ‘‘کے نام پر متعین رقم کی وصولی کا طریقہ مسودہ میں شامل کیا گیا جو نام بدل کر سود کو باقی رکھنے ہی کی ایک شکل تھی مگر مفتی صاحب کے سخت احتجاج کے بعد اس شق کو ان کے حسب منشا تبدیل کر دیا گیا ہے۔
  • اسی طرح غیر سودی مالیاتی نظام کی نگرانی کے لیے ’’شریعہ بورڈ‘‘ قائم کرنے کی تجویز مسودہ قانون میں شامل ہے مگر اس شریعہ بورڈ کی رکنیت کے لیے مستند اور جید عالم دین ہونے کی شرط کو قبول نہیں کیا جا رہا جو کہ مفتی صاحب کے شدید اصرار پر اب اس میں اتنی ترمیم کی گئی ہے کہ بورڈ میں مستند علماء کی ایک معقول تعداد شامل ہوگی۔
  • تیسرا اختلافی مسئلہ ہماری معلومات کے مطابق حل نہیں ہو سکا اور اس پر مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے مسودہ قانون پر اختلافی نوٹ دے دیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی ۲۰۰۱ء کے بعد ملک میں کوئی نیا سودی معاملہ طے نہیں پا سکے گا اور قابل تعزیر جرم ہوگا جبکہ اس سے قبل ملک میں موجود تمام سودی معاہدات و معاملات بدستور چلتے رہیں گے اور ان پر امتناع سود آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

بہرحال اس کشمکش اور مفاہمت کے بعد مسودہ قانون مکمل کر کے حکومت کے سپرد کر دیا گیا ہے اور اب سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے عوامی رائے کے لیے مشتہر کرے اور عدالت عظمیٰ کے دیے ہوئے شیڈول کی پابندی کرتے ہوئے یکم جولائی ۲۰۰۱ء تک اس کے عملی نفاذ کو یقینی بنائے۔

جبکہ دوسری طرف یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے سربراہ نے، جو خود بھی مذکورہ کمیشن کے رکن ہیں، سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے۔ اس پر دینی حلقوں کی طرف سے شدید اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق نظر ثانی کی اپیل میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کو یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ کسی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے مگر اسے کسی قانون کو ختم کرنے اور اس کی جگہ دوسرا قانون نافذ کرنے کا حکم دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ گویا یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے صدر نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ سودی نظام بہرحال قرآن و سنت کے منافی ہے مگر وہ اسے ختم کرنے کی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ قران و سنت کے احکام سے صریح انکار ہی کہلائے گا جس کے مضمرات و نتائج پر یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے صدر موصوف اور ان کی انتظامیہ نے یقیناً اچھی طرح غور کر لیا ہوگا۔

گزشتہ روز جامع مسجد خضراء (سمن آباد، لاہور) میں پاکستان شریعت کونسل کی دعوت پر مختلف مکاتب فکر کےسرکردہ علماء کرام کا ایک مشترکہ اجلاس جمعیۃ علماء اسلام ضلع لاہور کے امیر مولانا محب النبی کی صدارت میں ہوا جس میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا عبد المالک خان، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الرؤف ملک، قاری جمیل الرحمان اختر اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ:

  • مندرجہ بالا تجاویز کے لیے دینی حلقوں سے رابطوں کا سلسلہ تیز تر کر دیا جائے اور تمام دینی تنظیموں کے قائدین اور راہنماؤں سے گزارش کی جائے کہ وہ ان تجاویز کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ ان کے لیے رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کریں۔
  • حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ غیر سودی نظام کے لیے ایم آئی حنفی کمیشن کے پیش کردہ مسودہ قانون کو رائے عامہ کے لیے فوری طور پر مشتہر کیا جائے۔
  • یکم جولائی ۲۰۰۱ء تک اس مسودہ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
  • دینی جماعتیں مشترکہ طور پر عوام سے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے بائیکاٹ کی اپیل کریں اور بڑے شہروں میں دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کے گروپ مشترکہ طور پر دورے کر کے یو بی ایل کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اس بینک سے اپنے اکاؤنٹ ختم کرنے پر آمادہ کریں۔
  • اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ لاہور کی سطح پر ۲۲ مئی کو دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس ہوگی جس میں لاہور شہر میں اس مہم کو منظم کرنے کا طریق کار طے کا جائے گا۔ جبکہ گوجرانوالہ میں بھی مولانا مفتی غلام فرید رضوی کی زیر صدارت دینی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں اس مہم میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور گوجرانوالہ شہر میں اس مہم کے عملی پروگرام کے اعلان کے لیے ۲۹ مئی کو مرکزی جامع مسجد میں تمام دینی جماعتوں کا مشورکہ علماء کنونشن طلب کر لیا گیا ہے۔

ان تفصیلات کے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے دوسرے شہروں کے علماء کرام اور دینی کارکن بھی سودی نظام کے خاتمہ کے سلسلہ میں اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہوں اور اس ملعون نظام کے خاتمہ کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے فوری طور پر مشترکہ اجلاسوں کا اہتمام کر کے باہمی مشاورت کے ساتھ عملی پیش رفت کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter