سیرت نبویؐ کے حوالہ سے ضروری گزارش

   
جون ۲۰۰۳ء

ربیع الاول کے مہینہ میں عام طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے ان کے حالات اور تعلیمات کے تذکرہ کے لیے باقی سال کی بہ نسبت زیادہ اہتمام کے ساتھ مجالس و محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ جس کا کسی شرعی ضابطہ اور اصول سے کوئی تعلق تو نہیں ہے لیکن چونکہ دوسری اقوام میں اپنے پیشواؤں کے دن منانے اور مخصوص ایام میں انہیں اہتمام کے ساتھ یاد کرنے کا سلسلہ موجود ہے، اس لیے ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی یہ رسم عام ہوتی جا رہی ہے اور کچھ حلقوں کی بے جا ضد کے باعث رسم و روایت سے بڑھ کر اس حوالہ سے بہت سے امور ثواب و اجر کے نام پر بدعات کی شکل بھی اختیار کر گئے ہیں جن سے علماء حق نے نہ صرف ہمیشہ خود گریز کیا ہے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی وہ اس کے نقصانات و مضمرات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ان مجالس و محافل کا سلسلہ ربیع الاول کے بعد ربیع الثانی میں بھی جاری رہتا ہے اور عنوانات کے فرق کے ساتھ کم و بیش سبھی مکاتب فکر کسی نہ کسی عنوان کے ساتھ اس عمل میں شریک ہیں۔

جہاں تک جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات مبارکہ، سیرت طیبہ، سنن مقدسہ اور شمائل و خصائل کا تعلق ہے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان کا تذکرہ نہ صرف ثواب و اجر اور برکت و رحمت کا باعث ہے بلکہ یہ ہماری دینی ضروریات میں سے ہے، کیونکہ ہم ’’اسوہ حسنہ‘‘ کے طور پر زندگی کے ہر لمحہ اور ہر کام میں جناب نبی اکرمؐ کو یاد کرنے اور ان کا طریقہ و سنت معلوم کرکے اس کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں، لیکن اگر سرور کائناتؐ کی یاد اور ان کے حالات و فضائل کا تذکرہ مروجہ خود ساختہ طریقوں کی بجائے حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے سادہ اور بے تکلفانہ طریقوں کے مطابق ہو تو یقیناً کہیں زیادہ برکات و فیوض اور اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اگر آج کے حالات کے تناظر میں جناب نبی اکرمؐ کے ان ارشادات و تعلیمات اور احوال مبارکہ کو زیادہ اہمیت کے ساتھ اجاگر کیا جائے جن کا ہمارے موجودہ احوال و ظروف اور مشکلات و مسائل کے ساتھ تعلق ہے تو اس سے برکات و فیوض اور اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ راہنمائی کے نئے افق بھی سامنے آئیں گے۔

مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کے اس دور میں سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور حضرات صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفاء راشدینؓ کے حالات مبارکہ کا موجودہ عالمی صورت حال کے تناظر میں از سر نو مطالعہ کرکے آج کے ملی، قومی اور عالمی مسائل کا ان کی روشنی میں حل پیش کیا جائے اور سیرت طیبہ اور تعامل صحابہؓ کے دائرہ میں امت کی نئی نسل کی فکری راہنمائی کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پر آج کی عالمی تہذیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جدید تہذیب ہے، اپ ٹوڈیٹ کلچر ہے اور ترقی یافتہ ثقافت ہے، لیکن جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس میں نئی بات کون سی ہے تو اس کا کہیں سے کوئی جواب سامنے نہیں آتا۔ کیونکہ اس تہذیب کی بنیاد سوسائٹی کی مادر پدر آزاد خواہشات پر ہے اور اس کے ثمرات و نتائج کے طور پر (۱) رقص و سرور (۲) عریانی و فحاشی (۳) زنا و لواطت (۴) اباحیت مطلقہ (۵) کہانت و نجوم (۶) سود (۷) جوا (۸) نسلی برتری (۹) مذہب بیزاری (۱۰) خدا فراموشی (۱۱) جبر و استحصال (۱۲) اور معاشی بالادستی کے جو عملی مظاہر و مناظر انسانی سوسائٹی میں عام ہورہے ہیں، ان میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو جناب رسول اللہ کی تشریف آوری سے قبل موجود نہیں تھی اور جسے آنحضرتؐ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ’’کل أمر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کے باطل شکن اعلان کے ساتھ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیا تھا۔ مگر یہ آج کی مغربی تہذیب و ثقافت کے دجل و فریب کی انتہا ہے کہ اسی پرانی جاہلی ثقافت اور آؤٹ آف ڈیٹ کلچر کو ایک بار پھر جھاڑ پھونک کر اور از سر نو میک اپ کرکے اسے جدید تہذیب اور اپ ٹو ڈیٹ کلچر کے عنوان کے ساتھ نئے سرے سے نمائش میں لگا دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بیسیوں موضوعات ہیں جن کے حوالہ سے مغربی فکر و فلسفہ کی فریب کاریوں کو جناب نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور سنت مبارکہ کی روشنی میں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے نزدیک آج کے دور میں سیرت نبویؓ کے ضمن میں یہ ہمارے علمی و دینی حلقوں اور مراکز کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔

ہم سیرت نبویؐ کے تذکرہ و بیان سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دیں اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کی روشنی میں آج کی نئی نسل کی فکری اور تہذیبی راہنمائی کے تقاضوں کو باقی تمام معاملات پر ترجیح دیں ۔

   
2016ء سے
Flag Counter