یاسر عرفات اور جہادِ افغانستان

   
۳۰ جون ۱۹۸۹ء

فلسطین کی آزاد حکومت کے سربراہ جناب یاسر عرفات گزشتہ دنوں پاکستان تشریف لائے اور پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرنے کے علاوہ افغان مجاہدین کی آزاد عبوری حکومت کے راہنماؤں سے بھی ملے۔ قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ان کا یہ دورہ ان عالمی کوششوں کا ایک حصہ تھا جو افغان مجاہدین کو نجیب انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ لیکن افغان مجاہدین کی قیادت نے جناب یاسر عرفات سے معذرت کرتے ہوئے اپنے اس دوٹوک موقف کا پھر اعادہ کیا ہے کہ نجیب حکومت کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت یا گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

جناب یاسر عرفات کو تحریک آزادیٔ فلسطین کے مسلمہ راہنما کی حیثیت سے دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس حوالہ سے پاکستان اور افغانستان کے عوام کو یہ توقع تھی کہ ان کی مساعی اور تگ و دو کا رخ فطری طور پر افغان مجاہدین کے عظیم جہادِ آزادی کی حمایت میں واضح ہوگا اور وہ کابل میں نجیب انتظامیہ کے خاتمہ اور ایک نظریاتی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ لیکن نہ صرف افغان مجاہدین بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ جناب یاسر عرفات نے اس سفر کی زحمت افغان مجاہدین کو نجیب انتظامیہ کے ساتھ گفتگو اور مفاہمت کا مشورہ دینے کے لیے فرمائی ہے۔

ہم جناب یاسر عرفات کی خدمت میں بصد ادب و احترام یہ گزارش کریں گے کہ اگر وہ جہادِ افغانستان کے اس نازک اور سنگین مرحلہ میں کوئی موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت مناسب اور خوش آئند بات ہوگی لیکن اس کا صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ افغان مجاہدین کے اصولی اور نظریاتی موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے روسی قیادت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ کابل میں نجیب انتظامیہ کو قائم رکھنے کی ضد ترک کر کے افغانستان کے ۸۵ فیصد علاقہ پر قابض افغان مجاہدین کی عبوری حکومت کو افغانستان کا نظم و نسق سنبھالنے کا موقع دے۔ ہمیں یقین ہے کہ جناب یاسر عرفات کا یہ کردار جہاں افغان مجاہدین کے جہادِ آزادی کی منطقی تکمیل میں ممد ثابت ہوگا وہاں تحریک آزادیٔ فلسطین کے لیے بھی ایک نظریاتی اور فیصلہ کن موڑ بن سکے گا جہاں سے وہ شاید بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطین کی مکمل آزادی کے لیے نئے سفر کا آغاز کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter