سات جنوری کو گوجرانوالہ میں مولانا محمد سلیمان شاکر کی تصنیف ’’تفسیر سورۃ الرحمٰن اور جدید سائنس‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں مولانا محمد سلیمان شاکر کی تصنیف شائع ہونے سے قبل دیکھ چکا ہوں اور اس کے بارے میں میرا مختصر تبصرہ کتاب میں موجود ہے۔ آج اس کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کا موقع فراہم کرنے پر مولانا موصوف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
سائنس ایک عرصہ تک معقولات اور فلسفہ کا حصہ رہی ہے اور اس کے مباحث عقلیات کے دائرے میں ہوتے رہے ہیں۔ مگر جب سائنس معقولات کے ماحول سے آگے بڑھ کر مشاہدات اور تجربات کے دور میں داخل ہوئی تو اس وقت مغرب کی مذہبی قیادت مسیحیت کے پاس تھی اور پوپ اور چرچ کے ہاتھ میں مذہبیت کی باگ ڈور تھی۔ انہوں نے تجرباتی سائنس کو خدائی کاموں میں مداخلت قرار دے کر اس کی مخالفت کی اور سائنس کی بحث اور تجربات کرنے والوں کو مذہبی ماحول میں مقدمات اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے آکسفورڈ میں وہ مقامات دیکھے ہیں جہاں سائنس پر گفتگو اور تجربات کرنے والوں کو مذہبی عدالتوں میں سرسری سماعت کے بعد تعزیری سزائیں دی جاتی تھیں۔
اس سے یہ غلط فہمی دنیا میں عام ہو گئی کہ مذہب سائنس کا مخالف ہے اور سائنس میں پیشرفت مذہب کی نفی کے مترادف ہے۔ حالانکہ یہ صرف اس وقت کی مسیحی مذہبی قیادت کا موقف اور طرزعمل تھا جس کا اصل مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں بیٹھ کر سائنس کو فلسفہ کے دائرے سے نکال کر تجربات اور مشاہدات کی دنیا سے روشناس کرایا اور موجودہ سائنس کی فکری اور تجرباتی بنیادیں فراہم کیں۔ مگر جب بنیادیں فراہم کرنے کے بعد ان بنیادوں پر عمارت کھڑی کرنے کا وقت آیا تو مسلمان اندلس سے پسپا ہو گئے اور ان کی قائم کردہ بنیادوں پر مغرب نے مشاہداتی اور تجرباتی سائنس کی عمارت کھڑی کر دی جو کہ اب تک ترقی کی راہیں طے کر رہی ہے۔ جبکہ ہم مسلمان وہاں سے ایسے پسپا ہوئے کہ سائنس کے حوالہ سے اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حوصلہ بھی نہ کر سکے۔
اصل صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم نے بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں آیات میں سائنس سے متعلقہ معاملات کا ذکر کیا ہے اور کائنات کے شواہد و احوال پر بحث کی ہے۔ آج کی مختصر گفتگو میں ان میں سے صرف دو کا ذکر کر سکوں گا۔
قرآن کریم نے ایک جگہ ذکر فرمایا ہے کہ ’’سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی انفسھم‘‘ ہم لوگوں کو اپنی قدرت کی نشانیاں کائنات کے اطراف میں اور خود ان کے جسموں میں دکھائیں گے۔ یہ سائنس کی مشاہداتی پیشرفت کے بارے میں قرآن کریم کی پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی۔ فلکیاتی سائنس اور طبی سائنس کی صورت میں دنیا ان دونوں وعدوں کی تکمیل کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ جبکہ قرآن کریم نے اس کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ ’’حتٰی یتبین لھم انہ الحق‘‘ تاکہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے۔ گویا سائنس خدا کی ذات اور قدرت پر انسانوں کے ایمان کا مشاہداتی ذریعہ ہو گی اور جو لوگ دیکھے بغیر خدا کی ذات اور قدرتوں پر بالغیب ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات اور قدرتوں کا یہ مشاہدہ ایمان کی اس منزل تک پہنچائے گا۔
ایک اور مقام پر قرآن کریم نے ’’اولوا الالباب‘‘ (اصحابِ دانش) کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ویتفکرون فی خلق السماوات والارض‘‘ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ان کے سامنے اس صورت میں آتا ہے کہ ’’ربنا ما خلقت ھذا باطلا‘‘ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بے مقصد نہیں بنایا۔ گویا زمین و آسمان کی تخلیق اور مسلسل تخلیقی ماحول پر غور و فکر کائنات کی مقصدیت کی طرف انسان کی راہنمائی کرتا ہے کہ یہ کارخانہ قدرت بے مقصد نہیں ہے بلکہ اس کو بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے کسی مقصد کے لیے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے۔
اس طرح قرآن کریم نے سائنس پر بحث و تمحیص اور اس کے تجربات و مشاہدات کا منطقی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور کائنات کے مقصد تخلیق کو سمجھنا قرار دیا ہے۔ اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سائنس جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے یہ دونوں باتیں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم نے کائنات اور انسان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالہ سے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے سائنسی تحقیقات ان باتوں کی ایک ایک کر کے تائید کرتی جا رہی ہیں جس کی تازہ ترین مثال ایک مغربی سائنس دان کی یہ تحقیق ہے کہ انسان اس زمین کی مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ باہر کسی اور سیارے سے آیا ہے۔ اس کے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ دلائل اپنے فہم کے مطابق اس نے ذکر کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے علاوہ اس زمین کی کسی جاندار مخلوق کو زندگی کے اسباب فراہم کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرنا پڑتا جو انسان کو کرنا پڑتا ہے۔ باقی تمام جاندار مخلوقات کی ضروریات ان کا ماحول خودبخود فراہم کر دیتا ہے جبکہ انسان کو سب کچھ ازخود کرنا پڑتا ہے وغیر ذٰلک۔
اس تناظر میں مولانا محمد سلیمان شاکر کی یہ تصنیف ایک اچھی علمی پیشرفت ہے اور میرے خیال میں اس کا سب سے زیادہ خوشگوار پہلو یہ ہے کہ یہ ایک ’’مولوی‘‘ کی کاوش ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور اس کاوش کو دنیا و آخرت کی قبولیت عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔