امتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ ایسے علماءِ حق کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر دور میں حالات کی رفتار کا جائزہ لیتے ہوئے امتِ مسلمہ کی صحیح راہنمائی کی اور وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انہی میں سے ایک حق گو اور صاحبِ بصیرت عالمِ دین کا تذکرہ آج کے کالم میں کرنے کو جی چاہتا ہے جنہیں تاریخ شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلامؒ کے نام سے یاد کرتی ہے، اور جنہیں کم و بیش اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس طرح کے حالات آج عالمِ اسلام، مسلم حکومتوں اور ملتِ اسلامیہ کو درپیش ہیں، اور اسی مناسبت سے ان کے کچھ واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
یہ ساتویں صدی ہجری کا قصہ ہے جب ایک طرف امتِ مسلمہ کو تاتاریوں کی یورش کا سامنا تھا اور دوسری طرف فرنگی عیسائی مشرق وسطیٰ میں مصر اور شام کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خطے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہے تھے، بلکہ اپنے مفادات کی خاطر ان مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازشیں پروان چڑھانے میں مصروف تھے۔
الشیخ عزالدین بن عبد السلامؒ شام کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے، شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، دمشق کی جامع اموی کے خطیب تھے اور انہیں سلطان العلماء اور شیخ الاسلام کے القاب سے یاد کیا جاتا۔ یہ شام میں سلطان الملک الاشرف کی حکومت کا دور تھا اور مصر میں الملک الکامل کی حکومت تھی۔ دونوں میں رشتہ داری کے باوجود باہمی کشمکش تھی اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی کی تیاری کر رہے تھے کہ شیخ عزالدین بن عبد السلامؒ نے شام کے بادشاہ سے ملاقات کر کے انہیں تاتاریوں کی یلغار کی طرف توجہ دلائی اور سمجھایا کہ اس وقت آپ دونوں کا آپس میں لڑنا امت کے حق میں بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ چنانچہ الملک الاشرف نے آپ کا مشورہ قبول کیا اور مصر کی طرف یلغار کرتی ہوئی فوجوں کا رخ موڑ کر تاتاریوں کے زیرِ قبضہ علاقوں کی طرف کر دیا۔ سلطان نے شیخ سے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے چار باتوں کا بطور خاص ذکر کیا کہ
’’حکمران طبقہ عیاشی میں پڑا ہوا ہے، شراب اور بدکاری کا دور چل رہا ہے، عوام پر نئے نئے محصول اور ٹیکس لگائے جا رہے ہیں اور عام آدمی کو انصاف مہیا نہیں ہو رہا۔‘‘
انہوں نے سلطان کو تلقین کی کہ اس صورتحال کی اصلاح کی جائے اور سلطان نے ان معاملات میں اصلاحات جاری کرنے کا اعلان کیا۔
الملک الاشرف کی وفات کے بعد شام کی حکمرانی کا منصب ان کے جانشین صالح اسماعیل نے سنبھالا اور اس نے مصر کے خلاف فرنگیوں سے فوجی معاہدہ کر لیا۔ اس نے فرنگیوں کو بعض قلعے دیے اور دمشق میں اسلحہ کی خریداری کی اجازت دے دی، جس پر شیخ عز الدینؒ نے فتویٰ جاری کیا کہ فرنگیوں کو اسلحہ فروخت کرنا اور قلعے ان کی تحویل میں دینا حرام ہے۔ اس پر شیخ کو جامع مسجد کی خطابت سے معزول کر دیا گیا اور انہیں گرفتار کر کے بادشاہ اپنے ساتھ ساتھ ایک خیمے میں محصور رکھتا تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ شیخ اپنے خیمے میں قیدی ہونے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے، ساتھ والا خیمہ سلطان صالح اسماعیل کا تھا اور اس کے کچھ فرنگی اتحادی بھی اس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سلطان نے اپنے عیسائی اتحادیوں کو بتایا کہ یہ جس کی آواز تمہیں آ رہی ہے ہمارا سب سے بڑا پادری ہے اور میں نے اسے اس لیے گرفتار کر رکھا ہے کہ اس نے تمہیں قلعے دینے اور اسلحہ فروخت کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اس پر ان فرنگی راہنماؤں نے کہا کہ
’’اگر یہ ہمارا عالم ہوتا تو ہم اس کے پاؤں دھو کر پیتے۔‘‘
اسی دوران سلطان صالح اسماعیل نے شیخ کے پاس وفد بھیجا کہ اگر وہ اپنی موجودہ حالت پر پریشان ہوں تو انہیں پیشکش کی جائے کہ وہ بادشاہ کی دست بوسی کر لیں تو انہیں سابقہ پوزیشن پر پھر بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب جو شیخ نے دیا وہ اپنی دینی حمیت و غیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ
’’میں تو اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ سلطان میرے ہاتھوں کو بوسہ دے، چہ جائیکہ تم مجھے اس کی دست بوسی کا سبق پڑھا رہے ہو۔‘‘
اسی حالت میں مصر اور شام کی جنگ ہوئی، جس میں شامیوں اور فرنگیوں کی مشترکہ فوجوں کو شکست ہوئی اور شیخ عز الدین بن عبد السلامؒ قاہرہ چلے گئے جہاں انہیں اعزاز و اکرام کے ساتھ جامع عمرو بن العاصؓ کی خطابت اور قضا کے منصب پر فائز کیا گیا، لیکن ان کی حق گوئی اور جرأت و استقامت کا معیار و انداز وہی رہا۔ انہی دنوں مصر کے قصر شاہی کے مہتمم فخر الدین عثمان نے ایک مسجد کی چھت پر طبل خانہ کی عمارت بنوا دی جہاں نقارہ بجایا جاتا تھا۔ شیخ نے بطور قاضی اس عمارت کو گرانے کا حکم دیا اور فخر الدین مذکور کو ساقط الشہادۃ قرار دینے کے بعد قضا کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔
شیخ کے فیصلے کو عالمِ اسلام میں یہ حیثیت حاصل تھی کہ ایک بار سلطانِ مصر کا سفیر اس کا پیغام لے کر بغداد میں خلیفۂ وقت کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ خلیفہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ پیغام سلطانِ مصر نے خود تمہیں دیا ہے؟ سفیر نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ یہ پیغام فخر الدین عثمان کی وساطت سے انہیں ملا ہے۔ اس پر خلیفہ نے کہا کہ چونکہ فخرالدین عثمان کو شیخ عز الدین بن عبد السلامؒ نے ساقط الشہادۃ قرار دے رکھا ہے، اس لیے ہم یہ پیغام قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ سفیر واپس مصر گیا اور سلطان سے دوبارہ وہی پیغام براہ راست سن کر پھر بغداد کا سفر کر کے خلیفہ وقت تک پہنچایا۔
شیخ کو سب سے زیادہ فکر تاتاریوں کی یورش کی تھی جو ہر طرف سے عالمِ اسلام کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ شیخ نے سلطانِ مصر الملک الصالح نجم الدین کو تاتاریوں کے خلاف جنگ کرنے اور ان کا راستہ روکنے کے لیے مقابلہ پر آنے کی ترغیب دی۔ سلطان نے تاتاریوں کی ہیبت کی وجہ سے عذر کیا کہ ہمارے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ تاتاریوں کے مقابلہ کے لیے سامانِ جنگ خرید سکیں۔ اس واقعہ کو مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی معروف تصنیف ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ جلد اول میں جس انداز سے ذکر کیا ہے اسے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’اس زمانہ میں تاتاری جابجا سے مسلمانوں پر یورش کر رہے تھے، اسی اثنا میں انہوں نے مصر کا رخ کیا۔ تاتاریوں کی مسلمان پر جو ہیبت بیٹھی ہوئی تھی وہ ضرب المثل ہے۔ مصر میں سراسیمگی پھیل گئی۔ سلطانِ مصر اور اہلِ مصر کو ہمت مقابلہ کی نہیں ہوتی تھی۔ شیخ الاسلام نے ہمت دلائی اور فرمایا کہ تم اللہ کا نام لے کر نکلو، میں فتح کی ضمانت دیتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میرے خزانے میں روپیہ کم ہے، میں تجار سے قرض لینا چاہتا ہوں۔ شیخ نے فرمایا:
’’پہلے اپنے محل کے جواہرات اور اپنی بیگمات کے زیورات نکالو، ارکانِ سلطنت اور امراء دربار اپنی اپنی بیگمات کے وہ زیورات حاضر کریں جو حرام ہیں اور اس کے سکے ڈھلوائے جائیں وہ لشکر میں تقسیم ہوں۔ اس کے بعد اگر ضرورت ہو تو قرض لیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے قرض کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
شیخ کا اتنا رعب تھا کہ بادشاہ اور امراءِ سلطنت نے بے چون و چرا جواہرات اور زیورات شیخ کے سامنے حاضر کر دیے اور ان سے مصارفِ جنگ پورے ہو گئے اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔‘‘
آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ عالمِ اسلام کو امریکی استعمار کی صورت میں نئی تاتاری یورش کا سامنا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بیسیوں فوجی مراکز فرنگیوں کی تحویل میں ہیں جو مسلمان ریاستوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر کے اپنے فوجی تسلط کا بہانہ پیش کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ برہمن سامراج اور صہیونیت کا گٹھ جوڑ ملتِ اسلامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھے ہوئے حکمران مرعوبیت اور سراسیمگی کی علامت بن کر رہ گئے ہیں، امراء اور حکمران طبقے عیاشی اور لوٹ مار کی انتہا کو چھو رہے ہیں، اور سیاست و دانش کا نقاب اوڑھے بہت سے چہرے قوم کی سپر اندازی اور بے غیرتی کا سبق دے رہے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے ایک عدد عز الدین بن عبد السلام کی جو دینی حمیت اور قومی غیرت کا عنوان بن کر سامنے آئے اور حکمران طبقوں کو یہ بات سمجھا دے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عیاشی چھوڑ دو، زنا اور شراب سے توبہ کرو، اللہ تعالیٰ کے دروازے پر جھک جاؤ، حرام ذرائع سے جمع کی ہوئی دولت قومی خزانے کو لوٹا دو، عوام پر نت نئے ٹیکس نہ لگاؤ، انہیں انصاف مہیا کرو اور کفر کے سامنے گردن جھکانے کی بجائے اس کے سامنے ڈٹ جاؤ کہ مسلمان کے لیے غیرت اور کامیابی کا راستہ صرف یہی ہے۔