پرویز رشید صاحب کے بارے میں ہم زیادہ معلومات نہیں رکھتے، بس اتنا معلوم ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم راہنما ہیں۔ اسی وجہ سے میاں محمد نواز شریف کے منظورِ نظر اور وفاقی وزیر اطلاعات ہیں۔ تحریکِ انصاف کے راہنماؤں کے ساتھ ان کی نوک جھونک اخبارات میں نظر سے گزرتی رہتی ہے، یاد نہیں کہ کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہو، مگر قومی پریس میں کم و بیش روز ہی ہو جاتی ہے۔ ان کے فکری شجرۂ نسب کے بارے میں بھی اب سے پہلے کچھ علم نہیں تھا۔ گزشتہ دنوں ایک دوست نے ان کے قادیانی ہونے کا تذکرہ کیا تو ہم نے ٹوک دیا کہ بلا تحقیق کسی کے بارے میں ایسی بات کہنا درست نہیں، پہلے تحقیق کر لیں، اور اگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہو جائے تو ہمیں بھی بتا دیں کیونکہ پھر اس سے اگلا کام عام طور پر ہمارا ہوتا ہے اور ہم یہ خدمت سر انجام دینے میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوتاہی نہیں کریں گے۔ البتہ انہوں نے کسی محفل میں مساجد و مدارس کے حوالہ سے گزشتہ دنوں جو گفتگو کی ہے اور اس کے جو حصے منظر عام پر آئے ہیں، ان سے ان کی فکری برادری کے بارے میں کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا ہے کہ وہ دانشوروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کام دینی حلقوں، اداروں اور مراکز کے بارے میں تخیلات و تصورات کی دنیا میں قائم ہونے والے مفروضوں کی جگالی کرتے رہنا ہے۔ اس جگالی کا منظر تقریباً نصف صدی سے ہم بھی مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ وہی بات دہرائی ہے جو ان کے فکری سرپرست اور اساتذہ گزشتہ دو صدیوں سے کہتے چلے آرہے ہیں۔
مغرب نے انقلابِ فرانس کے بعد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو معاشرہ کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے دورِ جاہلیت سے نکل کر علم کی روشنی کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ اب ہم اپنے معاملات طے کرتے وقت وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے بلکہ وہی کچھ کریں گے جو ہم سوچتے ہیں اور جو ہم خود چاہتے ہیں۔ البتہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ ہماری اجتماعی سوچ کیا ہے اور ہم مجموعی طور پر کیا چاہتے ہیں، اس کا ہم ووٹ کے ذریعے فیصلہ کر لیا کریں گے۔ اسے روشنی کا سفر قرار دے لیا گیا اور ہر اس بات کو جس کی راہنمائی آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے ذریعے ہوتی ہے اسے جہالت کا عنوان دے دیا گیا۔
یہ سفر مسلسل جاری ہے اور اسی پس منظر میں پرویز رشید صاحب کو مسجد و مدرسہ میں دی جانے والی تعلیم ’’جہالت‘‘ نظر آتی ہے، حتیٰ کہ ’’موت کا منظر‘‘ بھی انہیں مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس وقت تک انہیں مضحکہ خیز ہی لگے گا جب تک وہ خود اسے نہیں دیکھ لیں گے۔ اور قرآن کریم (سورۃ المومنون آیت ۱۱۰) کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ:
’’تم نے دین اور اہلِ دین کو تمسخر کا نشانہ بنا لیا تھا حتٰی کہ تم نے میری یاد بھی بھلا دی تھی اور تم ان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔‘‘
مغرب کی اس دانش کے مطابق آسمانی تعلیمات سے انحراف ’’روشنی‘‘ اور وحی الٰہی کا کوئی بھی حوالہ ’’جہالت‘‘ قرار پاتا ہے (نعوذ باللہ) اور پرویز رشید صاحب نے یہی سبق دہرایا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ اس خاندان کے دانشوروں کا یہ سبق ایک عرصہ سے ہم سنتے آرہے ہیں اور ان کے تمسخر اور تضحیک کا انداز بھی نیا نہیں ہے۔ البتہ ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے جس کی طرف اس نسل کے لوکل دانشوروں کی توجہ ابھی تک نہیں گئی اور وہ بدستور آنکھیں بند کیے تصور و تخیل کی دنیا میں وہی ’’پکا راگ‘‘ الاپتے چلے جا رہے ہیں جو انہیں ان کے استادوں نے دو صدیاں قبل رٹایا دیا تھا۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ ان کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور مغرب کے فکری و تہذیبی سیلاب کی وہ سطح اب قائم نہیں رہی جس نے ان کی آنکھیں بند کر دی تھیں۔ وہ آنکھیں کھول کر زمینی حقوق پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کر لیں تو انہیں بہت کچھ بدلا بدلا دکھائی دے گا۔ پرویز رشید صاحب اور ان کے قبیلہ کے دانشوروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ آج کی اعلیٰ دانش ’’سماج کی اجتماعی سوچ اور خواہش‘‘ کا تلخ ذائقہ چکھ لینے کے بعد آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف واپسی کے لیے ’’یوٹرن‘‘ لینے کو کس قدر بے تاب ہے۔ آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے زمینی حقائق پر نظر رکھنے والے اصحابِ دانش تو اس منظر سے محظوظ ہو رہے ہیں اور اسے ’’انجوائے‘‘ کر رہے ہیں جس کی بیسیوں جھلکیوں میں سے صرف دو کا اس موقع پر ہم ذکر کرنا چاہیں گے۔
برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے وہ لیکچر ریکارڈ پر موجود ہیں جو انہوں نے آکسفورڈ میں عالمی حالات کے بارے میں دیے تھے اور جن میں سے ایک میں انہوں نے اپنے دانشوروں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ موجودہ عالمی نظام کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے متبادل نظام کے بارے میں سوچ بچار کریں اور اس کے لیے اسلام کو ’’متبادل عالمی نظام‘‘ کے طور پر اسٹڈی کریں۔ کیونکہ ان کے خیال میں اسلام ہی ’’سسٹم آف لائف‘‘ کے طور پر دنیا کے لیے بہتر متبادل نظام بن سکتا ہے۔ جبکہ سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی کی وہ رپورٹ ابھی تازہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے موجودہ معاشی نظام نے انسانی سوسائٹی کو نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے اور عالمی معیشت میں توازن پیدا کرنے کے لیے ان معاشی اصولوں کو اپنانا ہوگا جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔
معروضی صورتحال یہ ہے کہ عالمی دانش کی اعلیٰ سطح لا مذہبیت کے بھاری پتھر کو چوم کر واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ جبکہ پرویز رشید صاحب کا فکری قبیلہ ابھی تک دو صدیاں قبل کے فکری ماحول میں مگن ہے اور انہیں ہر طرف ’’ہریالی ہی ہریالی‘‘ دکھائی دے رہی ہے۔ پرویز رشید صاحب سے ہمارا زیادہ تعارف نہیں ہے اس لیے ہم سرِدست انہیں صرف یہ مشورہ دینے پر اکتفا کریں گے کہ مہربانی فرما کر اب آنکھیں کھول دیں اور آج کے عالمی ماحول کا خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں جو آج کی دانش کو یہ کہتے ہوئے دعوتِ نظارہ دے رہا ہے کہ: