’’ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں‘‘

   
تاریخ : 
۲۶ مئی ۲۰۱۵ء

ہمارے بزرگوں میں حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ منفرد مزاج کے بزرگ تھے۔ مشکل سے مشکل بات کو سادہ سے سادہ انداز میں بیان کرنے کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ عام طور پر چھوٹی چھوٹی مثالوں اور کہاوتوں کے ذریعہ بات سمجھاتے تھے اور واقعی سمجھا دیا کرتے تھے۔ میں نے جن بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا اور استفادہ کیا ہے ان میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ وہ ہمیشہ تلقین فرمایا کرتے تھے کہ بات سادہ لہجے میں کہو، آسان الفاظ میں کہو اور علم و خطابت کا رعب جمانے کی بجائے اصل بات سمجھانے کی کوشش کیا کرو۔

وہ بہت سے مواقع پر یاد آتے ہیں اور صرف یاد نہیں آتے بلکہ راہ نمائی بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے سامنے بیٹھے سمجھا رہے ہوں۔ دینی حلقوں اور مراکز و مدارس نے جب ’’قومی ایکشن پلان‘‘ کے حوالہ سے خطرہ محسوس کیا کہ اس میں انہیں بطور خاص ہدف بنایا گیا ہے اور قومی ایکشن پلان کے ’’ابتدائی ایکشن‘‘ میں دینی مدارس پر چھاپوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ دراز ہونا شروع ہوا تو بہت سے دوستوں نے بہت بے چینی اور اضطراب کا اظہار کیا۔ کچھ حضرات نے متعدد مواقع پر مجھ سے پوچھا تو میرا جواب یہ تھا کہ بھائی ! یہ آزمائش کے مراحل ہیں جو وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں اور آتے رہنے چاہئیں۔ مگر دینی مدارس کو اور ان کے تعلیمی نظام کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔ اس لیے کہ یہ مدارس بنیادی طور پر قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں جن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا ہوا ہے۔ جبکہ ہم لوگ صرف سبب کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جو ہمارے لیے یقیناًسعادت اور اعزاز کی بات ہے، نہ صرف یہ بلکہ قرآن کریم کے سائے میں ہماری حفاظت بھی ہوتی رہے گی۔

ایسے موقع پر مجھے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی بیان کردہ ایک کہاوت یاد آتی ہے اور میں دوستوں سے ذکر کر دیا کرتا ہوں۔ سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں دینی مراکز اور حلقوں کے خلاف اسی طرح کے دباؤ کا ایک مرحلہ آیا تو حضرت مولانا جالندھریؒ سے ایک مجلس میں پوچھا گیا کہ اس کا مقابلہ آپ کیسے کر سکیں گے جبکہ پوری حکومتی طاقت سامنے ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اور کچھ نہ کر سکے تو ’’پھرررر‘‘ تو کر ہی لیں گے۔ اس پر انہوں نے کہاوت سنائی کہ ایک دفعہ جنگل میں ایک بدمست ہاتھی گھوم رہا تھا۔ ایک درخت پر بسیرا رکھنے والے پرندوں نے محسوس کیاکہ وہ ان کی طرف آرہا ہے اور اس درخت کو ٹکر مارنا چاہتا ہے جس پر ان کا بسیرا ہے۔ وہ پریشان ہوگئے کہ ان کے گھونسلے اور جمع شدہ پونجی سب کچھ اس ٹکر کی نذر ہو جائے گا۔ ایک چڑیا اور چڑا بھی اپنے گھونسلے میں بیٹھے یہ منظر دیکھ کر بے چین ہو رہے تھے کہ اچانک چڑے نے چڑیا سے کہا کہ فکر نہ کرو، تم آرام سے بیٹھو میں کچھ کرتا ہوں۔ چڑیا نے پوچھا کہ تم اس ہاتھی کو روکنے کے لیے کیا کر لو گے؟ اس نے کہا کہ تم دیکھتی جاؤ میں کیا کرتا ہوں۔ چڑا وہاں سے اڑا اور جونہی ہاتھی درخت کے قریب آیا تو اچانک چڑے نے اس کے کان میں گھس کر اپنے پر پھڑپھڑانے شروع کر دیے۔ اس ناگہانی ’’پھرررر‘‘ سے ہاتھی کا رخ تبدیل ہوگیا اور بہت دور جا کر اسے یاد آیا کہ جس درخت کو وہ ٹکر مارنا چاہتا تھا وہ تو ایک سائیڈ پر رہ گیا ہے۔ وہ دوبارہ پلٹا اور ٹکر مارنے کے لیے درخت کی طرف بڑھا، چڑا تاک میں تھا، جونہی ہاتھی قریب آیا اس نے اس کے دوسرے کان میں گھس کر ’’پھرررر‘‘ کر دی اور اس بار بھی وہ اپنی مستی میں دوسری طرف نکل گیا۔ مولانا جالندھریؒ نے فرمایا کہ ہم اور کچھ کر سکیں یا نہیں مگر ’’پھرررر‘‘ تو ضرور کر سکتے ہیں اور یہ ہم کرتے رہیں گے۔

سچی بات یہ ہے کہ اپنی پچاس سالہ تحریکی زندگی میں کئی بار یہ ’’پھرررر‘‘ ہوتے دیکھ چکا ہوں، اور اس کی تازہ ترین واردات کو بھی ’’انجوائے‘‘ کر رہا ہوں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں اور ناجائز اسلحہ کی تلاش میں ملک بھر کے دینی مدارس کو چھاپوں اور گرفتاریوں کا ہدف بنا رکھا تھا اور گھیرا تنگ کرتے جا رہے تھے کہ اچانک ’’پھرررر‘‘ ہوئی اور سامنے کا منظر بدل گیا۔ اب وہ ’’نائن زیرو‘‘ کے سامنے کھڑے تھے، دہشت گرد بھی مل گئے اور اسلحہ کی تلاش بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ جبکہ دینی مدارس میں غریب اساتذہ اور طلبہ کی تلاشی لینے والے ابھی تک حیرت سے آنکھیں مل مل کر دیکھ رہے ہیں کہ ہم گئے کدھر تھے اور نکل کدھر آئے ہیں؟ اس کے ساتھ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے حسابات کی آڈٹ کا غلغلہ بپا ہوا اور میڈیا کے ساتھ ساتھ بہت سی این جی اوز نے آسمان ایسے سر پر اٹھا لیا کہ جیسے سارے ملک کی دولت یہ دینی مدارس ہی لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ اور سویس بینکوں میں پاکستانیوں کی ذخیرہ شدہ رقم ان دینی مدارس ہی کی ہے جو ان کے بہت سے مہربانوں نے ’’ثواب‘‘ کی نیت سے وہاں اپنے ناموں پر جمع کر رکھی ہے۔ مدارس کی نگرانی اور حساب کتاب کی پڑتال تھانوں میں ہونے لگی اور ایس ایچ او کی سطح کے پولیس افسر اس طرح دینی مدارس پر چڑھ دوڑے جیسے وہ اپنا ’’حصہ‘‘ نہ ملنے پر کسی مقدمہ کے فریق کے ساتھ سلوک کیا کرتے ہیں۔ مگر ایک ناگہانی ’’پھرررر‘‘ نے پھر سارا منظر بدل ڈالا اور اب پوری قوم ’’ایگزیکٹ‘‘ کے سامنے کھڑی ہے۔ جعلی ڈگریاں ہیں، اربوں روپے کا فراڈ ہے، خود ساختہ فرضی یونیورسٹیاں ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کے قومی وقار کی طرف اٹھی ہوئی نگاہیں اور انگلیاں ہیں۔ مگر ہمارے بعض دانش ور اب بھی ’’پکے راگ‘‘ کی طرز پر آنکھیں بند کیے یہی الاپے جا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے دینی مدارس عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور پاکستان کی شناخت اور ساکھ کو مجروح کر رہے ہیں۔‘‘

ایک چھوٹی سی ’’پھرررر‘‘ کراچی کے ’’سانحہ صفورا‘‘ کے حوالہ سے بھی سننے میں آئی، اس المناک اور شرمناک دہشت گردی کے بعد بہت سے لوگ انتظار میں تھے کہ کراچی کے دینی مدارس اب ’’ایکشن پلان‘‘ کی ہٹ پر ہوں گے اور وہ اس کا تماشہ دیکھیں گے۔ مگر وہ دہشت گرد پکڑے گئے اور ان میں کوئی بھی کسی مدرسہ کا طالب علم نہیں نکلا بلکہ ان کے پاس یونیورسٹیوں کی اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں ہیں جن کے بارے میں یہ ابھی دیکھنا ہے کہ یہ ڈگریاں بھی کہیں ’’ایگزیکٹ‘‘ کے راستہ سے تو نہیں آئیں۔ جبکہ دینی مدرسہ ان سب مناظر کو ایک طرف کھڑا دیکھ رہا ہے اور اس کے لبوں کی یہ گنگناہٹ تاریخ کے کانوں میں گونج رہی ہے کہ

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
   
2016ء سے
Flag Counter