دفاع پاکستان کونسل کے بارے میں امریکی بیانات پر سینٹ آف پاکستان میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبد الغفور حیدری کا ردعمل خوش آئند ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ الگ الگ عوامی جلسے کرنے کے باوجود جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑوں کی قیادتیں امریکہ کی مسلسل مداخلت اور جارحیت کے خلاف موقف اور پالیسی کے حوالے سے پوری طرح متفق ہیں جو بہرحال باعث اطمینان ہے۔ مولانا حیدری کا یہ حوصلہ افزا بیان آج ہی اخبارات میں نظر سے گزرا ہے کہ وہ دفاع پاکستان کونسل کے بارے میں امریکی بیان کی مذمت کرتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل اپنے اعلانات کے مطابق پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملوں کے خلاف اور نیٹو سپلائی پر پابندی برقرار رکھنے کے حق میں رائے عامہ کی نمائندگی کا ایک مشترکہ فورم ہے جس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی اختیار کرے اور پاکستان کی قومی خودمختاری اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے ناگزیر تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کرے۔ جبکہ اسی ضمن میں ڈرون حملوں کا جواب دینے اور نیٹو سپلائی روکنے کے فیصلے کو مستقل طور پر جاری رکھنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک نیٹو سپلائی پر پابندی کو برقرار رکھنے اور ڈرون حملوں کا جواب دینے کی بات ہے یہ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کے دل کی آواز ہے اور نہ صرف پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ اپنی متفقہ قرارداد میں کم و بیش اسی موقف کا اظہار کر چکی ہے بلکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس نے بھی قومی خودمختاری، ملکی سالمیت اور بین الاقوامی سرحدوں کے احترام کے بارے میں واضح اور دوٹوک موقف کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود نہ تو ڈرون حملوں کا جواب دیا جا رہا ہے اور نہ ہی نیٹو سپلائی کو مستقل طور پر بند رکھنے کی بات کی جا رہی ہے بلکہ اس کے برعکس فضائی طور پر نیٹو سپلائی بحال کر دی گئی ہے اور وزیراعظم نے یہ کہا ہے کہ اگر قومی مفاد میں ہوا تو نیٹو سپلائی بحال کر دی جائے گی۔ خدا جانے وزیراعظم کے ذہن میں قومی مفاد کا کیا تصور ہے کہ ملک کی رائے عامہ اور قومی و دینی حلقوں کی متفقہ آواز کے باوجود انہیں ابھی تک قومی مفاد کو سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہے اور وہ اس قومی و عوامی دائرہ سے ہٹ کر اور کسی جگہ سے ’’قومی مفاد‘‘ کی کلیئرنس حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بہرحال یہ ان کے سوچنے کی بات ہے جبکہ عوامی سطح پر پوری قوم یک آواز ہو کر مطالبہ کر رہی ہے کہ حکومت اس دلدل سے نکلے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے قومی خودمختاری اور وحدت کے تقاضوں کی پاسداری کرے۔
دفاع پاکستان کونسل نے اب تک جو بھرپور اور کامیاب عوامی اجتماعات کیے ہیں ان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات کا رخ کیا ہے اور وہ اپنی حکومت سے کیا چاہتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق یہ اعلان کر چکے ہیں کہ کونسل صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جنگی اتحاد ختم کیا جائے اور نیٹو سپلائی پر پابندی برقرار رکھتے ہوئے ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے خیال میں حکمت و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ مولانا سمیع الحق کے اعلان کے مطابق دفاع پاکستان کونسل کو اسی ایجنڈے کے لیے مخصوص رکھا جائے اور اسے ایک ایسی بھرپور تحریکی قوت کے طور پر منظم کیا جائے جو اس قسم کے دینی و قومی مسائل میں رائے عامہ کی نمائندگی کا فریضہ مستقل طور پر سرانجام دیتی رہے۔
ہم ایک عرصہ سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ سیاسی مدوجزر اور انتخابی ترجیحات سے بالاتر ایک ایسی عوامی تحریکی قوت کی اشد ضرورت ہے جو قومی و دینی معاملات پر عوامی دباؤ کو منظم کر سکے اور اسے انتخابی سیاست کے جھمیلوں سے آزاد رکھتے ہوئے مشترکہ ملی و قومی مسائل پر عوامی جذبات کے بھرپور اظہار کے مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر مستقل حیثیت سے قائم رکھا جائے۔ ہمارا قومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ عوامی مطالبات منوانے کا مؤثر ذریعہ اسٹریٹ پاور ہی کو سمجھا جاتا ہے اور اب تک کے تجربات کی روشنی میں ہمارے ہاں ’’اسٹریٹ پاور‘‘ ان معاملات میں ’’ووٹ پاور‘‘ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر یہ منظر سامنے رکھ لیجئے کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو گزشتہ انتخابات میں پاکستانی عوام کی غالب اکثریت نے مسترد کر دیا تھا اور منتخب پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد نے اس عوامی فیصلے پر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی تھی لیکن اس کے باوجود پرویز مشرف کی پالیسیاں اب تک جاری ہیں اور ہماری حکومت انہی پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہے جن پالیسیوں کے خلاف عوام سے ووٹ لے کر وہ برسراقتدار آئی ہے۔ لیکن اسٹریٹ پاور کا معاملہ اس سے مختلف ہے اور تجربہ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جس مسئلہ میں بھی اسٹریٹ پاور زیادہ منظم ہو کر سامنے آئی ہے اس میں حکومت کو پس پا ہونا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں عوامی ووٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی متفقہ قرارداد کے بعد امریکی حلقوں کی جانب سے وہ ردعمل سامنے نہیں آیا تھا جو ردعمل دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے اسٹریٹ پاور کو منظم کرنے کی مہم پر سامنے آیا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی ہمارے اس قومی اور حکومتی مزاج سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں سے کوئی عوامی مطالبہ منوانے کے لیے ہمیشہ اسٹریٹ پاور ہی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ بلکہ ہمارا تو اس سلسلہ میں مستقل موقف ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے نہ ’’ووٹ پاور‘‘ مؤثر ثابت ہو رہی ہے اور نہ ہی ہتھیار اٹھانے کی پالیسی (درست ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے قطع نظر) اس سلسلہ میں نتیجہ خیز دکھائی دے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے نزدیک اصل قوت اور صحیح راستہ ’’اسٹریٹ پاور‘‘ ہی ہے اور اگر تمام مکاتب فکر اور دینی جماعتیں متحد ہو کر ایرانیوں کی طرح اس قوت کو حکمت و تدبر کے ساتھ منظم کر سکیں تو حکومت کو نفاذ اسلام کے سلسلہ میں دستوری و قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے مجبور کر دینا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
بہرحال اس پس منظر میں دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیاں ہمارے نزدیک عوامی جذبات کے منظم اظہار کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں جن کا تسلسل جاری رہنا چاہیے اور ۲۰ فروری کو اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے جسے کامیاب بنانے کے لیے تمام دینی و سیاسی حلقوں کو تعاون کرنا چاہیے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس دھرنے کو گزشتہ اجتماعات کی طرح کامیابی سے نوازیں اور ایک منظم عوامی جدوجہد کے آغاز کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔