روزنامہ پاکستان لاہور نے ۱۵ مارچ ۲۰۰۷ء کو اے پی پی کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ تھائی لینڈ کی حکومت نے شراب اور الکوحل کے اشتہارات پر پابندی کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ خبر کے مطابق وزیر صحت مونگ کول نا نے بتایا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس قانون کو بہت جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ سکولوں، مندروں اور حکومتی دفاتر کے قریب شراب فروخت کرنے پر پابندی ہوگی۔
تھائی لینڈ غیر مسلم اکثریت کا ملک ہے اور وہاں کی حکومت بھی غیر مسلم ہے لیکن وہ شراب کی تباہ کاریوں اور اس کے منفی معاشرتی اثرات سے آگاہ ہے اور اپنے ملک کے عوام کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے متحرک ہے، مگر اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ شراب پر ایک عرصہ سے جو پابندی عائد ہے اسے کسی طرح ہٹانے اور شراب کی فروخت اور استعمال کو کھلے بندوں عام کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن نیازی اور بعض دیگر وزراء کے یہ ریمارکس سامنے آئے تھے کہ چونکہ شراب پر پابندی کے باعث ہیروئن کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے شراب پر عائد پابندی ختم کر دینی چاہیے۔ لیکن ایسا کہنے والے حضرات اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ اگر پاکستان میں ہیروئن کے استعمال میں اضافہ کی وجہ شراب پر پابندی ہے تو یورپ کے ان ممالک میں جہاں شراب نوشی اور اس کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے وہاں ہیروئن کا استعمال کیوں بڑھ رہا ہے؟ جبکہ وفاقی وزراء کے ان ریمارکس کے بعد سے میڈیا کے مختلف چینلز پر اس بحث کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے کہ شراب پر پابندی کیوں نہ ہٹائی جائے؟ میڈیا پر شراب کے حوالہ سے جس بحث کا آغاز ہوگیا ہے بالکل اسی نوعیت کی بحث حدود آرڈیننس کے بارے میں بھی چھیڑی گئی تھی اور ذرائع ابلاغ سے مسلسل یکطرفہ پراپیگنڈا کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کی فضا قائم کرنے کے بعد حدود آرڈیننس میں ترامیم کا ایکٹ لا کر اسے غیر مؤثر کر دیا گیا ہے۔ اس لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ غالباً اعلیٰ حلقوں میں شراب پر پابندی ختم کرنے کی بات بھی طے پا چکی ہے اور میڈیا پر کچھ عرصہ تک بحث چلا کر شراب کی فروخت اور استعمال کو ممنوع قرار دینے والا قانون ختم کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
شراب اسلام میں حرام ہے اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہ کیے جانے کی دستوری ضمانت کی موجودگی میں شراب پر پابندی کا قانون ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے ہم اپنے حکمرانوں سے عرض کریں گے کہ اگر قرآن و سنت اور حلال و حرام کی باتیں خدانخواستہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں تو کم از کم شراب کے جسمانی اور طبی نقصانات کو ہی سامنے رکھ کر اس ’’ام الخبائث‘‘ کا راستہ کھولنے سے باز رہیں، ان سے بہتر تو تھائی لینڈ کی غیر مسلم حکومت ہے جو اپنی رعایا کے ایک بڑے حصے کو شراب کی خباثت سے بچانے کے لیے فکر مند ہیں، کیا ہمارے حکمران اس سے بھی سبق حاصل نہیں کریں گے؟