یومِ آزادئ وطن کا پیغام

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۹ اگست ۲۰۲۵ء

(بعد نماز عصر ہفتہ وار درس)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصار میں زندگی گزار رہے ہیں۔ نعمتوں کے بارے میں اللہ رب العزت نے اپنے کچھ ضابطے اور اصول بیان کیے ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں استعمال کرتے ہوئے ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعتموں کے بارے میں ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں، اس حوالے سے چند باتیں عرض کروں گا۔

(۱) اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے ’’اٰتاکم من کل ما سالتموہ‘‘ (ابراہیم ۳۴) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر وہ چیز دی ہے جو تم نے مانگی تھی۔ حالانکہ ہم نے نعمتیں مانگی تو نہیں تھیں۔ اس کا معنی مفسرین یہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو ہر وہ چیز دی ہے جس کی اسے ضرورت تھی۔ انسانی وجود کے اندر جن چیزوں کی ضرورت دی تھیں وہ بھی دی ہیں، دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، گردشِ خون کے لیے دل وغیرہ۔ اور وجود سے باہر جس ماحول کی ضرورت تھی وہ بھی دیا ہے، پانی، ہوا، مٹی، سبزہ وغیرہ۔ اس طرح ’’اتاکم من کل ما سالتموہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جس چیز کی تمہیں ضرورت تھی وہ میں نے تمہیں دی ہے۔

(۲) دوسری بات یہ فرمائی کہ ’’ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا‘‘ (ابراہیم ۳۴) میری نعمتوں کو تم شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ انسان کا ساڑھے پانچ چھ فٹ کا وجود ہے جس پر طب یا میڈیکل سائنس ہزاروں سالوں سے تحقیق کر رہی ہے، لیکن میرا سوال ہے کہ کیا آج کی جدید ترین میڈیکل سائنس یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہے کہ انسان کے وجود میں جو کچھ ہے وہ سب ہم معلوم کر چکے ہیں اور کوئی نئی چیز دریافت ہونے کا امکان نہیں ہے؟ جبکہ ہر کچھ عرصہ بعد انسانی جسم کے حوالے سے کسی نئی چیز کا انکشاف ہوتا ہے۔ اور جب اس دو ڈھائی من کے وجود کے بارے میں ہم ہر چیز معلوم کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے تو کائنات میں کیا کچھ موجود ہے، وہ تو بہت دور کی بات ہے۔

سانس اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس پر زندگی کا مدار ہے، شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سانس میں دو نعمتیں ہیں: سانس کا اندر جانا الگ نعمت ہے، اور اندر جا کر وہ باہر آگیا تو یہ الگ نعمت ہے۔ انسان اپنے سانس ہی شمار کر لے تو بڑی بات ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا‘‘ میری نعمتیں تم شمار نہیں کر سکتے۔

(۳) تیسری بات یہ بیان فرمائی کہ ’’لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ (ابراہیم ۸) میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو انہیں بڑھاتا چلا جاؤں گا، اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہو گا۔ شکر کا ایک معنی تو یہ ہے کہ انسان زبانی طور پر نعمت کا شکر ادا کرے، اور ایک ہے اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کرنا کہ جس مقصد کے لیے جو نعمت دی گئی ہے اسی کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے اور انہیں صحیح استعمال کرو گے تو میں اپنی نعمتیں بڑھاتا چلا جاؤں گا، ’’ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ اگر ناشکری کرو گے یا نعمتوں کا غلط استعمال کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہو گا۔

(۴) ایک اور بات بھی اللہ رب العزت نے فرمائی ہے کہ جو نعمت انسان خود مانگ کر لے اس کی ناشکری پر اللہ تعالیٰ دوہرا عذاب دیتے ہیں۔ سورۃ المائدہ میں اللہ رب العزت نے مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا واقعہ بیان کیا ہے، جب حواریوں نے مطالبہ کیا کہ ’’ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مآئدۃ من السمآء‘‘ کیا اللہ آسمان سے پکے پکائے کھانے بھیج سکتا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اللہ سے ڈرو اگر تم میں ایمان ہے۔ انہوں نے جب اصرار کیا تو حضرت عیسٰی علیہ اسلام نے درخواست کی ’’اللھم ربنا انزل علینا مآئدۃ من السماء‘‘ یا اللہ یہ سوال کر رہے ہیں، ہم پر مہربانی فرما اور ہمارے لیے دسترخوان اتار دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’انی منزلھا علیکم فمن یکفر بعد منکم فانی اعذبہ عذابا لا اعذبہ احدا من العالمین‘‘ ٹھیک ہے، یہ نعمت دے دیتا ہوں لیکن یہ یاد رکھنا کہ مانگی ہوئی نعمت کی ناشکری کی سزا بھی وہ دوں گا جو کائنات میں کسی کو نہیں دی۔

اس پر اللہ رب العزت نے صبح شام دستر خوان اتارنا شروع کر دیا لیکن شرط یہ تھی کہ دسترخوان پر جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ، ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتے۔ میں مثال دیا کرتا ہوں کہ شرط یہ تھی کہ جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ لیکن جیب میں شاپر نہیں لے کر آؤ گے۔ انہوں نے وہی کام کیا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا، تمہیں کہا تھا کہ یہ نہ کرنا، لیکن تم باز نہیں آئے۔ پھر اللہ رب العزت نے اس نعمت کی ناشکری کرنے والوں کو کیا سزا دی؟ رات کو سوئے تو انسان تھے، صبح اٹھے تو خنزیر بن چکے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ بھی ہے کہ مانگی ہوئی نعمتوں پر ناشکری کی سزا بھی اسی حساب سے ہو گی۔

یہ سب میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ یہ اگست کا مہینہ چل رہا ہے، ہم دو چار دن کے بعد یومِ آزادی منانے والے ہیں، اور قیامِ پاکستان کی نعمت وہ ہے جو ہم نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر حاصل کی تھی کہ یا اللہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، ہمیں الگ ملک دے دے۔ اور ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے احکام نافذ کریں گے۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین اور لیڈروں نے اپنی تقاریر اور بیانات میں تسلسل کے ساتھ یہ کہا تھا کہ ہم اس نئے وطن میں اللہ کا قانون نافذ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نعمت عطا کر دی لیکن ہم ۷۸ سال سے طائف کے بنو ثقیف کی طرح اپنی شرطوں پر اڑے ہوئے ہیں۔ اس پر ایک واقعہ عرض کروں گا۔

فتح مکہ کے بعد حنین اور اوطاس کی جنگیں ہوئیں اور پھر حضورؐ نے طائف کا محاصرہ کر لیا لیکن یہ محاصرہ کامیاب نہ ہو سکا، آپؐ محاصرہ اٹھا کر مدینہ منورہ چلے آئے۔ بنو ثقیف والوں کا ایک جرگہ بھی پیچھے مدینہ منورہ پہنچ گیا کہ آپ تو ہمیں فتح نہیں کر سکے، ہم خود ہی کلمہ پڑھنے آئے ہیں لیکن ہماری کچھ شرطیں ہیں۔ ان کے دل میں یہ مان تھا کہ ہمیں یہ فتح نہیں کر سکے تو ہم اپنی شرطوں پر کلمہ پڑھیں گے۔ وہ شرطیں کیا تھیں؟

پہلی شرط یہ تھی کہ جیسے آپ نے باقی سارے بت توڑ دیے ہیں اس طرح ہمارا بت ’’لات‘‘ نہیں توڑیں گے، یہ ہماری ثقافتی علامت ہے، ہم اس کی عبادت نہیں کریں گے لیکن اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری شرط یہ کہ آپ پانچ وقت کی نماز کا حکم دیتے ہیں، ہم پڑھیں گے ضرور لیکن اوقات کا تعین خود کریں گے۔ تیسری شرط یہ کہ آپ شراب کو حرام کہتے ہیں، ہمارا تو علاقہ ہی انگوروں کا ہے، انگور پکا کر منڈی میں بیچتے ہیں تو اچھا خرچہ نکل آتا ہے۔ چوتھی شرط یہ کہ آپ کہتے ہیں سود چھوڑ دو، ہمارا تو سارا کاروبار ہی سود پر ہے، سود کے بغیر ہمارا کام نہیں چلتا۔ پانچویں شرط یہ کہ آپ فرماتے ہیں کہ زنا چھوڑنا ہو گا، ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اس لیے ہمارا تو اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری شرائط مسترد فرما دیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام کوئی سپیئرپارٹس کی دکان نہیں ہے ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ (البقرۃ ۲۰۸) اسلام تو پورا پیکج ہے۔ حضورؐ نے انکار کر دیا تو روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے رات کو آپس میں مشورہ کیا کہ بات تو ٹھیک ہے کہ یہ ہمارے لیے اپنے اصول تو نہیں بدل سکتے کہ مکہ کی نمازیں الگ ہوں اور طائف کی الگ، مکہ کا حلال حرام الگ ہو اور طائف کا حلال حرام الگ، دین تو سب کا ایک ہی ہو گا۔ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر انہوں نے اپنی شرطیں واپس لے لیں۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ۷۸ سال سے اپنی شرطوں پر کھڑے ہیں کہ فلاں کام بھی نہیں کریں گے، فلاں بھی نہیں کریں گے، باقی قرآن و سنت سب ٹھیک ہے۔ ہمیں اپنے طرزعمل پہ نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یومِ آزادی کا پیغام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت مانگنے پر دی ہے اس کی ناشکری نہ کریں اور اللہ کے عذاب سے ڈریں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائیں اور اپنے وطن کی آزادی و استحکام کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter