برما (میانمار) کے صوبہ اراکان سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے علاقہ میں اکثریت میں ہونے کے باوجود بدھ حکومت کے مظالم اور کسمپرسی کا شکار ہیں اور اس خطہ کے ہزاروں مسلمان جلا وطنی کے عالم میں پڑوسی ممالک میں دربدر دھکے کھا رہے ہیں۔ جمعیۃ خالد بن ولیدؓ الخیریۃ کے نام سے ایک رفاہی تنظیم ان مسلمانوں کی دیکھ بھال کے لیے مسلسل مصروف عمل ہے جس کے ذمہ دار مولانا عبد القدوس برمی ہر سال پاکستان کے مختلف شہروں میں رمضان المبارک کے دوران اہل خیر سے تعاون حاصل کرنے کے لیے گھومتے ہیں اور گوجرانوالہ بھی آتے ہیں۔ اس سال بھی معمول کے مطابق آئے اور رمضان المبارک کے پہلے جمعۃ المبارک کے اجتماع میں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے نمازیوں نے راقم الحروف کی اپیل پر ان سے کچھ تعاون کیا۔
اراکان کے بارے میں دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ
’’زیریں برما کا انتہائی مغربی حصہ جو کوہستان اراکان، یوما اور خلیج بنگال کے درمیان واقع ہے۔ ۱۱۹۹ھ (۱۷۸۴ء) تک اراکان ایک خودمختار مملکت تھی اس کے بعد یہ برطانوی حکومت کے تحت ۱۸۲۶ء سے برما کا حصہ بن گئی۔‘‘
اراکان مسلم اکثریت کا صوبہ ہے لیکن برما میں شامل ہونے کے بعد اس خطہ کے مسلمانوں کو کسی دور میں بھی امن اور سکون میسر نہیں آیا اور اب بھی وہ برما (میانمار) کی حکومت کے مظالم کا نشانہ ہیں۔ مولانا عبد القدوس برمی نے جمعیۃ خالد بن ولیدؓ کے آرگن ’’الرباط‘‘ کا تازہ شمارہ بھی مطالعہ کے لیے مرحمت فرمایا جس میں برما کے مظلوم مسلمانوں کے حالات و مسائل کے بارے میں کافی معلومات موجود ہیں، ان میں سے چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
جامعہ اسلامیہ کاکس بازار بنگلہ دیش کے استاذ حدیث مولانا مفتی ابو فیض کے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۱ء سے اراکانی مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش آنا شروع ہوئے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مگر بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں کی حوصلہ شکن صورتحال کے باعث ان کی بڑی تعداد برما واپس جانے اور پہلے سے زیادہ جبر و تشدد کا نشانہ بننے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اڑھائی لاکھ افراد بنگلہ دیش کیمپوں سے ناروا پابندیوں کے باعث واپس گئے ہیں اور برما میں ریاستی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان مہاجرین کو کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں، پوری فیملی کو صرف ایک کمرہ دیا جاتا ہے، تیس گھرانوں کے لیے دو بیت الخلاء، ایک پانی کا نل اور دو چولہے مشترک طور پر دیے جاتے ہیں جس سے روز مرہ کے معمولات کی ادائیگی بھی ممکن نہیں رہتی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ملنے والی امداد مہاجرین تک نہیں پہنچتی، ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کر پاتے اور شادی کی منظوری کے لیے ہزاروں روپے رشوت دینا پڑتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف اراکان میں نکاح شادی کے حوالہ سے جو نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:
- نکاح سے قبل باقاعدہ درخواست دے کر منظوری لینا پڑتی ہے جس کی فیس دس ہزار روپے ہے۔
- شادی کے لیے کم از کم عمر لڑکی کے لیے اٹھارہ برس ہے جبکہ اراکانی مسلمان اپنی بچیوں کو عصمت دری سے بچانے کے لیے بالغ ہونے کے فورًا بعد ان کی شادی کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
- طبی علاج و معائنہ کے نام سے جوان لڑکی کو حکومت کے مقرر کردہ تھانہ یا ادارہ میں ہفتے دو ہفتے تک تنہا رہنا پڑتا ہے۔
- عقد نکاح کے فرائض حکومتی ذمہ دار انجام دیتے ہیں اور وہاں عام طور پر دو مسلمان گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں سمجھی جاتی جس سے نکاح کی شرعی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
- نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی کا وہاں جانا ضروری ہوتا ہے اور ان کے ساتھ اور کوئی نہیں جا سکتا۔ جبکہ لڑکی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردے میں نہ ہو بلکہ ننگے سر ہو۔
- کسی مجبوری کے تحت بھی مسلمان کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ملتی۔
- بیوی فوت ہوجانے پر ایک سال تک دوسری شادی کرنے کی ممانعت ہے۔
اس کے علاوہ وہاں کے علماء کرام اور دینی رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ دو سال قبل برما واپس جانے والے چند جید علماء اور قدآور حضرات کو حکومت نے جولائی ۲۰۰۰ء میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ ان گرفتاریوں کا آغاز مولوی علی احمد کی گرفتاری سے ہوا جو اب سے سات ماہ قبل بنگلہ دیش کے کوتو پلنگ کیمپ سے واپس گئے تھے، انہیں مجاہد اور دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، زدوکوب کرنے کے علاوہ پلاسٹک جلا کر ان کے بدن پر ڈالا جاتا تھا اور لکڑی کے تختوں پر میخیں گاڑ کر انہیں ان پر کھڑا کیا جاتا رہا۔ ان کے علاوہ چالیس علماء کرام گرفتار ہوئے جن میں مولوی محبوب عالم، نو مسلم مولوی سعید عالم، مولوی زکریا، مولوی شمس العالم اور مولوی عبد الشکور بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے مولوی علی احمد سمیت تین علماء غائب ہیں جن کا تذکرہ کرنا اور سرکاری اداروں سے ان کے بارے میں دریافت کرنا بھی جرم ہے، اس لیے عام طور پر سمجھا جا رہا ہے کہ وہ تینوں علماء شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان علماء کرام کے علاوہ خالد حسین، فرقان، ولی محمد اور صدیق احمد نامی سرکاری اہل کاروں کو بھی اس جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے کہ انہوں نے ان علماء کی وطن واپسی کی رپورٹ کیوں نہیں کی تھی۔
اراکان کے مداس عربیہ کے لیے یہ قانون جاری کیا گیا ہے کہ روزانہ دو مرتبہ طلبہ اور علماء کی فہرست اور رپورٹ فوج کو پہنچائی جائے، جو غیر حاضر ہوتا ہے اس پر دہشت گرد یا باغی کا الزام لگ جاتا ہے، دوبارہ اس کا داخلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ علماء و مشائخ کے مواعظ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ عینی شاہدوں کے مطابق فقیدا بازار میں تین عالم (جو وعظ و تقریر کر رہے تھے) گرفتار کیے گئے، ایک کی آنکھ پھوڑ دی گئی، ایک کی دونوں ٹانگیں باندھ کر گھسیٹا گیا اور ایک کے ہاتھوں کو پائنچوں سے کاٹ کر اوپر کہنیوں کے قریب چمڑے تک سلوا دیا گیا۔
’’الرباط‘‘ کے اسی شمارہ میں مولانا بشیر احمد صادق آف اراکان کے مضمون میں یہ دلخراش واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ جولائی ۲۰۰۰ء کے دوران حکومت کے کارندے حسب معمول شمالی منگڈو کی مشہور بستی والی دونگ کے گشت میں تھے کہ اچانک ایک حاملہ خاتون نظر آئی، حکومتی کارندوں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ نو ماہ قبل اس کی شادی ہوئی تھی، اس پر کارندوں نے اپنی فائل سے فہرست نکال کر چیک کی اس میں اس خاتون کا نام نہیں تھا۔ خاتون نے دوسرے استفسار پر جواب دیا کہ اس کی شادی شریعت کے مطابق ہوئی تھی جس پر اسے گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا اور وہاں اس قدر تشدد کیا گیا کہ حمل گر گیا اور خاتون کی موت واقع ہوگئی۔
ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک علاقائی کونسلر صدیق احمد کو اس جرم میں گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے اپنے علاقے میں علماء کرام کی آمد کی اطلاع نہیں دی تھی، بعد میں اس کونسلر کے بیٹے نے بتایا کہ ہمیں قطعاً معلوم نہیں کہ انہیں کہا رکھا گیا ہے، ہم نے حکومت سے کہا ہم دو لاکھ روپیہ دینے کے لیے تیار ہیں ہمیں صرف ایک دفعہ اپنے والد کی شکل دکھا دیں لیکن یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔ بعد میں جب ایک وفد بڑی مشکل سے قیدیوں سے ملنے گیا تو وہاں یہ ہولناک منظر دیکھا کہ بعض علماء کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں، بعض کو برہنہ کر کے رسیوں سے دوسرے مادر زاد برہنہ قیدیوں کے ساتھ باندھا گیا ہے، بعض قیدی درختوں کے ساتھ الٹے لٹکائے ہوئے ہیں۔
یہ ایک ہلکا سا خاکہ ہے اراکان کے مسلمانوں کی بے بسی کا جو وہ اپنے ملک میں اور ایک بڑے مسلم ملک بنگلہ دیش کے پڑوس میں صرف اس لیے بھگت رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنے مذہب اسلام پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ آج کے دور میں انسانی حقوق کے علمبردار بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن چونکہ ذبح ہونے والے مسلمان ہیں اس لیے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں اگر کوئی ادارہ مزید معلومات حاصل کرنا چاہےتو مولانا عبد القدوس برمی سے ’’اسلام میڈیکل سٹور، گلی نمبر ۳، ۳۶ جی لانڈھی، کراچی (فون ۵۰۴۱۵۰۸) پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔