جمعیۃ کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں اہم فیصلے

   
۷ جنوری ۱۹۷۷ء

جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ عاملہ اور صوبائی امراء و نظماء کا مشترکہ اجلاس ۷ محرم الحرام ۱۳۹۷ھ بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے دارالعلوم حنفیہ عثمانیہ ورکشاپی محلہ راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتحال پر غور و خوض کے بعد متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔

حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم علالت کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہو سکے، اس لیے اجلاس کی صدارت نائب امیر اول حضرت مولانا محمد شریف وٹو مدظلہ العالی نے فرمائی اور مندرجہ ذیل حضرات اجلاس میں شریک ہوئے: حضرت مولانا عبید اللہ انور۔ حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ۔ حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف، کلاچی۔ حضرت مولانا ایوب جان بنوری، پشاور۔ حضرت مولانا صاحبزادہ عبد الباری جان، پشاور۔ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب، کوئٹہ۔ قاری نور الحق قریشی ایڈووکیٹ، ملتان۔ حاجی محمد زمان خان اچکزئی، کوئٹہ۔ خواجہ عبد الرؤف، ملتان۔ احقر ابوعمار زاہد الراشدی، گوجرانوالہ۔

صوبہ سندھ کے امیر مولانا سید محمد شاہ صاحب امروٹی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سکھر نے محرم الحرام کا پورا مہینہ امروٹ شریف میں نظربند کر دیا ہے اس لیے وہ بھی شرکت نہ فرما سکے۔ جبکہ صوبہ سندھ کے ناظمِ اعلیٰ مولانا نور محمد نے ٹیلیگرام کے ذریعہ شرکت سے مصروفیت کی بنا پر معذوری اور فیصلوں سے مکمل اتفاق کی اطلاع کر دی۔

قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمود مدظلہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی تازہ ترین سیاسی صورتحال اور اپوزیشن اتحاد کے سلسلہ میں ہونے والے مذاکرات پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں انتخابات کی تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دینی چاہئیں تاکہ انتخابات میں حصہ لینے کی صورت میں ہم پورے اعتماد کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کر سکیں۔

آپ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم بھٹو خود ملک میں مسلسل انتخابی دوروں میں مصروف ہیں لیکن اپوزیشن کو وہ الیکشن مہم کے لیے بہت کم وقت دیں گے اور اچانک انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے، اس لیے ہمیں ابتدائی تیاریاں بہرصورت مکمل کر لینی چاہئیں۔

پارلیمانی بورڈ

مفتی صاحب کے خطاب کے بعد مرکزی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر موجود جمعیۃ کی مجالسِ عاملہ کو اسی سطح پر پارلیمانی بورڈ کی حیثیت دے دی جائے اور پارلیمانی بورڈ بلا تاخیر اپنے اجلاس منعقد کر کے اپنے حلقوں میں انتخابات کے سلسلے میں ضروری کوائف کی چھان بین کریں اور ۔۔۔ سے بالائی سطح کے پارلیمانی بورڈ کو آگاہ کریں۔

اس موقع پر مولانا مفتی محمود نے بتایا کہ انتخابات سے متعلق بنیادی فیصلہ ضلعی سطح کا پارلیمانی بورڈ کرے گا۔ اس کے فیصلے کے خلاف صوبائی بورڈ سے اور صوبائی بورڈ کے فیصلے کے خلاف مرکزی بورڈ سے اپیل کی جا سکے گی۔ البتہ ضلعی بورڈوں کے فیصلوں کا باضابطہ اعلان مرکزی پارلیمانی بورڈ نظرثانی کے بعد خود کرے گا۔

مالیاتی کمیٹی

انتخابی اخراجات کے لیے رقم کی فراہمی کی غرض سے حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کی قیادت میں ایک مالیاتی کمیٹی قائم کر دی گئی جس کے سیکرٹری مولانا مفتی محمود مدظلہ ہوں گے اور باقی ارکان کے نام یہ ہیں: مولانا محمد شریف، منچن آباد۔ مولانا عبید اللہ انور، لاہور۔ مولانا محمد شاہ صاحب امروٹی، سکھر۔ مولانا سید محمد ایوب جان بنوری، پشاور۔ مولانا عبد الواحد، کوئٹہ۔

شعبہ انتخابات

اجلاس میں مرکزی شعبہ انتخابات کا دفتر فوری طور پر جمعیۃ کے مرکزی دفتر رنگ محل لاہور میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور جناب سید عطاء الرحمٰن جعفری کو اس کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ وہ روزانہ صبح دس بجے سے شام چار بجے تک دفتر میں موجود رہیں گے اور انتخابات کے سلسلے میں ضروری امور سر انجام دیں گے۔

مرکزی شعبہ نشر و اشاعت

اجلاس میں صوبائی دفاتر کے معائنہ اور شعبہ نشر و اشاعت کے سلسلے میں راقم الحروف کی رپورٹ اور تجاویز پر غور کیا گیا اور متعدد تجاویز کی منظوری دی گئی جن سے متعلقہ شاخوں کو بذریعہ سرکلر آگاہ کیا جا رہا ہے۔

مجلسِ عاملہ نے تمام ماتحت شاخوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بالائی جمعیتوں کے احکامات و ہدایات اور دستور کی دفعات کی مکمل پابندی کریں اور نظم و نسق کو مستحکم کرنے کے لیے بالائی عہدہ داروں سے تعاون کریں۔

اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ دستور کی دفعات اور بالائی ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں امیرِ بالا دستور کے مطابق مناسب کارروائی کریں گے۔

اپوزیشن اتحاد کا فارمولا

اجلاس میں حزبِ اختلاف کے اتحاد کے سلسلہ میں بعض سیاسی جماعتوں کا پیش کردہ فارمولا بھی زیر بحث آیا اور مجلسِ عاملہ نے اس کی جگہ مندرجہ ذیل فارمولا پیش کیا:

  1. جو جماعتیں متحدہ جمہوری محاذ سے باہر ہیں وہ محاذ میں شامل ہو جائیں۔ یا محاذ کی جگہ تمام اپوزیشن پارٹیوں پر مشتمل نئی تنظیم قائم کر دی جائے۔
  2. سیٹوں کی تقسیم میں پارٹیوں کی علاقائی مقبولیت اور اثر و رسوخ نیز ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کو بنیاد بنایا جائے۔
  3. مشترکہ پلیٹ فارم صرف سیٹوں کی تقسیم اور باہمی تصادم کی روک تھام کا فریضہ سرانجام دے اور ٹکٹ ہر پارٹی اپنے امیدواروں کو خود جاری کرے۔

قراردادیں

اجلاس میں منظور کی جانے والی متفقہ قراردادیں درج ذیل ہیں:

  1. جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ عاملہ کا یہ اجلاس آئندہ عام انتخابات کی غیر جانبدارانہ حیثیت کے بارے میں حکومت کی طرف سے عملی اقدامات کے بغیر محض زبانی اعلانات کو قطعی غیر تسلی بخش قرار دیتا ہے۔ اور اس رائے کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ جب تک (۱) تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے ملک میں ہر قسم کے سیاسی مقدمات واپس نہیں لیے جاتے (۲) دفعہ ۱۴۴ کا استعمال ختم کر کے اپویشن کو عوام سے بھرپور رابطہ کا موقع نہیں دیا جاتا (۳) ڈی پی آر، تحفظِ امن عامہ آرڈیننس اور دیگر امتناعی قوانین کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ترک نہیں کیا جاتا (۴) اخبارات و جرائد پر عائد شدہ پابندیاں واپس نہیں لی جاتیں (۵) الیکشن کے انتظامات کے سلسلے میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا (۶) ریڈیو اور ٹی وی سے حزبِ اختلاف کو اظہارِ خیال کا موقع اور نشریات میں اسے معقول حصہ نہیں دیا جاتا۔
  2. یہ اجلاس متحدہ حزبِ اختلاف کی تشکیل کے سلسلہ میں مختلف اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان حالیہ مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور اس شدید خواہش کا اظہار مناسب خیال کرتا ہے کہ انتخابات سے قبل حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جانا چاہیے تاکہ ہر حلقہ میں حکمران پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں اپوزیشن کا ایک ہی امیدوار سامنے لایا جا سکے۔
  3. یہ اجلاس جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے امیر حضرت مولانا سید محمد شاہ صاحب امروٹی مدظلہ کی نظربندی اور تحریک خدام اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا قاضی مظہر حسین اور ان کے رفقاء کی گرفتاری پر شدید احتجاج کرتا ہے اور حکومت کو توجہ دلاتا ہے کہ محرم الحرام کے موقع پر اکثریتی سنی فرقہ کے راہنماؤں کے خلاف اس قسم کے یکطرفہ اقدامات سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ اس لیے حکومت کو جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے فرقہ وارانہ کشیدگی کے حقیقی اسباب کو دور کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ مولانا محمد شاہ امروٹی، مولانا قاضی مظہر حسین اور دیگر سنی راہنماؤں کے خلاف کیے گئے اقدامات بلاتاخیر واپس لیے جائیں۔
  4. یہ اجلاس وزیر اعظم کے حالیہ دوروں کے موقع پر پرائیویٹ بسوں کی مسلسل پکڑ دھکڑ اور سرکاری ملازمین کے ذریعہ دیہات سے لوگوں کو استقبال کے لیے جمع کرنے کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے، کیونکہ ان مذموم ہتھکنڈوں کے باعث ہزاروں مسافروں کو بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور لاکھوں افراد کو بلاوجہ مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وزیراعظم کے دوروں اور استقبال وغیرہ کے سلسلے میں سرکاری مشینری کے استعمال، قومی دولت کے بے تحاشہ ضیاع، اور عوام کو بلاوجہ پریشان کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے، اور حکمران پارٹی کی فرضی مقبولیت کے مظاہروں کے لیے پارٹی کی طرف سے انتظامات کیے جائیں۔
  5. یہ اجلاس بلوچستان میں بعض قوانینِ شریعت کے جزوی نفاذ کو محض انتخابی ہتھکنڈہ سمجھتا ہے کیونکہ چند جزوی قوانین کے بعض حصوں کو نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ان میں بھی مروجہ قوانین کے تحت بالائی عدالتوں میں اپیل کا حق دے کر اس جزوی نفاذ کو بھی غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے حکومت کی طرف سے نفاذِ شریعت کے اس اعلان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور صوبہ بلوچستان کے دین دار عوام کو ان ہتھکنڈوں سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
  6. یہ اجلاس مصر کے بحری و ہوائی جہازوں کے المناک حادثات میں ہونے والے مالی و جانی نقصان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور مرحومین کی مغفرت کی دعا کرتے ہوئے مصری بھائیوں کے اس قومی غم میں برابر کا شریک ہے۔
  7. یہ اجلاس حضرت مولانا عبد الحق صاحب ایم این اے اکوڑہ خٹک کی والدہ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہے کہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔
  8. اجلاس ہذا کار کے حادثہ میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے نائب امیر حضرت مولانا خان محمد صاحب مدظلہ سجادہ نشین خانقاہ سراجہ کندیاں ضلع میانوالی اور ان کے رفقاء کے زخمی ہونے اور ایک فرد کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنتِ فردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز یہ اجلاس اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا خان محمد صاحب مدظلہ کو اس حادثہ میں بعافیت رکھا، اللہ انہیں صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازیں۔

اجلاس میں حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم اور قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ العالی کی صحت یابی کے لیے دعا کی گئی اور کم و بیش ساڑھے چار گھنٹے جاری رہنے کے بعد اجلاس بخیر و خوبی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔

   
2016ء سے
Flag Counter