وفاقی وزارت مذہبی امور نے گزشتہ روز ۲۰ جون کو ملک بھر کے سرکردہ علماء کرام و مشائخ کے ساتھ ویڈیو لنک مشاورت کا اہتمام کیا جس کا مقصد کرونا بحران کے ماحول میں عید الاضحٰی کی ادائیگی اور قربانی کے حوالہ سے درپیش مسائل کے بارے میں غوروخوض کر کے کوئی قابل عمل لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیرزادہ ڈاکٹر نور الحق قادری نے صدارت کی، جبکہ گفتگو کرنے والوں میں وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور وزیر اعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے علاوہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا سید عبد الخبیر آزاد اور چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بہت سے سرکردہ علماء کرام شامل تھے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے اور ماہرین کے اندازے کے مطابق جولائی کے وسط سے اگست کے وسط تک پاکستان میں یہ پھیلاؤ پورے عروج پر دکھائی دے رہا ہے، جبکہ اسی دوران عید الاضحٰی اور قربانی کے ایام آ رہے ہیں، اس لیے ہمیں بروقت متعلقہ مسائل کا جائزہ لے کر کوئی اجتماعی حکمت عملی طے کر لینی چاہیے۔ وفاقی وزارت مذہبی امور کے اس اقدام کو کم و بیش سب شرکاء کی طرف سے سراہا گیا اور توقع ظاہر کی گئی کہ جس طرح رمضان المبارک کے دوران مساجد کھلی رکھنے اور نماز تراویح ادا کرنے کے لیے باہمی مشاورت کے ساتھ متفقہ فارمولا طے کر لیا گیا تھا ، اب بھی ان شاء اللہ العزیز ایسا کر لیا جائے گا۔
مشاورت میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملا اور اس کے لیے کمشنر آفس گوجرانوالہ میں اہتمام کیا گیا جس میں میرے ساتھ حافظ جواد محمود قاسمی اور حافظ امجد محمود معاویہ بھی شریک تھے۔ اس موقع پر کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن محترم سید گلزار حسین شاہ کے ساتھ بھی کرونا بحران سے متعلقہ بعض امور پر تبادلہ خیالات ہوا اور اس بات ہمارے درمیان کم و بیش اتفاق پایا گیا کہ اس خطرناک عمومی وبا کے حوالہ سے عوامی سطح پر سنجیدگی اور احتیاط کا جو ماحول ضروری تھا ہم اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہے، اس لیے اس طرف سب طبقات اور اداروں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے اور سب کے لیے یکساں پالیسی اور SOPs (سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) پر عملدرآمد کا اہتمام ہونا چاہیے۔
اجتماعی مشاورت کے دوران اس بات کا بطور خاص ذکر ہوا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ناگزیر امورِ زندگی کو جاری رکھنے کے لیے جن ایس او پیز کا تعین کیا گیا تھا، طبقات میں سے علماء کرام جبکہ مراکز میں سے مساجد میں ان کا سب سے زیادہ اہتمام پایا گیا ہے اور تقریباً علماء کرام کے تمام حلقوں نے اس سلسلہ میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر توقع کی جا رہی ہے کہ علماء کرام اور مساجد و مدارس آئندہ بھی اپنے ماحول میں احتیاط کی تمام ضروری تدابیر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی مسلسل راہنمائی کریں گے، جس کا مشاورت میں شریک سرکردہ علماء کرام نے اظہار بھی کیا۔ اجلاس میں اس بات پر کم و بیش اتفاق تھا کہ عید الفطر چونکہ مناسب ایس او پیز کے ساتھ ملک بھر میں بخیروخوبی ادا کی گئی ہے اس طرح عید الاضحٰی کی نماز بھی انہی ایس او پیز کے ساتھ ادا کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔
البتہ قربانی کے بارے میں دو باتیں خصوصی توجہ کے قابل سمجھی گئیں۔ ایک یہ کہ قربانی کے ایام سے پہلے شہروں میں جانوروں کی جو منڈیاں لگتی ہیں وہ وائرس اور آلودگی میں شدید اضافہ کا باعث بن سکتی ہیں۔ اور دوسری یہ کہ ہر جگہ قربانی کرنے سے بھی الائش، آلودگی اور بے احتیاطی کا ماحول کرونا وائرس کے خطرناک فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک تجویز یہ سامنے آئی کہ جس طرح حج کے ایام میں سعودی عرب میں حکومت سرکاری سطح پر قربانیوں کا اہتمام کرتی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی انتظام کر لیا جائے اور قربانی کرنے والے حضرات اپنی رقوم اس مجوزہ سسٹم کے تحت جمع کرا کے بری الذمہ ہو جائیں۔ مگر اس تجویز کو عمومی طور پر قبول نہیں کیا گیا جس کی ایک بڑی وجہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ سعودی عرب میں اس کے مذہبی امور کے مستحکم نظام اور برس ہا برس سے اس پر دکھائی دینے والے عمل کے باعث حکومتی اداروں پر قربانی کے سلسلہ میں جو اعتماد پایا جاتا ہے وہ ہمارے ہاں موجود نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا بظاہر کوئی امکان دکھائی دیتا ہے، کیونکہ معاملہ مذہبی شعائر اور عبادات کا ہے جبکہ ہمارے ریاستی ادارے مذہبی شعائر اور عبادات کے حوالہ سے عوام میں اعتماد کا وہ ماحول قائم نہیں کر سکے جو اس کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے اس قسم کا کوئی بھی اقدام عوام میں خلفشار کا باعث بن سکتا ہے جس سے بہرحال گریز کرنا چاہیے۔
یہ تجویز بھی گفتگو کے درمیان سامنے آئی کہ اجتماعی قربانیوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ انہیں منظم اور کنٹرول کرنے میں زیادہ آسانی رہے گی، مگر اجتماعی قربانیوں کا کوئی نیٹ ورک سرکاری طور پر فراہم کرنے کی بجائے جن اداروں اور مراکز پر عوام اعتماد رکھتے ہیں اور پہلے بھی بڑے دینی و مدارس میں اس کا اہتمام ہوتا ہے ان پر اعتماد کیا جائے، حوصلہ افزائی کی جائے، انہیں ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں اور طے شدہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے ان سے تعاون کیا جائے کیونکہ اس صورت میں احتیاطی تدابیر کو علماء اور عوام کے اعتماد کے ساتھ روبہ عمل لایا جا سکے گا۔
بہرحال مختلف تدابیر پر غور کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سرکردہ مفتیان کرام، ہیلتھ ماہرین اور ذمہ دار سرکاری افسران باہمی مشاورت کے ساتھ اس سلسلہ میں مناسب حکمت عملی اور تدابیر (ایس او پیز) جلد از جلد طے کر کے ان کا اعلان کریں تاکہ عید الاضحٰی سے قبل ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کر کے لوگوں کی اس کے مطابق ذہن سازی کی محنت کی جا سکے۔
جبکہ اس مشاورت سے ہٹ کر بعض حلقوں کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ قربانی کرنے کی بجائے اس کی رقم صدقہ کر دی جائے۔ یہ تجویز اس سے قبل نارمل ماحول میں بھی متعدد مواقع پر سامنے آتی رہی ہے جسے اہل علم نے اجتماعی طور پر مسترد کر رکھا ہے، ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کی متنازعہ تجاویز کو بار بار سامنے لا کر قوم کے فکری خلفشار میں اضافہ کرنے سے ہر باشعور شخص کو گریز کرنا چاہیے۔
ایک دوست نے گزشتہ روز مجھ سے کہا کہ بعض فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص قربانی نہ کر سکے وہ اس کی قیمت بعد میں صدقہ کر دے تو کیا یہ صورت اختیار نہیں کی جا سکتی؟ میں نے عرض کیا کہ وہ قربانی نہ کر سکنے کی صورت میں ہے، قربانی کر سکنے کا امکان موجود ہو تو اس کا جواز نہیں بنتا۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کوئی شخص کچھ فرض نمازیں زندگی میں ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے مرنے کے بعد اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اب کوئی شخص اس فقہی جزئیہ کو بہانہ بنا کر زندگی میں ہی فدیہ ادا کر کے نمازوں سے جان چھڑانے کی صورت اختیار کرے گا تو اس کے اس عمل کو کہیں سے بھی جواز کا فتوٰی نہیں ملے گا۔ ایسی باتیں کرنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ جو بات جتنی ہے اسے اتنا ہی رہنے دیں اور اس قسم کی استثنائی صورتوں کو دینی شعائر و عبادات کے اجتماعی نظام و ماحول کو ڈسٹرب کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں، امت پر یہ ان کا بڑا احسان ہو گا۔
بہرحال وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے اس اجتماعی مشاورت کا اہتمام خوش آئند ہے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ مشاورت کی عمومی تجویز کے مطابق سرکردہ علماء کرام، میڈیکل ماہرین اور متعلقہ سرکاری حکام جلد ہی کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔