عالم اسلام کے خیالات اور امریکہ

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۰۹ء

روزنامہ پاکستان لاہور میں ۱۹ فروری ۲۰۰۹ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکہ کی وزیر خارجہ محترمہ ہیلری کلنٹن گزشتہ روز جب انڈونیشیا کے دورے پر پہنچیں تو انڈونیشیا کے کئی شہروں میں امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی صورت میں عوام نے امریکہ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا، بلکہ انڈونیشیا کی ایک بڑی مسلمان تنظیم محمدیہ کے سر براہ جناب شمس الدین نے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ دعوت میں شرکت کی دعوت مسترد کر کے امریکہ کو انڈونیشیا عوام کے جذبات سے باخبر کیا۔

اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ ’’امریکی حکومت عالم اسلام کے خیالات سے آگاہی حاصل کرے گی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اپنے بارے میں اور امریکی پالیسیوں کے حوالہ سے عالم اسلام کے خیالات سے آگاہ نہیں ہے اور اسے یہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے ازسرنو کسی کوشش کا آغاز کرنا پڑے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی وزیر خارجہ یہ بات کہہ کر عالم اسلام کو بے وقوف بنانے یا خود کو فریب کے ماحول میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں، اس لیے کہ اگر عالم اسلام کے خیالات اور جذبات سے امریکہ واقف نہیں ہے تو اور کون واقف ہے؟

محترمہ ہیلری کلنٹن صرف امریکہ کی وزیر خارجہ نہیں ہیں بلکہ سابق صدر مسٹر کلنٹن کی اہلیہ کی حیثیت سے خاتون اول بھی رہ چکی ہیں، انہوں نے اس دور میں بھی دنیا بھر کے دورے کیے ہیں اور عالم اسلام کے راہنماؤں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں وہ شریک رہی ہیں، پھر وہ امریکہ کی دانشور اور باخبر خواتین میں شمار ہوتی ہیں اور ایک عرصہ سے امریکہ کی قومی سیاست میں ان کا کردار چلا آرہا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ فرماتی ہے کہ امریکی حکومت کو ابھی عالم اسلام کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو اسے ایک افسوسناک سیاسی لطیفے کے علاوہ اور کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

  • کیا امریکی حکومت کو یہ معلوم نہیں ہے کہ افغانستان، عراق اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں خود امریکی فوجوں اور اسلحہ نے کیا قیامت ڈھا رکھی ہے؟
  • اور کیا یہ بات بھی اسے ابھی معلوم کرنی ہے کہ فلسطین میں امریکہ کی پشت پناہی اور اسلحہ کے ساتھ اور اس کی ویٹو پاور کے سائے میں اسرائیل نے فلسطینی عوام پر جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں؟
  • کیا امریکہ یہ نہیں جانتا کہ عالم اسلام کی رائے عامہ اس سے کس قدر شدید نفرت کرتی ہے اور کس وجہ سے کرتی ہے؟

اگر اب بھی امریکہ عالم اسلام کو اس طرح کی پر فریب باتوں میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے کہ ہم آپ کے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ نئی امریکی حکومت نے بھی حالات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ اس ڈگر پر چلتے رہنا چاہتی ہے جس کے نتائج کسی اور کے لیے خواہ کیسے ہوں خود امریکہ کے مستقبل کے لیے بہرحال بہتر نظر نہیں آرہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter