خلافت و امامت: اہل سنت اور اہل تشیع کا بنیادی اختلاف

   
مئی ۲۰۱۱ء

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کے لیے ہر جمعرات کو ایک تعلیمی گھنٹہ فکری نوعیت کے مسائل اور حالات حاضرہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اس سال پہلی اور دوسری سہ ماہی کے دوران مختلف ادیان کے تعارف اور ان کے بارے میں ضروری معلومات پر گفتگو ہوتی رہی، جبکہ ششماہی امتحان کے بعد سالانہ امتحان تک انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان جاری فکری تہذیبی کشمکش سے متعلقہ چند امور پر گفتگو ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ گزشتہ سے پیوستہ جمعرات کو اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان خلافت و امامت کے مسئلہ پر اختلاف کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کی گئیں، جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین نزاعی اور اختلافی مسائل میں ایک اہم مسئلہ خلافت و امامت کا ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر صدیوں سے گفتگو اور مباحثہ جاری ہے، اس کے صرف ایک پہلو پر کچھ ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اصل مسئلہ اصولی طور پر ہے کیا اور اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مابہ النزاع امور کیا ہیں؟

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نامزد کر دیا تھا، اس حیثیت سے وہ ’’وصی رسول اللہ‘‘ ہیں اور یہ کلمہ اہل تشیع کے ایمانیات اور اذان کا حصہ ہے۔ جبکہ اہل سنت کا نقطہ نظریہ ہے کہ نبی اکرم ؐ نے اپنا جانشین خود نامزد کرنے کی بجائے اس کا انتخاب امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جناب نبی اکرم ؐ کے وصال کے بعد کھلے مباحثہ اور اجتماعی صوابدید کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کو نبی اکرم ؐ کا جانشین منتخب کیا تھا۔ چنانچہ اہل تشیع کے نزدیک رسول اکرمؐ کے جانشین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور یہ منصب ’’امامت‘‘ کے عنوان سے موسوم ہے، مگر اہل سنت کے نزدیک جناب نبی اکرم ؐ کے جانشین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ منصب خلافت کہلاتا ہے۔ خلافت و امامت کے ان دو فلسفوں میں چند بنیادی فرق ہیں جن کو ملحوظ رکھنا اس اختلاف کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

  1. پہلا فرق تو یہی اصطلاح کا ہے کہ اہل سنت جانشینِ رسولؐ کو ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور اہل تشیع اسے ’’امام‘‘ اور ’’وصی‘‘ کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ نامزد نہیں ہوتا بلکہ امت اپنی صوابدید اور اجتماعی رائے کے ذریعے اس کا انتخاب کرتی ہے، مگر ’’امام‘‘ کے انتخاب میں رائے عامہ اور امت کی صوابدید کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ منصب نامزدگی اور وصیت کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔
  3. تیسرا فرق یہ ہے کہ ’’امام‘‘ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نبی کی براہ راست راہنمائی فرماتے ہیں، اسی طرح امام کی بھی اللہ پاک راہنمائی خود کرتے ہیں، اس لیے امام جو بھی کہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جبکہ خلیفہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کرنے کی بجائے نبی اکرم ؐ کے نائب اور ’’خلیفہ‘‘ کے طور پر امت کی قیادت کرتا ہے۔ جیسا کہ قاضی ابو یعلی نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک شخص نے یا خلیفۃ اللہ کہہ کر خطاب کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ کا نہیں اللہ کے رسول ؐ کا خلیفہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور ہمارے فقہاء کرام نے خلیفہ کی جو تعریف کی ہے اس میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو امت مسلمہ کی اجتماعی امور میں قیادت کرے اور نبی اکرمؐ کی نیابت کرتے ہوئے آپؐ کی ہدایات اور سنت کے مطابق حکومت و ریاست کے معاملات سرانجام دے۔

    یہ فرق بہت بنیادی اور اہم ہے اس لیے کہ جب کوئی شخص براہ راست اللہ تعالیٰ کی نیابت کرتا ہے تو وہ کوئی دلیل پیش کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ اس کی صرف یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری یوں راہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کرنے والے کو نبی اکرم ؐ کا کوئی حوالہ دینا ہوتا ہے، اس کے بغیر اس کی کوئی بات نبی اکرم ؐ کی بات نہیں کہلا سکتی، گویا خلیفہ دلیل اور حوالہ کا پابند ہے اور امام کے لیے کوئی حوالہ دینا ضروری نہیں ہے، اور خود دلیل اور اس کی ہر بات تسلیم کی جائے گی اس لیے کہ وہ خدا کا نمائندہ ہے۔

  4. چوتھا فرق یہ ہے کہ امام اللہ تعالیٰ کا براہ راست نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ’’معصوم عن الخطا‘‘ ہے اور اس کی کسی بات کو خطا سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ خلیفہ معصوم نہیں ہے بلکہ اس کا شرعی درجہ مجتہد کا ہے اور مجتہد کے فیصلوں میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال یکساں قائم رہتا ہے۔ اہل سنت کا اصول ہے کہ ’’المجتہد یخطی و یصیب ‘‘مجتہد خطا کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور صواب کا احتمال بھی رکھتا ہے۔ اس لیے مجتہد کی کسی بھی بات سے علمی دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاتا رہا ہے۔ مگر امام معصوم ہوتا ہے اور اس کی رائے میں خطا کا احتمال نہیں ہے اس لیے اس کی کسی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ دونوں بزرگوں کے خلیفہ کی حیثیت سے پہلے خطبوں میں صراحت موجود ہے کہ ہم قرآن و سنت کے مطابق حکومت کریں گے اور اسی وجہ سے تم پر ہماری اطاعت ضروری ہے، اگر ہم قرآن و سنت کے پابند رہیں تو ہمارا ساتھ دو اور اگر ہم قرآن و سنت سے ہٹتے ہوئے نظر آئیں تو ہماری اطاعت تم پر ضروری نہیں ہے۔

    اس حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دلیل کی بنیاد پر قائم ہونے والی پہلی حکومت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تھی اس لیے کہ بادشاہت میں بادشاہ خود اتھارٹی ہوتا ہے جبکہ اللہ کا نبی بھی خود اتھارٹی ہوتا ہے، اسی طرح آج کے دور کی پارلیمنٹ بھی خود اتھارٹی تصور کی جاتی ہے کیوں کہ وہ کسی طے شدہ قانون کی پابند ہونے کی بجائے خود قانون بنانے اور اس میں ردوبدل کی مجاز ہوتی ہے۔ مگر ایسی حکومت جو کسی طے شدہ قانون کی پابند ہو اور اسے اس قانون میں رد و بدل کا اختیار بھی نہ ہو صرف ’’خلافت اسلامیہ‘‘ ہے، اس کے علاوہ کسی حکومت کو بھی خواہ وہ شخصی ہو، جماعتی ہو یا پارلیمانی ہو، علی الاطلاق دلیل کی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

  5. خلافت اور امامت میں پانچواں فرق یہ ہے کہ خلیفہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور پبلک کا کوئی بھی شخص خلیفہ کے کسی بھی فیصلے پر سرعام روک ٹوک کر سکتا ہے۔ جبکہ امام کی رائے حتمی ہوتی ہے اور وہ کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہیں ہوتا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں عوام کے اس حق کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا کہ ’’اگر میں سیدھا چلوں تو میری معاونت کرو اور اگر میں ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کرو‘‘۔ یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ حضرت صدیق اکبرؓ یہ نہیں فرما رہے کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے بتا دو اور ٹوک دو بلکہ یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عام آدمی کا حق خلیفہ کو اس کے غلط فیصلے پر صرف غلطی سے آگاہ کرنا نہیں ہے بلکہ اسے سیدھا کر دینے کا حق بھی اسے حاصل ہے۔ اسی کو آج کی دنیا میں عوام کا حق احتساب کہا جاتا ہے اور اسلام میں خلیفہ نہ صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے بلکہ عوام کو اس کے احتساب کا حق بھی حاصل ہے۔
  6. خلافت اور امامت کے تصور میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان چھٹا فرق یہ ہے کہ امامت نسبی اور موروثی ہے جیسا کہ اہل تشیع کے بارہ اماموں سے واضح ہے۔ جبکہ خلافت نسبی اور موروثی نہیں ہے اس لیے کہ حضرت ابوبکرؓ جناب نبی اکرم ؐ کے نسبی وارث نہیں تھے اور نہ ہی چاروں خلفاء راشدینؓ میں سے کوئی ایک دوسرے کا نسبی وارث ہے۔

اہل سنت کے تصور خلافت اور اہل تشیع کے تصور امامت میں چند اہم فرق میں نے واضح کیے ہیں۔ اور اس حوالے سے یہ بات بھی آپ حضرات کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ایرانی انقلاب کے بعد ایران میں اثنا عشریہ اہل تشیع کی جو مذہبی حکومت قائم ہوئی ہے اس کی دستوری بنیاد اسی امامت کے فلسفہ پر ہے، انہوں نے آج کے حالات کے تناظر میں جمہوریت، پارلیمنٹ اور ووٹ کو حکومت کی تشکیل کا ذریعہ ضرور بنا یا ہے مگر دستور کی اساس ’’ولایت فقیہ‘‘ پر رکھی ہے۔ ان کے نزدیک جو بارہویں امام غائب ہیں اصل حکومت ان کی ہے، ان کی نیابت ’’ولایت فقیہ‘‘ کے عنوان سے ایک متفق علیہ فقیہ کرتے ہیں جو پہلے خمینی صاحب تھے اور ان کے بعد اب خامنائی صاحب ہیں۔ وہ پورے دستور و قانون اور ریاست و حکومت کے نگران اعلیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے ساتھ فقہاء اور ماہرین قانون کی ایک کونسل ’’شورائے نگہبان ‘‘ کے عنوان سے ان کی مشیر و معاون ہے مگر اصل اتھارٹی ولایت فقیہ کے طور پر خامنائی صاحب کے پاس ہے اور انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ صدر، حکومت اور پارلیمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کے فیصلے کو ویٹو کر سکتے ہیں۔ ان کے اس ویٹو کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہے اور یہی وہ دستوری شکل ہے جو اہل تشیع نے آج کے حالات کے تناظر میں اپنے تصور امامت کو دی ہے۔

جبکہ اہل سنت کی طرف سے خلافت کو دستوری ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی، پاکستان کے دستور میں ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی صورت میں ایک اچھا آغاز ہوا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے جمہور کے نمائندوں کے ذریعے اس کی عملداری کی بات کی گئی ہے اور دستور میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کی ضمانت اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی نفی کے ذریعے اس کی عملی شکل پیدا کی گئی ہے، لیکن دستور پر قرآن و سنت کی غیر مشروط بالا دستی کے بارے میں تذبذب ابھی تک موجود ہے جو نفاذ شریعت کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کا کوئی قانون از خود نافذ ہونے کی بجائے اپنے نفاذ اور عملداری کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج اور اس پر موقوف ہے جس سے اصل بالا دستی پارلیمنٹ کی تصور ہوتی ہے۔

پاکستان چونکہ اسلامی تشخص کے اظہار کے لیے ایک مستقل اور الگ ملک کی صورت میں وجود میں آیا تھا اور اسی اساس پر پاکستان کے دستوری ڈھانچے کی تشکیل ہوئی ہے، اس لیے یہ پاکستانی پارلیمنٹ کی دستوری، شرعی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کنفیوژن کو دور کرے۔ ہمارے خیال میں اگر دستور میں قرآن و سنت کی غیر مشروط بالا دستی تسلیم کر کے اس کی نگرانی کے لیے اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی ایک بااختیار کونسل ایران کی شورائے نگہبان کی طرز پر قائم کر دی جائے تو اہل سنت کے نظام خلافت کو بھی آج کے عالمی حالات کے تناظر میں کسی حد تک ایک دستوری ڈھانچہ فراہم ہو سکتا ہے جیسا کہ ایران کے دستور میں اہل تشیع کے نظام امامت کو فراہم کیا گیا ہے، چنانچہ اس طرح چند اسلامی ممالک میں اس اساس پر اسلامی امارتیں قائم ہونے کے بعد عالمی سطح پر خلافت اسلامیہ کے باقاعدہ قیام کی بھی کوئی عملی صورت سامنے آ سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter