امریکہ کی عالمی چودھراہٹ کا نیا راؤنڈ

   
یکم مئی ۲۰۲۱ء

اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے صدارتی دفتر کے سو دن مکمل ہونے پر کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ دنیا کی قیادت سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا یہی وقت ہے، ہمیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بحال کرنا ہے، ہم چین کے ساتھ تصادم اور روس کے ساتھ کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتے وغیرہ وغیرہ۔

امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمہ اور افغانستان سے روسی افواج کی پسپائی کے بعد ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے عنوان سے دنیا کی بلاشرکت غیرے چودھراہٹ کا پہلے سے اعلان کر رکھا ہے جس کے مختلف مراحل سے دنیا کی متعدد اقوام گزر چکی ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ دنیا کی قیادت پھر سے سنبھالنے کا یہ اعلان کس مفہوم میں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کا سلسلہ آگے بڑھتا نہ دیکھ کر عالمی چودھراہٹ کا کوئی نیا فارمولا امریکی قیادت کے ذہن میں آگیا ہے اور وہ اسے پھر سے دنیا کی قیادت سنبھالنے کی تیاری قرار دے کر نئی صف بندی کی کوشش کر رہی ہے۔ دو عالمی جنگوں کے بعد برطانوی استعمار کے اضمحلال اور عالمی معاملات پر اس کی گرفت کمزور پڑتے دیکھ کر امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروشیما میں دو ایٹمی دھماکوں کے ذریعے لاکھوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر دنیا کی چودھراہٹ کے میدان میں قدم رکھا تھا، اس کے بعد سے امریکہ بہادر اس رخ پر مسلسل آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد نیوورلڈ آرڈر کا اعلان اس کا نقطۂ عروج تھا۔

اس تناظر میں صدر جوبائیڈن کا دنیا کی قیادت پھر سے سنبھالنے کا اعلان دنیا کی اقوام کے لیے ایک نیا چیلنج سمجھا جا سکتا ہے اور ہمارے خیال میں مظلوم و مغلوب اقوام کو خاص طور پر اسے اسی مفہوم میں لینا چاہیے۔ اس موقع پر مناسب ہے کہ امریکی چودھراہٹ کے اس دور پر ایک نظر ڈال لی جائے جو اس نے عالمی سیاست میں اپنی دھماکہ خیز انٹری سے شروع کیا تھا اور اب وہ اس کے نئے راؤنڈ کی تیاری میں دکھائی دے رہا ہے۔

  • امریکہ نے اسرائیل قائم کر کے عربوں اور فلسطینیوں کے انسانی و شہری اور قومی و مذہبی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کے قتل عام اور دربدری کے جس سلسلہ کی پشت پناہی شروع کی تھی وہ ابھی تک جاری ہے۔
  • امریکہ بہادر نے جہاں مختلف ممالک میں آمریتوں کو سپورٹ کیا وہاں لاؤس، کمبوڈیا، ویت نام، افغانستان، عراق اور دیگر ملکوں میں فوج کشی کر کے ان اقوام و ممالک کی آزادی و خودمختاری کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پامال کیا۔
  • اقوام متحدہ کا قیام دراصل اقوام و ممالک کے درمیان جنگ کو روکنے اور تنازعات کو نمٹانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ مگر امریکہ نے اس عالمی فورم کو مذہب کے معاشرتی کردار کے خاتمہ، مغربی فکر و فلسفہ کی بالادستی، اور اقوام و ممالک کی خودمختاری سلب کرنے کے لیے انتہائی مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔
  • خاص طور پر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کا راستہ روکنے اور اس کے مقابلہ میں لا مذہبیت اور مغربی تہذیب کو سپورٹ کرنے کے لیے اس کی مسلسل اور ہمہ گیر کاروائیاں بھی اب مخفی نہیں رہیں۔
  • انسانی حقوق کے ٹائٹل کو مذہب و عقیدہ اور آسمانی تعلیمات سے بغاوت کے لیے ہتھیار بنا دینا امریکہ بہادر کا خصوصی کارنامہ ہے جس کے زخم نسل انسانی ایک عرصہ تک برداشت کرتی رہے گی۔

ایک موقع پر امریکہ میں ہی انسانی حقوق کے موضوع پر ایک محفل میں گفتگو کے بعد کچھ دوستوں نے سوال کیا کہ امریکہ میں انسانی اور شہری حقوق کی پاسداری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ شخصی انسانی و شہری حقوق کی پاسداری میں امریکہ کا ماحول اور نظم باقی دنیا سے بہتر دکھائی دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انسانی و شہری حقوق اور مذہبی و سیاسی آزادی صرف افراد کے لیے ہے یا اقوام و ممالک کا بھی اس حوالہ سے کوئی حق ہے؟ اور پھر اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دیگر اقوام و ممالک کی خودمختاری اور آزادی کو پامال کرتے چلے جانا انسانی حقوق کی کونسی خدمت ہے؟ چنانچہ اس ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی قیادت کے نئے راؤنڈ کے لیے صدر جوبائیڈن کے حالیہ اعلان کے اہداف کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اقوام و ممالک کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس موقع پر صدر جوبائیڈن سے ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ جناب صدر! ہم امریکہ اور امریکی قوم کا احترام کرتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ نے برطانوی استعمار کی غلامی سے کس طرح آزادی حاصل کی تھی ۔ہم جانتے ہیں کہ شمال اور جنوب کی خوفناک خانہ جنگی کے بعد امریکی قیادت نے دنیا سے غلامی کے خاتمہ اور محروم و مغلوب اقوام و ممالک کی داد رسی کے لیے کن جذبات و عزائم کا اظہار کیا تھا۔ ہم ابراہام لنکن، جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن کے خیالات سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکہ کی موجودہ قیادت بھی ان کے خیالات اور اعلانات کو ایک بار پھر پڑھ لے کہ ہم ان کے امریکہ کا احترام کرتے ہیں اور عالمی سیاست میں اس امریکہ کے جائز مقام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر اس تاریخی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ آج کا امریکہ وہ نہیں ہے۔ غلامی کے خاتمہ کا پرچم اٹھانے والا امریکہ آج اقوام و ممالک کی آزادی و خودمختاری پر سنگینیں تانے کھڑا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری کا یہ دعویدار آج پوری دنیا میں اہل مذہب بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور آزادی و خود مختاری کے لیے سنگین خطرہ کا روپ دھارے ہوئے ہے، اس لیے ہم صدر جوبائیڈن کے اس اعلان کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ اگر اپنی مذکورہ بانی شخصیات کے عزائم اور اعلانات کی طرف واپس جانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ تیار ہو تو اس کے ساتھ عالم اسلام کے مثبت معاملات کی بات سوچی جا سکتی ہے، ورنہ موجودہ امریکہ جتنی بار بھی عالمی قیادت کے کسی راؤنڈ کا اعلان کرے ملت اسلامیہ اور مسلم ممالک کے عوام اس سے کسی خیر کی کوئی توقع وابستہ کرنے کی بجائے اپنی ملی و مذہبی روایات کے تحفظ و دفاع کے لیے مسلسل مصروف کار رہیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter