اے پی پی کے مطابق حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نے ایک بیان میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے از خود جمعیۃ علماء اسلام کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور ساتھ ہی آپ نے قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ:
’’مفتی صاحب نے جمعیۃ کے منشور اور مجلس شوریٰ کے فیصلوں سے انحراف کیا ہے اور جمعیۃ کے وقار اور اکابر کے مسلک کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘
مولانا ہزاروی ہمارے بزرگ ہیں اور ہمیں ان کی بزرگی اور پیرانہ سالی کا لحاظ ہے، مگر چونکہ انہوں نے خود اپنے مقام اور حیثیت کا خیال نہ کرتے ہوئے جمعیۃ کی مرکزی قیادت پر حقائق کے خلاف واقعات کے برعکس اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں اس لیے ہمیں حقیقت حال کی وضاحت کی خاطر مجبورًا کچھ باتیں حیطۂ تحریر میں لانا پڑ رہی ہیں۔
اس بات سے مولانا ہزاروی بھی انکار نہیں فرمائیں گے کہ جمعیۃ علماء اسلام کسی فردِ واحد یا بے ضابطہ گروہ کا نام نہیں جہاں ایک شخص کی مرضی چلتی ہو، یا باہمی اشتراکِ عمل کا کوئی ضابطہ و دستور نہ ہو۔ بلکہ جمعیۃ علماء اسلام ایک باضابطہ سیاسی و دینی تنظیم ہے جس کی شاخیں ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں اور وہ باقاعدہ ایک دستور رکھتی ہے جس کے تحت امیر، مجلسِ عاملہ، مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ عمومی اپنے اپنے دائرہ کار میں پالیسی، منشور اور طریق کار پر عملدرآمد کی نگرانی کرتی ہیں۔ یہ نظم و نسق سالہا سال سے چل رہا ہے اور خود مولانا ہزاروی بھی اس کے اہم ترین رکن رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کس اصول، ضابطہ اور دستور کے تحت جماعتی دستور، امیر، مجلسِ عاملہ، مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ عمومی کو نظر انداز کر کے از خود بن بلائے مہمان کی طرح جمعیۃ کی سربراہی کے منصب پر براجمان ہونا چاہتے ہیں؟ مولانا کی جماعتی خدمات اپنے مقام پر ناقابلِ انکار ہیں، ان کی قربانیاں اور شاندار ماضی بھی مسلم ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان خدمات اور قربانیوں کے صلہ میں انہیں یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے کو پوری جماعت پر ٹھونسنے کی کوشش کریں او رجمعیۃ کے دستور اور وقار کو بھی پامال کرنے سے گریز نہ کریں۔ جمعیۃ کے نظم و نسق اور پالیسی کی ذمہ دار مجلسِ عمومی ہے جس کا ذکر دستور کی دفعہ نمبر ۱۰ میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
(الف) ہر جمعیۃ کی مجلس عمومی اس جمعیۃ کی سب سے بڑی طاقت ہوگی۔
(ب) مجلسِ عمومی کے سامنے جملہ عہدہ داروں، مجلسِ شوریٰ و مجلسِ عاملہ جوابدہ ہوں گے اور اس کے فیصلے سب پر حاوی ہوں گے۔
دستور کی اس واضح شق کے پیشِ نظر اصولی طور پر چاہیے تو یہ تھا کہ مولانا ہزاروی کو اگر جمعیۃ کی مرکزی قیادت کے کسی فیصلے سے اتفاق نہیں تھا اسے مجلسِ عمومی میں لاتے، وہاں اپنی بات پیش کرتے اور ارکان کو قائل کر کے اپنی رائے منواتے۔ اور اگر اس کے باوجود ان کی رائے تسلیم نہ کی جاتی تو وہ جماعتی فیصلہ کی پابندی یا جمعیۃ سے علیحدگی کے دو واضح اور منطقی راستوں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے۔ لیکن مولانا موصوف نے مجلسِ عمومی تو کجا مجلسِ شوریٰ تک کی پروا نہ کی، امیر مرکزیہ کے فیصلوں کو کوئی وقعت نہ دی اور قومی اسمبلی کے اندر اور باہر ہر سطح پر جماعتی فیصلوں کا نہ صرف کھلم کھلا مذاق اڑایا بلکہ دوسرے ارکان کو بھی جماعتی پالیسی سے انحراف کی ترغیب دی۔ اور اب جماعتی اصولوں اور فیصلوں سے انحراف پر پردہ ڈالنے کے لیے مفتی صاحب پر الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔ آخر اس طرزِ عمل کی کیا منطقی توجیہ کی جا سکتی ہے؟
مولانا ہزاروی نے سب سے زیادہ اعتراض نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کے ساتھ جمعیۃ کے اتحاد، اور متحدہ جمہوری محاذ میں دوسری جماعتوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ساتھ محدود اشتراک عمل کیا ہے۔ مگر یہ اعتراض بالکل بے جا ہے، اس لیے کہ:
- نیپ کے ساتھ معاہدہ خود مولانا ہزاروی نے جمعیۃ کی مجلس شوریٰ کے فیصلہ کی روشنی میں کیا تھا، اور یہ صرف صوبائی پارلیمانی معاہدہ نہ تھا بلکہ قومی اسمبلی میں نیپ کے ارکان کو اسلامی امور میں جمعیۃ کی حمایت کا پابند بنا کر ایک لحاظ سے اسے دو جماعتی اتحاد کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ اور وزارتوں کے خاتمہ کے بعد صوبائی و مرکزی مجالس شوریٰ کے مشترکہ اجلاسِ لاہور میں خود مولانا ہزاروی کی رائے کے مطابق اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
- اسی طرح متحدہ جمہوری محاذ میں شمولیت کا فیصلہ بھی مجلسِ شوریٰ نے کیا تھا اور اس شمولیت کا مطلب عقیدہ یا مسلک کا اتحاد نہیں بلکہ یہ اسی طرح کے اشتراکِ عمل کا معاہدہ ہے جس طرح ۱۹۵۳ء میں آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی اور ۱۹۶۹ء میں جمہوری مجلس عمل قائم کی گئی تھی۔ یہ دونوں معاہدے مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کے مطابق کیے گئے تھے اور اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک مجلسِ شوریٰ یا مجلسِ عمومی اسے برقرار رکھنا چاہے گی۔
اس لیے ہم مولانا ہزاروی سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ جمعیۃ کی مرکزی قیادت پر بے سروپا الزامات عائد کرنے کی بجائے اپنے رویہ پر غور کریں اور اگر وہ جمعیۃ کے ساتھ نہ چلنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو آخری عمر میں چند مفاد پرستوں کی شہہ پر اپنے ساتھیوں اور بزرگوں کے خلاف محاذ آرائی کی بجائے باقی عمر یاد اللہ میں بسر کریں۔