روزنامہ پاکستان لاہور ۹ نومبر ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے اسپین کی حکومت کی طرف سے ہم جنس پرستوں کو شادی کی قانونی اجازت دینے پر شدید تنقید کی ہے اور روایتی خاندانی نظام کی حمایت کرتے ہوئے اسپین کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہم جنس پرستوں کو باہمی شادی کی قانونی اجازت دینے کے قوانین پر نظر ثانی کرے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاپائے روم نے یہ بات اسپین کے شہر بارسلونا کے گرجاگھر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی جبکہ اس دوران گرجاگھر سے باہر سینکڑوں ہم جنس پرست پاپائے روم کے اس خطاب کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
ہم جنس پرستی یعنی مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے جنسی تعلق قائم کرنا تمام آسمانی مذاہب کے نزدیک لعنتی عمل ہے جس کی بائبل میں بھی شدید مذمت کی گئی ہے، لیکن مغرب کے جن ممالک میں اس عملِ بد کو جائز قرار دے کر ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادی کرنے کا قانونی حق دیا گیا ہے وہ کم و بیش سبھی مسیحی ممالک کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس لیے پاپائے روم کی طرف سے اس کی مذمت اور ایسے قوانین پر نظر ثانی کا مطالبہ خوش آئند ہے۔
پاپائے روم کے حوالہ سے ایک اور خبر بھی عالمی پریس میں گردش کر رہی ہے جس کا حوالہ سہ روزہ دعوت دہلی کے ۴ نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دیا گیا ہے کہ انہوں نے اٹلی کے دورہ کے لیے آنے والے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے کہ وہ اس دورہ میں اپنے ساتھ اپنی بیگم کو ساتھ نہ لائیں کیونکہ عیسائیوں کے مقدس شہر ’’ویٹی کن سٹی‘‘ میں ان کا استقبال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کلیسائے روم میں انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس کی وجہ صدر فرانس نکولس سرکوزی کی اہلیہ کارلابرونی کی وہ عریاں تصاویر ہیں جو مختلف یورپی اخبارات میں تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں اور فرانس کی خاتون اول ان پر کسی مذمت کا اظہار نہیں کر رہیں۔ فرانس کی خاتون اول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ خاصی روشن خیال اور آزاد مزاج ہیں حتٰی کہ کچھ عرصہ قبل ایران میں ایک عورت کو شوہر کے قتل اور ماورائے نکاح جنسی تعلق یعنی زنا کے جرم میں عدالت کی طرف سے سزا سنائی گئی تو فرانسیسی صدر کی اہلیہ نے اسے کھلم کھلا وحشیانہ سزا قرار دے کر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر بعض ایرانی اخبارات نے اسے ’’بازارو‘‘ کا خطاب دے دیا اور فرانسیسی اخبارات نے اسے اپنی خاتون اول کی توہین قرار دیتے ہوئے ایرانی حکومت سے اس پر باقاعدہ معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاپائے روم اس سے قبل ضبط ولادت اور خاندانی منصوبہ بندی کے حوالہ سے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس کی مطلقاً اجازت نہیں دی جا سکتی اور اسقاط حمل کے غیر مشروط حق کی بھی ان کی طرف سے کھلی مخالفت سامنے آئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کی مسیحی دنیا کی طرف سے معاشرتی معاملات سے مذہب کی لاتعلقی یعنی سیکولرزم کے عمومی فروغ کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ پاپائے روم کی طرف سے معاشرتی مسائل میں مذہبی تعلیمات کی دوبارہ عملداری کی بات کہی جا رہی ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ مسلم دنیا کے علمی حلقے اور مسیحی دنیا کے پاپائے روم باہم مل کر سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کی مہم چلائیں اور معاشرتی معاملات میں آسمانی تعلیمات کی عملداری کا ماحول پیدا کرنے کی مشترکہ محنت کریں؟ کامیابی کے بعد دونوں اپنے معاشروں میں اپنے مذہب کی عملداری میں آزاد ہوں گے اور پھر جس مذہب کی تہذیبی و ثقافتی قوت و استعداد زیادہ ہو گی وہ خود ہی انسانی سوسائٹی میں اپنا راستہ ہموار کر لے گا۔