سال میں ایک آدھ بار سندھ کے بعض اضلاع میں جانے کا موقع ملتا ہے، اس دفعہ بھی مدرسہ نصرۃ العلوم کے سہ ماہی امتحان کے موقع پر دو تین دن کی گنجائش نکل آئی اور پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص کے کچھ دینی اداروں میں حاضری ہو گئی۔
حیدر آباد میں جامعہ مفتاح العلوم کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹر عبد السلام قریشی کی کتاب ’’احکام فقیہ قرآن کریم کی روشنی میں‘‘ کی رونمائی تقریب تھی۔ اس مقالہ پر مصنف کو سندھ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی ہے اور اس میں انہوں نے احکام و قوانین کے بارے میں قرآن کریم کی آیات کریمہ کو مناسب تشریح کے ساتھ مرتب انداز میں پیش کیا ہے جو ایک اچھی کاوش ہے اور اس کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ اور طالبات کو ضروری دینی معلومات سے بہرہ ور کرنے کے لیے جو خصوصی کورسز پڑھائے جاتے ہیں، ان میں شامل کرنے کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔
اس بار مولانا ڈاکٹر سیف الرحمان آرائیں اور مولانا ڈاکٹر عبد السلام قریشی نے سندھ یونیورسٹی میں حاضری کو بھی میرے پروگرام میں شامل کر لیا تھا اور سندھ یونیورسٹی کی اسلامی علوم کی فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبد الستار انصاری نے اس موقع پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں مجھے ’’اسلام اور انسانی حقوق‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا تھا۔ مگر جب ہم سندھ یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا طاری تھا اور باہر پولیس گھوم رہی تھی، معلوم ہوا کہ طلبہ کے مختلف گروپوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے ہڑتال ہے اور یونیورسٹی خالی ہے۔ البتہ ڈاکٹر عبد الستار انصاری نے اپنے دفتر میں شعبہ علوم اسلامی کے اساتذہ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ متعدد علماء کرام بھی شریک تھے۔ اس نشست کی صدارت ڈاکٹر انصاری صاحب نے کی اور اسلامی اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر ثناء اللہ بھٹو صاحب نے نشست کی کارروائی چلائی۔ سندھی روایات کے مطابق ڈاکٹر عبد الستار انصاری نے مجھے اجرک اور سندھی ٹوپی اوڑھائی اور اور عزت افزائی کے کلمات کہے۔
ڈاکٹر عبد الستار انصاری، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے ارادت کا تعلق رکھتے ہیں، شیرانوالہ لاہور میں عرصہ تک ان کی آمد و رفت رہی ہے، مجھے بھی اس دور سے جانتے ہیں اور ان کی محبت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ تاریخ کے استاد اور محقق ہیں، مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پر انہوں نے ناقدانہ کام کیا ہے اور اس کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہیں۔ دینی مدارس کے حوالہ سے اس بات کے شاکی ہیں کہ ان میں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی، ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کو اسی اہمیت اور اہتمام کے ساتھ دینی مدارس میں پڑھانے کی ضرورت ہے جس اہتمام کے ساتھ حدیث پڑھائی جاتی ہے، کیونکہ تاریخ کی اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت سے عقائد کے مسائل بھی تاریخ سے متعلق ہیں، اس لیے دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں تاریخ کو یکسر نظرانداز کرنے کا رویہ درست نہیں ہے۔ راقم الحروف نے عرض کیا کہ میرا موقف بھی کم و بیش یہی ہے اور میں دینی حلقوں کو مسلسل اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں۔
اس نشست میں مجھے ’’انسانی حقوق اور اسلام‘‘ کے عنوان پر خطاب کی دعوت دی گئی جس پر میں نے برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمشنر محترمہ ملیحہ لودھی کے اس بیان کے حوالہ سے مختصر گفتگو کی جو اُسی روز ایک قومی روزنامہ نے شائع کیا تھا۔ اس کے مطابق ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے بارے میں انتہائی غلط تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ اسلام کے تشخص کو درست کرنا مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے، مسلمان اگر خاموش رہے تو یہ جنگ ہار جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان آگے آئیں اور بجائے اس کے کہ اسلام اور مسلمانوں کی دوسرے ’’تشریح‘‘ کریں، وہ خود یہ کام سنبھالیں۔ ارکان پارلیمنٹ، میڈیا اور دوسرے با اَثر اداروں سے رابطہ میں رہیں اور وہ اس مقصد کے لیے مسلمان خواتین سے بھی مدد لیں۔ ملیحہ لودھی نے لندن میں ساؤتھ آل کے مقام پر گفٹ گروپس کے محمد ارشاد کے ظہرانے میں کمیونٹی لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔
راقم الحروف نے گزارش کی کہ مجھے محترمہ ملیحہ لودھی اس ارشاد سے مکمل اتفاق ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی ممالک بلکہ پوری دنیا میں جو غلط فہمیاں پائی جا رہی ہیں اور جن کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے ان کو دور کرنے کے لیے مسلمان دانشوروں اور علماء کرام کو آگے آنا چاہیے، اور ابلاغ اور لابنگ کے ان تمام ذرائع اور وسائل تک رسائی حاصل کرنی چاہیے جو اس حوالہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں، اس کے بغیر ہم یہ جنگ نہیں لڑ سکیں گے۔ اس فکری جنگ میں سب سے بڑا ہتھیار ’’انسانی حقوق‘‘ کا نعرہ ہے اور مغرب نے بڑی کامیابی کے ساتھ آج کی دنیا کو یہ باور کرا رکھا ہے کہ اسلام میں انسانی حقوق کا تصور نہیں ہے اور انسانی سوسائٹی کو انسانوں کے حقوق سے سب سے پہلے مغرب نے متعارف کرایا ہے۔ حالانکہ اصل صورتحال اس سے قطعی مختلف ہے کیونکہ یورپ اور مغربی دنیا کی حد تک تو یہ دعوٰی کسی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ عام شہریوں کو ان کے حقوق کا شعور گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران حاصل ہوا ہے اور اس میں یورپ کی فکری بیداری کی تحریک اور انقلاب فرانس نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن اسلامی دنیا ایک ہزار سال قبل سے ان حقوق سے آشنا ہے جنہیں آج معاشرتی اور شہری حقوق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ اسلام میں حقوق کا جو دائرہ بیان کیا گیا ہے اور ان کی جو فطری درجہ بندی کی گئی ہے مغرب اب بھی اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔ البتہ اسلام کے انسانی حقوق کے نظام اور مغرب کے انسانی حقوق کے فلسفہ میں دو بنیادی فرق ہیں:
- مغرب صرف بندوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، جبکہ اسلام اللہ تعالٰی اور بندوں دونوں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دونوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔
- مغرب ہر شخص میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا ذوق بیدار کرتا ہے، جبکہ اسلام دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کو ترجیح دینے کی تلقین کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہمارے اہل دانش جن میں علماء کرام، دینی مدارس کے مدرسین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بطور خاص قابل ذکر ہیں، اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اس فکری جنگ میں سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوں۔
اس سفر کا تیسرا اہم پروگرام ضلع میرپور خاص میں پتھورو کے مقام پر ’’مدرسہ تجوید القرآن‘‘ کی سالانہ تقریب تھی جو ۳۱ مارچ کو بعد نماز مغرب منعقد ہوئی۔ یہ مدرسہ مولانا فداء الرحمان درخواستی نے جامعہ انوار القرآن کراچی کی شاخ کے طور پر قائم کیا ہے۔ میں دو سال قبل جب یہاں آیا تو ایک آدھ عارضی کمرا تھا مگر اب ایک خوبصورت مسجد تعمیر ہو چکی ہے اور سات کمروں پر مشتمل بلاک بن چکا ہے جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ طلبہ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان میں سے ستر طلبہ وہیں قیام پذیر ہیں۔ دور دراز کے دیہی علاقے میں یہ معیاری اور خوبصورت درسگاہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ مسجد و مدرسہ کا ماحول، صفائی اور زیب و زینت دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ شاید کراچی شہر کے کسی مدرسہ میں بیٹھے ہیں۔ مدرسہ کے چھ طلبہ نے اس سال حفظ قرآن کریم مکمل کیا ہے جن کی دستاربندی کے لیے یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اردگرد سے سینکڑوں علماء کرام اور احباب شریک تھے۔ کراچی کے ممتاز عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا زرولی خان مدظلہ تشریف لائے، انہوں نے مختصر خطاب کے ساتھ طلبہ کی دستاربندی کی اور انعامات سے نوازا۔ راقم الحروف نے بھی حفظ قرآن کریم کی اہمیت پر گزارشات پیش کیں۔ علاقہ کی دیگر بہت سی ممتاز شخصیات کے علاوہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر سید مظفر حسین شاہ بھی تشریف لائے جو اِسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ راقم الحروف کے خطاب کے دوران وہ تھوڑی دیر کے لیے آئے، کچھ دیر اسٹیج پر بیٹھے اور پھر واپس چلے گئے جبکہ نصف شب تک یہ بارونق محفل قائم رہی۔
حضرت مولانا زرولی خان کی عنایت سے اس سفر میں ایک اور سعادت بھی حاصل ہو گئی، انہوں نے ایک محترم بزرگ کی زیارت سے شادکام کیا، علاقہ دیر سے ایک بزرگ مولانا سید محمود مدظلہ ان کے ہاں آئے ہوئے تھے جن کی عمر ایک سو چوبیس برس بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے تلمذ کا شرف حاصل کیا ہے۔ ان کے اعزاز میں کھانے کی ایک دعوت میں حضرت مولانا زرولی خان نے بہت سے علماء کرام کو مدعو کیا، حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف بھی مدعو تھے۔ مولانا سید محمود مدظلہ کے ساتھ ملاقات ہوئی، کھانے میں شرکت ہوئی اور مختصر گفتگو کے ساتھ ان کی دعاؤں میں حصہ مل گیا، فالحمد للہ علٰی ذالک۔