۲۵-۲۴ نومبر کو جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ’’یونائیٹ‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عالمی بین المذاہب کانفرنس میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ!۔’’یونائیٹ‘‘ کے سربراہ مولانا مفتی ابوہریرہ محی الدین اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہوں کہ مجھے بھی دنیا کے مختلف ممالک سے تشریف لانے والے چند بڑے مذاہب کے سرکردہ اصحاب فکر و دانش کے اس اجتماع میں شرکت اور کہنے سننے کا موقع فراہم کیا اور تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کانفرنس کے موضوع اور مقاصد کے حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ کانفرنس مذاہب کے نمائندوں کی ہے اور عالمی سطح پر ہے اس لیے آج کے عالمی معاشرہ اور گلوبل سوسائٹی کو سامنے رکھتے ہوئے معزز شرکاء کو سب سے پہلے اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کی انسانی سوسائٹی کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے مذہب کیا کردار ادا کر سکتا ہے اور مذہبی راہنماؤں کو کیا کرنا چاہیے۔ انسانی معاشرہ اس وقت جن الجھنوں سے دوچار ہے اور ان کی سنگینی کی جو ترجیحات ہیں ہمیں ان سب کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے اور مذہبی تعلیمات کی ضرورت و کردار کا عمومی تناظر میں جائزہ لینا چاہیے۔
کانفرنس کے بہت سے فاضل مقررین نے دہشت گردی کا ذکر کیا ہے جو بلاشبہ آج کی دنیا کا اہم ترین اور سنگین مسئلہ ہے جس سے دنیا بھر کا امن خطرات میں گھر کر رہ گیا ہے، لیکن انسانی معاشرہ اس کے علاوہ بھی بہت سی سنگین الجھنوں اور پریشانیوں کا شکار ہے۔ میں چاہوں گا کہ ان کی ایک مختصر اور سادہ سی فہرست معزز مہمانوں اور شرکاء کانفرنس کے سامنے رکھ دوں۔
چونکہ ہم یہاں مذہب کے حوالہ سے بیٹھے ہیں اور مذاہب کے نمائندوں کی حیثیت سے جمع ہیں اس لیے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے سب حضرات کو دعوت دوں گا کہ وہ آج کے انسانی معاشرہ کو درپیش چند بڑے مسائل پر ایک نظر ضرور ڈال لیں۔
- دہشت گردی یقیناً بڑا اور سنگین مسئلہ ہے لیکن معاشی استحصال بھی اپنی سنگینی اور تباہ کاری میں اس سے کم نہیں ہے۔ پوری دنیا معاشی استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے دوچار ہے۔ امیر اور غریب کا فرق افراد اور طبقات کے ساتھ ساتھ ممالک و اقوام کو بھی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ دنیا کی دولت اور وسائل کو جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی اجتماعی ضروریات کے لیے دیے ہیں ان پر ہر سطح پر چند افراد اور طبقات کا قبضہ ہے جبکہ باقی ساری دنیا ان کے رحم و کرم پر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی مذہب اس استحصال اور لوٹ مار کی اجازت نہیں دیتا اور اس حوالہ سے مذہبی تعلیمات کو اجاگر کرنا بہرحال ہماری ذمہ داری ہے۔
- خاندانی نظام بکھرتا جا رہا ہے اور رشتوں کے تقدس کے بعد ان کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ صورت حال کسی بھی مذہب کے سنجیدہ راہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ میری گزارش ہے ہوگی کہ تمام مذاہب کے راہنماؤں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
- شدت پسندی اور عدم برداشت نے پوری دنیا کے امن اور معاشرتی سکون کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ یقیناً مذہبی دنیا میں یہ شدت پسندی اور عدم برداشت اس وقت نمایاں دکھائی دے رہی ہے، لیکن زندگی کے دوسرے بہت سے شعبے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں اور ایک دوسرے پر بالاتری اور تسلط کے جذبہ نے اس شدت پسندی اور عدم برداشت کو انسانی معاشرے کا روگ بنا دیا ہے۔
- مذہبی حوالہ سے کسی بھی مذہب کے راہنما اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ دنیا پرستی، خدا فراموشی اور آخرت سے بے خوفی نے انسانی معاشرہ کو اکاس بیل کی طرح گھیر لیا ہے، اور خدا و آخرت کا عقیدہ ہماری عملی زندگی سے نکل گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس معاشرتی روگ اور روحانی بیماری کا علاج بھی مذہبی راہنماؤں نے ہی پیش کرنا ہے۔
- دولت و طاقت کی بالادستی آج بھی دولت مند اور طاقت ور لوگوں اور طبقات کی علامت ہے جس کے سامنے قانون اور اخلاقیات بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور دولت و طاقت مختلف چہروں کے ساتھ اپنا جبر ہر سطح پر قائم رکھے ہوئے ہیں۔
- کرپشن ہر ملک میں ہر سطح پر اور ہر شعبہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے، حتیٰ کہ اس کے جواز اور ضرورت پر دلائل کی تلاش بھی ہو رہی ہے۔ کرپشن دنیا بھر میں انسانی معیشت، معاشرت اور اخلاقیات کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے جبکہ اس کے خاتمہ میں مذہب کے کردار کو اجاگر کرنے کی کوئی عملی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔
- فحاشی اور عریانی انسانی معاشرہ کا ایک مستقل روگ ہے جس کی تباہ کاریاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، یقیناً یہ بھی کسی مذہب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن مذہب اور مذہبی راہنما اس کے سدباب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرتے نظر نہیں آ رہے۔ جبکہ بدکاری، فحاشی اور عریانی نے سکہ رائج الوقت کی پوزیشن حاصل کر رکھی ہے۔
- حلال و حرام کا فرق معاشرے سے ختم ہوگیا ہے اور اباحیت مطلقہ نے انسانی فکر و ذہن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ تمام مذاہب حلال و حرام میں فرق کے داعی ہیں اور آسمانی تعلیمات حرام کی نحوستوں اور نقصانات کو مسلسل بیان کر رہی ہیں، مگر مذہبیت ایک طرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
یہ انسانی سوسائٹی کے چند سنگین مسائل ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ کے عملی مسائل اور مشکلات کو الجھانے میں جہاں مذہب کا غلط استعمال محسوس ہوتا ہے اس کی نشاندہی ضرور کرنی چاہیے اور اس کی اصلاح کی کوشش بھی کرنی چاہیے، لیکن جو مسائل مذہب سے انحراف اور آسمانی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ان کی نشاندہی کرنا اور ان کے حل کے لیے مذہب کی تعلیمات کو مؤثر انداز میں انسانی سوسائٹی کے سامنے پیش کرنا اور اصلاحِ احوال کی جدوجہد بھی مذہب کے راہنما ہونے کی وجہ سے ہماری ذمہ داری ہے۔ میں اس ’’عالمی بین المذاہب کانفرنس‘‘ کی وساطت سے یہی پیغام دنیا کو دینا چاہتا ہوں۔