گزشتہ دنوں آزادکشمیر کے دو اضلاع باغ اور سدھنوتی کے مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا تو اس دوران خاص طور پر یہ منظر دیکھ کر حیرت اور تعجب میں اضافہ ہوا کہ قدم قدم پر عالمی بینک کے تعاون سے مکمل کیے جانے والے آب رسانی کے منصوبوں کی تفصیلات کے بورڈ نصب ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں نے ورلڈ بینک کے تعاون سے پینے کے پانی کے حصول اور گھروں تک اسے پہنچانے کے بہت سے منصوبے مکمل کیے ہیں جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور چشموں سے آبادی اور گھروں تک پہنچانےکے لیے پانی کے پائپ ورلڈ بینک نے مہیا کیے ہیں اور باقی ضروریات حکومت آزاد کشمیر اور مقامی آبادی کے تعاون سے پوری ہوئی ہیں۔
یہ بظاہر بہت اچھی بات ہے کہ دور دراز کے پسماندہ علاقوں میں عام آبادی کو پینے کا پانی مہیا کرنے کے لیے ورلڈ بینک تعاون کر رہا ہے اور اس پر اس عالمی ادارے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن دو حوالوں سے یہ بات مجھے کھٹکی ہے اور اپنے قارئین کے سامنے ان کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں، مگر اس سے پہلے اس خطہ کے عام لوگوں کے تاثرات کا ذکر بھی نا مناسب نہ ہوگا جو پلندری اور باغ دونوں جگہ سامنے آئے ہیں کہ جہاں جہاں آب رسانی کے لیے ورلڈ بینک کے پائپ استعمال ہوئے ہیں وہاں چشموں کا پانی یا تو بالکل خشک ہوگیا ہے یا بہت زیادہ کم ہوگیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ ایسے چشمے جہاں ہم نے کبھی پانی کی کمی محسوس نہیں کی تھی اور سال کے کسی موسم میں وہ خشک نہیں ہوتے تھے مگر ورلڈ بینک کے پائپ نصب ہوتے ہی وہ بھی خشک ہوگئے ہیں اور عام لوگ عجیب پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کے اسباب پر لوگ اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کر رہے ہیں۔ باغ کے ضلع مفتی مولانا مفتی عبد الشکور کے مکان پر بیٹھے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ پہلے ان چشموں کا پانی کھلی زمین پر کھلی نالیوں کے ذریعے بہتا تھا اور راستہ میں جانور بھی اس سے استفادہ کرتے تھے مگر اب بند پائپوں کی وجہ سے وہ جانور پانی سے محروم ہوگئے ہیں اس لیے ان کی بد دعا کی وجہ سے چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض دوستوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے پائپوں کی نحوست ہے کہ ہمارے ہمیشہ بہنے والے چشمے خشک ہو رہے ہیں، جبکہ بعض حضرات کا کہنا تھا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر ایسا ہوا ہو رہا ہے۔ بہرحال اس کی وجہ کوئی بھی ہو مگر واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ جوں جوں ورلڈ بینک کے پائپوں کی تنصیب ہو رہی ہے پانی کی رفتار بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی شکایت کسی ایک جگہ کے لوگوں نے نہیں کی بلکہ پلندری اور باغ کے دونوں اضلاع میں یہ شکایت عام طور پر سننے میں آئی ہے۔
لیکن مجھے جس بات پر بہت زیادہ تعجب ہوا وہ ان منصوبوں کے تعارفی اور تشہیری بورڈوں کی بہت زیادہ کثرت ہے جو ایک ایک دو دو کلو میٹر کے فاصلے پر اتنی تعداد میں دکھائی دے رہے ہیں کہ جیسے اصل مقصد پائپوں کی تنصیب اور پانی کی فراہمی نہ ہو بلکہ اس کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کر کے لوگوں کو یہ بتانا ہو کہ ورلڈ بینک ان پر کس قدر مہربان ہے اور ان کی بہبود کے لیے کتنی رقم خرچ کر رہا ہے۔ یہ بات مجھے بطور خاص کھٹکی ہے اور اس کی کھٹک میں اس پس منظر سے اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ ضلعی سطح پر با اختیار حکومتیں بنانے کی تیاریاں زور و شور کے ساتھ جاری ہیں اور ایک خبر کے مطابق جنرل پرویز مشرف ۱۴ اگست کو ان اضلاع کا اعلان کرنے والے ہیں جہاں ابتدائی سطح پر تجرباتی طور پر با اختیار ضلعی حکومتوں کے قیام کے لیے اس سال کے آخر میں انتخابات کا انعقاد کیا جانے والا ہے۔ با اختیار ضلعی حکومتوں کا یہ منصوبہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا ہے اور ان کا عزم یہ ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنے سے پہلے اس منصوبہ پر عملدرآمد کریں گے اور ضلعی حکومتوں کے اس نظام کو مستحکم کر کے اقتدار نئی حکومت کے حوالے کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ہر سطح پر ہوم ورک جاری ہے اور سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ وہ ہزاروں این جی اوز بھی متحرک ہیں جن کا کردار ہمارے معاشرے میں دن بدن پھیلتا جا رہا ہے اور اسی تیزی کے ساتھ مشکوک اور متنازعہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ بظاہر ضلعی سطح پر اختیارات کی منتقلی میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اور اس میں عام آدمی کا فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب یہ نظر آتا ہے کہ ان با اختیار ضلعی حکومتوں کے ساتھ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کی ڈیلنگ براہ راست ہوگی اور اس ڈیلنگ میں سب سے زیادہ مؤثر کردار ان این جی اوز کا ہوگا تو سچی بات ہے کہ اس سارے چکرمیں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا وجود تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ذرا ایک نظر مجموعی تناظر پر ڈال لیجئے کہ:
- ہماری معاشی اور اقتصادی پالیسی پہلے ہی مکمل طور پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے کنٹرول میں جا چکی ہے۔
- خارجہ پالیسی مسلسل اور روز افزوں عالمی اداروں کے دباؤ کی زد میں ہے۔
- عسکری معاملات میں ہم آزادانہ فیصلوں کی سہولت دن بدن کھوتے جا رہے ہیں۔
- تجارت کے بہت سے شعبے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں اور باقی ماندہ تجارت اور صنعت کو برباد کرنے کے لیے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پیش رفت جاری ہے جس کا نتیجہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مکمل تجارتی کنٹرول کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اس کے ساتھ جب بلدیاتی نوعیت کے کام مثلاً آب رسانی، صحت و صفائی، سیوریج، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر شہری و دیہی ضروریات کا کام پورے کا پورا بلدیاتی حکومتوں کے سپرد کر کے ان کا تعلق براہ راست عالمی اداروں کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا تو پھر حکومت پاکستان کا وجود کس زمین پر ہوگا اور اس کے وجود کا جواز بھی کون سا باقی رہ جائے گا؟
اس پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ با اختیار ضلعی حکومتوں کا یہ منصوبہ ’’لوکلائزیشن‘‘ کا نہیں ہے بلکہ اس خوبصورت عنوان کے پردہ میں ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے اس صہیونی پروگرام کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی اداروں کے ذریعے نچلی سطح تک کے تمام معاملات کا کنٹرول حاصل کر کے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کو تکمیل تک پہنچانا اور اقوام متحدہ کے نام پر امریکہ، اور امریکہ کی آڑ میں یہودیوں کی عالمی حکومت قائم کرنا ہے جس کا خواب وہ صدیوں سے دیکھ رہے ہیں اور جس کے لیے ہر سطح پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔ اس لیے بڑے ادب اور انتہائی احترام کے ساتھ ہم جنرل پرویز مشرف سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جس منصوبے پر کام کر رہے ہیں اس کا ایک بار پھر جائزہ لے لیں اور این جی اوز کے حصار سے نکل کر آزادانہ فضا میں بھی اس پر ایک نظر ڈال لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وجود عالمی اداروں کے منصوبوں میں تحلیل ہو کر رہ جائے اور جنرل پرویز مشرف جاتے جاتے اسلام آباد کے تخت پر کسی شاہ عالم ثانی یا بہادر شاہ ظفر کو بٹھا کر چہرے پر بھولپن طاری کرتے ہوئے قوم کو یہ ’’خوشخبری‘‘ سنا دیں کہ دیکھو میں نے وعدہ کے مطابق اقتدار منتقل کر دیا ہے۔