دارالعلوم دیوبند کی کم و بیش ڈیڑھ سو سالہ دینی، علمی و ملی خدمات کے حوالے سے پشاور میں کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی دعوت پر ملک بھر سے لاکھوں علماء کرام، دینی کارکنوں اور دیندار عوام نے پشاور میں جمع ہو کر واضح کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام کے ذہنوں میں اس تاریخی جدوجہد کا تسلسل بدستور موجود ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد چند درویش صفت لوگوں کے ہاتھوں سے ہوا تھا اور جو بتدریج آگے بڑھتے ہوئے آج پورے عالمِ اسلام کی توجہات کو اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
جہاں تک کانفرنس میں عوام، علماء اور کارکنوں کی بڑی تعداد کی شرکت کا تعلق ہے اس لحاظ سے کانفرنس بلاشبہ کامیاب ہوئی ہے اور قوت کے مظاہرہ کے حوالے سے کانفرنس کے منتظمین نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ جس کا عمومی طور پر ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا میں مغربی استعمار کے فکری اور سیاسی مقاصد کے لیے کام کرنے والی لابیوں اور این جی اوز کو ایک بار پھر اس حقیقت کے ادراک کے مرحلہ سے گزرنا پڑا ہے کہ پاکستان میں مغربی فکر و فلسفہ اور سیاست و قیادت کے خلاف مزاحمت کی قوت عوامی سطح پر نہ صرف موجود ہے، بلکہ پوری طرح بیدار و متحرک بھی ہے۔
لیکن کانفرنس کے فورم سے قوم کو کوئی واضح پروگرام یا پیغام ملنے کی جو توقعات کچھ حضرات نے وابستہ کر رکھی تھیں، یا بعض دوستوں نے دیوبندی مکتبِ فکر کی جماعتوں یا کم از کم جمعیت علماء اسلام کے دھڑوں میں اتحاد و اشتراک کے کسی مؤثر فورم کے اعلان کی جو امیدیں قائم کر لی تھیں، وہ بہرحال مکمل طور پر پوری نہیں ہوئیں، اور اس سلسلہ میں کارکنوں کی سطح پر مایوسی کا اظہار دھیرے دھیرے شروع ہو گیا ہے۔ ہمیں یہ امید کسی درجہ میں تھی کہ جمعیت علماء اسلام کی قیادت اتنے بڑے اجتماع کو فکری جدوجہد یا سیاسی پیشرفت کے لیے بامقصد بنانے کی کوئی صورت ضرور اختیار کرے گی، مگر ایسا نہیں ہوا اور بات صرف قوت کے مظاہرے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
بہت زیادہ مناسب ہوتا اگر اس موقع پر دیوبندی مکتبِ فکر کی تمام جماعتوں کا ایک مشاورتی اجلاس کر لیا جاتا اور ملک میں لاقانونیت، فحاشی اور مغربی ثقافت کی بڑھتی ہوئی یلغار کی روک تھام کے لیے سب کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل اور پروگرام کا اعلان کر دیا جاتا۔ یا کم از کم کانفرنس کے دنوں میں جمعیت علماء اسلام پاکستان ہی کی مجلسِ عمومی کا اجلاس کر کے اس کی طرف سے جمعیت کے پہلے سے جاری پروگرام مثلاً امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ، این جی اوز کے تعاقب کی مہم، اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے بارے میں کسی عملی جدوجہد کے طریق کار کا اعلان ہو جاتا۔ مگر ان میں سے کوئی قدم بھی نہیں اٹھایا گیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قسم کی مشاورت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جو بہرحال ایک فکر انگیز بات ہے۔ ہمارے خیال میں اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا اور کانفرنس کی عوامی قوت کو دینی اور مسلکی مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی اب بھی ہو سکتی ہے، بشرطیکہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کی قیادت اس ضرورت کو سنجیدگی کے ساتھ محسوس کرے اور اس کے لیے مثبت پیشرفت پر آمادہ ہو۔
اس وقت دینی اور مسلکی حوالے سے عالمی سطح پر اور جنوبی ایشیا کے علاقائی تناظر میں ہماری ضروریات میں
- امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکومت کو زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت فراہم کرنا اور طالبان کو سیاسی و اخلاقی سپورٹ مہیا کرنا،
- پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے مغربی ثقافت اور بے حیائی و فحاشی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی روک تھام،
- این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمیٹیوں کی طرف سے پاکستان کی قومی سیاست و معیشت پر قبضہ کے لیے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روکنا،
- اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے عوامی دباؤ میں اضافہ،
- اور امریکہ، بھارت، اسرائیل اور روس کے نئے گٹھ جوڑ کے مقاصد و عزائم کا ادراک کرتے ہوئے رائے عامہ کو ان کے خلاف بیدار اور منظم کرنا
سرفہرست ہے اور اہم ترین تقاضوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور تاریخی تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے ان تقاضوں کو مہم کا درجہ دینے اور ان کے لیے عوامی سطح پر جدوجہد منظم کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ دیوبندی مکتبِ فکر پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس ذمہ داری میں یہ بھی شامل ہے کہ دوسرے تمام مکاتبِ فکر کی سنجیدہ قیادت کی راہ ہموار کی جائے اور عالمی کفر و استعمار کی منظم صف بندی کے مقابلے میں منظم اور مؤثر صف بندی کا اہتمام کیا جائے۔
ہماری تجویز ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن پہلے مرحلے پر دیوبندی مکتبِ فکر کی تمام جماعتوں کا مشترکہ مشاورتی اجلاس طلب کریں اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے مذکورہ بالا مقاصد کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔ تاکہ افغانستان، کشمیر، فلسطین اور عالمِ اسلام کے دیگر سلگتے ہوئے مسائل کے حوالے سے تاریخ کے اس نازک مرحلے پر امام ولی اللہ دہلویؒ کی جماعت اپنے صحیح اور عملی کردار کا تعین کر کے اس کے مطابق صحیح رخ پر آگے بڑھ سکے۔