توہین رسالتؐ ۔ تصویر کے دو رُخ

   
تاریخ : 
جون ۲۰۱۰ء

مغربی دنیا میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور توہین پر مبنی خاکوں کی دوبارہ اور وسیع پیمانے پر اشاعت کے سلسلہ نے عالم اسلام کے مذہبی حلقوں میں ایک بار پھر ہیجان پیدا کر دیا ہے اور احتجاجی بیانات، مظاہروں اور دیگر ذرائع سے غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

  • یوٹیوب جس کے ذریعے ان خاکوں کو پھیلایا جا رہا ہے اور فیس بک سمیت سینکڑوں ویب سائٹس پر حکومت پاکستان نے پابندی عائد کر دی ہے۔ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت قابل قبول نہیں ہے اور پاکستان نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت ہر عالمی فورم پر اٹھایا ہے جبکہ جنیوا میں او آئی سی کے رابطہ کار کی حیثیت سے بھی پاکستان نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔
  • روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۱ مئی ۲۰۱۰ء کی خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے مولانا محمد قاسم ایم این اے کی زیر صدارت ایک اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا نوٹس لے اور اس کے لیے اسلامی سربراہ کانفرنس کا وزارتی سطح پر اجلاس بلایا جائے۔
  • مختلف دینی تنظیموں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان رسمی کاروائیوں کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ اس اہم مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائے۔
  • دوسری طرف روزنامہ جنگ راولپنڈی کی اسی روز کی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون اقلیتوں کے قتل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔قرار داد میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو تمام بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور ناموس رسالتؐ کے قوانین کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کے تحت ملک میں موجود مذہبی اقلیتوں جن میں ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور پارسی شامل ہیں اور خاص طور پر احمدیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے اس موقع پر کہا کہ حکومت پاکستان نے توہین رسالتؐ قوانین میں ترمیم کا وعدہ کیا ہے اور ان قوانین کو اس طرح تبدیل کیا جائے گا کہ ان کی مدد سے کسی کو نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پر کام کر رہے ہیں اور سال رواں کے آخر تک توہین رسالت قانون میں ترمیم کر دی جائے گی۔

توہین رسالتؐ کے محاذ پر دونوں طرف جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک سر سری تناظر ان خبروں سے سامنے آجاتا ہے اور مسلم حکومتیں اور خاص طور پر حکومت پاکستان اس حوالہ سے جو کردار ہے وہ بھی کسی خفا کا شکار نہیں ہے۔ ہم اس سے قبل یہ عرض کر چکے ہیں کہ احتجاج اور جذبات کا اظہار اپنی جگہ درست ہے کہ غیرت ایمانی کا اس سے اظہار ہوتا ہے لیکن اصل ضرورت اس سلسلہ میں عالمی سطح پر ٹھوس فکری و علمی کام کی ہے کہ توہین رسالتؐ کے حوالہ سے جو شکوک و شبہات مسلسل پروپیگنڈا کے ذریعے عالمی رائے عامہ کے ذہنوں میں پختہ کیے جا رہے ہیں ان کا ازالہ اسی سطح پر اور اسی انداز سے کیا جائے۔

یہ فکری اور ثقافتی کشمکش کا میدان ہے اور اس میں جذبات اور دینی جذبات کے مؤثر اظہار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے موقف کو اجتماعی اور علمی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جس کی اولین ذمہ داری دنیا بھر کی مسلم حکومتوں بالخصوص پاکستان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس کی بظاہر کوئی توقع دکھائی نہیں دے رہی، اس لیے اس ضرورت اور خلا کو پورا کرنے کے لیے بڑے دینی و علمی اداروں کو آگے آنا ہو گا، خدا کرے کہ ہمارے بڑے علمی ادارے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا بروقت احساس کر سکیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter