انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی علمی و فکری بنیاد کیا ہو گی؟

   
۲۲ مئی ۲۰۰۴ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے بارے میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر غیرت کے نام پر قتل، حدود آرڈیننس، اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کا ذکر چھیڑا، اور مروجہ قوانین پر نظرثانی کی حمایت کرتے ہوئے ایک بااختیار قومی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لے گا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرے گا۔ اس پر ملک کے مختلف طبقات کی طرف سے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ متحدہ مجلسِ عمل اور دیگر دینی جماعتوں نے حدود آرڈیننس اور توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ردوبدل کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چودھری اعتزاز احسن نے حدود آرڈیننس کو سرے سے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

جہاں تک انسانی حقوق کے بارے میں ایک آزاد اور خودمختار قومی کمیشن کے قیام کی بات ہے، اگر وہ واقعی آزاد اور خودمختار ہو اور اس میں ایک ہی طرح کا ذہن رکھنے والے دانشوروں کی یکطرفہ بھرتی نہ ہو تو ہمارے خیال میں اس کے قیام میں کوئی حرج نہیں، بلکہ انسانی حقوق کے عنوان پر اصولی جنگ لڑنے والوں کے لیے یہ ایک بہتر فورم ثابت ہو گا۔ البتہ اس کے قیام کے ساتھ ہی ایک بات اصول اور بنیاد کے طور پر طے کرنا ہو گی کہ انسانی حقوق کی فکری اور علمی بنیاد کیا ہے؟ اور ہم نے کس فلسفہ و تہذیب کے دائرے میں انسانی حقوق کی تعبیر و تشریح کو قبول کرنا ہے؟ اس لیے کہ اس وقت کنفیوژن کی اصل بات یہی ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی بات کرنے والے بیشتر دانشور اس سلسلہ میں ہمیشہ اسلام کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہیں، صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے مذکورہ خطاب میں جناب نبی اکرمؐ کے خطبۂ حجۃ الوداع کا ذکر کیا ہے، لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی انسانی حقوق کے کسی مسئلہ پر عملی تعبیر و تشریح اور دوٹوک فیصلے کا وقت آتا ہے تو ہمارے ان دانشوروں کے موقف اور فیصلوں کی بنیاد قرآن و سنت کی تعلیمات کے بجائے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور جنیوا کے انسانی حقوق کی قراردادیں ہوتی ہیں۔ جبکہ یہ بات واضح طور پر طے ہے کہ متعدد انسانی حقوق کے تعین اور تشریح و تعبیر میں اقوام متحدہ کا منشور اور جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر

  • اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کی اب سے صرف ایک ماہ قبل کثرتِ رائے سے منظور ہونے والی اس قرارداد پر نظر ڈال لیجئے جس میں انسانی حقوق کمیشن نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مرد اور عورت کی باہمی رضامندی سے جنسی تعلق کو سنگین جرائم کی فہرست سے خارج کر دیں۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ رضامندی سے قائم کیا گیا ایسا تعلق اقوام متحدہ کے اس ادارے کے نزدیک کوئی سنگین جرم نہیں ہے۔ حالانکہ باقاعدہ نکاح کے بغیر جنسی تعلق خواہ رضامندی سے ہو یا جبر سے، دونوں صورتوں میں نہ صرف اسلام کے نزدیک سنگین ترین جرم ہے، بلکہ بائبل بھی اسے سنگین جرائم میں شمار کرتی ہے، اور دونوں نے اس کے لیے کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزا مقرر کی ہے۔
  • اسی طرح چند روز قبل امریکہ کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کے جواز کو ایک بار پھر توثیق کی سند فراہم کر دی ہے اور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے کہ اگر کوئی مرد دوسرے مرد سے تعلق کو باقاعدہ نکاح اور شادی کا درجہ دینا چاہتا ہے، یا کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ تعلق کو شادی اور نکاح قرار دیتی ہے، تو ان کے اس تعلق کو باقاعدہ شادی تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنا ان کے حقوق کے منافی ہو گا۔

رضامندی سے بداخلاقی اور ہم جنس پرستی کو جواز کی سند فراہم کرنے کی یہ باتیں کسی این جی او کا مطالبہ نہیں ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کمیشن آف جنیوا کی قرارداد، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے اور رولنگ کی صورت میں سامنے آئی ہیں، اور پرانی باتیں نہیں بلکہ گزشتہ ایک ماہ کے دورانیہ کی باتیں ہیں۔ اس سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کا تصور کیا ہے اور رضامندی سے بداخلاقی اور لواطت و ہم جنس پرستی کو باقاعدہ حقوق کی فہرست میں شامل کر کے ہم سے انسانی حقوق کا کون سا فریم ورک قبول کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بداخلاقی اور ہم جنس پرستی دونوں اسلامی تعلیمات کی رو سے سنگین جرم ہیں، دونوں کے لیے سنگین سزا مقرر کی گئی ہے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت کا مستحق گردانا گیا ہے۔ یہ صرف ایک بات ہم نے بطور نمونہ اور مثال پیش کی ہے، ورنہ اگر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں، اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام قاہرہ، بیجنگ اور نیویارک میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنسوں کی سفارشات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ایسے بیسیوں تضادات سامنے آئیں گے جو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اقوام متحدہ کے ان اداروں کے فیصلوں میں پائے جاتے ہیں۔

ہم ایک عرصہ سے ملک کے دینی اور علمی حلقوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اس نقطۂ نظر سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور، اس کے ذیلی اداروں اور کانفرنسوں کی سفارشات کا مطالعہ کریں اور اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کے تضادات کی نشاندہی کریں، کیونکہ ہمارے ساتھ مسلسل یہ دھاندلی ہو رہی ہے کہ ہمارے حکمران اور بہت سے دانشور انسانی حقوق کے بارے میں حوالہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا دیتے ہیں اور سائن بورڈ اسلامی تعلیمات کے آویزاں کرتے ہیں، لیکن جب عملی طور پر کوئی بات طے کرنے کا موقع آتا ہے تو خاموشی کے ساتھ اقوام متحدہ کے فریم ورک کو سامنے کر دیتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اب بھی یہی ہونے جا رہا ہے، قومی کمیشن قائم ہو گا، اس کے افتتاحی اجلاس سے ملک کی مقتدر ترین شخصیت خطاب کرے گی، جس میں قرآن کریم کی بہت سی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات کا بڑی عقیدت کے ماحول میں ذکر کیا جائے گا، مگر جب کمیشن کام شروع کرے گا تو اس کے ہاتھ میں اقوام متحدہ کا منشور اور جنیوا کنونشن کی سفارشات تھما دی جائیں گی، اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں، اسلام کی مالا جپنے والوں کے ہاتھوں، اسلام کے نام پر مغربی فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کا ایک مورچہ سر کر لیا جائے گا۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ عوام کے سیاسی حقوق پیہم پامال ہو رہے ہیں، شہری آزادیوں کی صورتحال تسلی بخش نہیں، جمہوریت کی گردن ابھی تک وردی کے پٹے سے آزاد نہیں ہو سکی، عام لوگوں کو جان و مال، آبرو اور روزگار کا تحفظ حاصل نہیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر سیاسی عمل پر شبخون مارنے کی روایت نے تسلسل اختیار کر لیا ہے، محنت کشوں، مزدوروں اور عام ملازمین کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنا عام آدمی کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ عورتیں قبائلی اور خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، لاکھوں بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں اور کھلونوں کی بجائے محنت مزدوری کے آلات ہیں، اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت نہیں ہے۔ یہ سب انسانی حقوق کے مسائل ہیں جن کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ہمیں ان میں سے کسی پہلو کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، اگر کوئی قومی کمیشن واقعتاً آزادانہ اور خودمختارانہ ماحول میں قائم ہوتا ہے اور انسانی حقوق کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے، اسباب کا تعین کرتا ہے، عوامل کا سراغ لگاتا ہے، اور اصلاح کے لیے قابلِ عمل سفارشات کرتا ہے تو ہمیں اس سے خوشی ہو گی، ہم اس کا خیرمقدم کریں گے اور اس سے تعاون کو اپنے لیے باعثِ اجر و ثواب سمجھیں گے۔ لیکن اس کمیشن کو پہلے انسانی حقوق کی فکری بنیاد اور تہذیبی فریم ورک کا تعین کرنا ہو گا، اور یہ واضح کرنا ہو گا کہ اس کا فکری اور تہذیبی قبلہ نیویارک اور جنیوا نہیں بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے۔ اور اس کے فیصلوں کی اساس اقوام متحدہ کا منشور اور جنیوا کنونشن کی قراردادیں نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ہدایات ہیں۔ اس کے بغیر یہ کمیشن ملک کے دینی حلقوں اور قرآن و سنت پر بے لچک ایمان رکھنے والے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے گا، اور نہ ہی اس کی سفارشات قابلِ قبول ہوں گی۔

باقی رہی بات حدود آرڈیننس اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کے غلط استعمال کی، تو اس کے بارے میں اس کالم میں پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ کسی قانون کے غلط استعمال کی ذمہ داری قانون پر نہیں بلکہ معاشرے کے عمومی رویے پر ہوتی ہے۔ اور ایسا صرف ان دو قوانین کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ ملک میں رائج دیگر بہت سے قوانین بھی غلط استعمال کی اس عمومی روش کا شکار ہیں۔ صرف اس بنیاد پر ان دو قوانین کی مخالفت کرنے والے قانون دانوں اور دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ سنگین سزاؤں والے دوسرے قوانین کے استعمال کی صورتحال کا بھی جائزہ لے لیں، اور سارا غصہ توہینِ رسالتؐ کے قانون اور حدود آرڈیننس پر نکالنے کے بجائے غلط استعمال ہونے والے دیگر قوانین کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں۔ اگر وہ اپنے اس استدلال پر مطمئن ہیں کہ کسی قانون کا کثرت کے ساتھ غلط استعمال ہونا اس قانون کو ختم کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے، تو پھر اس کلہاڑے کی زد میں آنے والے دیگر قوانین کو رعایت دینے کی وجہ بیان فرما دیں۔ کیونکہ یہ کسی طرح بھی انصاف کی بات نہیں ہے کہ غلط استعمال ہونے والے دیگر بہت سے قوانین تو اس کلہاڑے کی ضرب سے محفوظ رہیں اور توہینِ رسالتؐ کا قانون اور حدود آرڈیننس صرف اس لیے اس کی زد میں آ جائیں کہ اس سے مغربی آقاؤں کے ریکارڈ میں ہمارے کچھ نمبر بڑھ جائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter