گریڈ ۸ کے ۲۰۱۴ء کے امتحانات میں ’’اردو‘‘ کا پرچہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جس کے ایک سوال کی طرف ہم حکومت اور قارئین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ سوال ملاحظہ فرمائیے:
مندرجہ ذیل اشعار کو غور سے پڑھیں اور سوالات نمبر ۳۵ ، ۳۶، ۳۷، ۳۸، ۳۹ اور ۴۰ کے درست جوابات منتخب کریں۔
ایک دن حضرت عمر فاروق ؓ نے منبر پر کہا
میں تمہیں حکم جو کچھ دوں تو کرو گے منظور؟
ایک نے اٹھ کے کہا یہ کہ نہ مانیں گے کبھی
کہ تیرے عدل میں ہم کو نظر آتا ہے فتور
چادریں مالِ غنیمت میں جو اب کے آئیں
صحن مسجد میں وہ تقسیم ہوئیں سب کے حضور
ان میں ہر ایک کے حصے میں فقط ایک آئی
تھا تمہارا بھی وہی حق کہ یہی ہے دستور
اپنے حصے سے زیادہ جو لیا تو نے اب
تو خلافت کے نہ قابل نہ ہم ہیں مامور(۳۵) پہلے مصرعے میں ’’منبر ‘‘کا مطلب ہے:
- خطبہ دینے کی جگہ
- لوگوں کو دیکھنے کی جگہ
- سونے کی جگہ
- بات منوانے کی جگہ
(۳۶) ’’میں تمہیں حکم جو کچھ دوں تو کرو گے منظور’’ مصرع میں کن لوگوں کو حکم دینے کا کہا گیا ہے؟
- یہودیوں کو
- مسلمانوں کو
- عیسائیوں کو
- مجوسیوں کو
(۳۷) دیے گئے اشعار میں کس خلیفہ کے عدل میں ’’خرابی‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے؟
- حضرت ابوبکر صدیقؓ
- حضرت عمر فاروقؓ
- حضرت عثمان غنیؓ
- حضرت علی مرتضیٰؓ
(۳۸) ’’چادریں مال غنیمت میں جو اب کے آئیں مصرع میں ’’مالِ غنیمت ‘‘ سے مراد ہے:
- لوٹا ہوا مال
- خریدا ہوا مال
- فتح میں حاصل کیا ہوا مال
- شکست حاصل ہونے کے بعد بچا ہوا مال
(۳۹) ’’تھا تمہارا بھی وہی حق کہ یہی ہے دستور‘‘ مصرع میں کس کے ’’دستور‘‘ کی نشان دہی کی گئی ہے؟
- بادشاہوں کا
- رعایا
- وزیروں
- اسلامی
(۴۰) ’’اپنے حصہ سے زیادہ جو لیا تو نے اب ‘‘، ’’ تو خلافت کے نہ تو قابل ہے نہ ہم ہیں مامور‘‘۔ دیے گئے اشعار میں کس کو نا اہل قرار دیا گیا ہے؟
- امیروں
- غریبوں
- خلیفہ
- رعایا
ہم نے پورا سوال اس لیے جوں کا توں نقل کر دیا ہے تاکہ اس چابکدستی کا صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکے جس کا مظاہرہ سوال مرتب کرنے والے ممتحن نے کیا ہے۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا یہ واقعہ تاریخ اسلامی کا مشہور واقعہ ہے اور واقعہ کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس سوال پر جواب دیا کہ میں نے بھی اتنا ہی کپڑا لیا ہے جتنا دوسروں کو دیا ہے، میرا کرتا لمبا اس لیے ہے کہ میرے بیٹے کے حصے کا کپڑا بھی اس میں شامل ہے۔ چنانچہ یہ جواب سن کر سوال کرنے والے نے اسی مجلس میں اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ مثال کے طور پر یہ واقعہ ہمیشہ حضرت عمرؓ کے عدل و انصاف کے اظہار کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس ممتحن نے ادھورا واقعہ لکھ کر اسے جس طرح سوال کی شکل دی ہے اور اس میں سے ’’عدل کی خرابی‘‘ اور ’’نا اہلی‘‘ کا طعنہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی افسوسناک طریق کار ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی صاحب مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی معرکۃ آلارا نظم ’’شکوہ، جواب شکوہ‘‘ میں سے صرف شکوہ کو نقل کر کے اس پر اظہارِ خیال کریں اور اس بنیاد پر علامہ اقبالؒ کے بارے میں اس قسم کے ریمارکس دینا شروع کر دیں جیسے ریمارکس یہ سوال مرتب کر نے والے ممتحن نے سید نا حضرت عمرؓ کے بارے میں قائم کرنے کی افسوسناک حرکت کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پرچہ مرتب کرنے والا ممتحن یا تو بالکل جاہل مطلق ہے جسے پورے واقعہ کا سرے سے علم نہیں ہے، یا انتہائی درجے کا بد دیانت شخص ہے جس نے جان بوجھ کر ادھورا واقعہ نقل کر کے اسے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ جیسی بلند و بالا شخصیت پر طعنہ زنی کا بہانہ بنایا ہے۔
پھر فنی لحاظ سے بھی یہ سوال انتہائی احمقانہ ہے کہ اشعار میں حضرت عمرؓ کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے مگر اس پر یہ ضمنی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ یہ کس خلیفہ کے بارے میں ہے؟ جبکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اردو کے جس نصاب میں سے یہ امتحانی سوالات مرتب کیے گئے ہیں اس میں سرے سے یہ واقعہ مذکور ہی نہیں ہے۔
ہم اس افسوسناک حرکت کی طرف حکومت پنجاب کو توجہ دلاتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی انکوائری کرائی جائے اور ملت اسلامیہ کی محبوب ترین شخصیت سیدنا حضرت عمر فاروق ؓکے بارے میں اس قسم کے احمقانہ سوالات امتحانی پرچے میں شامل کر نے والے ممتحن اور اس کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف کاروائی کی جائے۔