ان دنوں ملک و قوم کے نظام اور معاشرتی صورتحال میں بہتری لانے کے دعوے ہر طرف سے کیے جا رہے ہیں، اور حکومت و اپوزیشن کے سب لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے موجودہ حالات کو بدلنا اور عوام کو ایک بہتر نظام اور سوسائٹی سے روشناس کرانا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ایک دوسرے پر کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کے سنگین الزامات بھی مسلسل دہرائے جا رہے ہیں اور ایک عجیب سی صورتحال ملک میں پیدا ہو گئی ہے جس سے عام شہری پریشان ہیں اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ قومی راہنماؤں میں کس کا رخ کدھر کو ہے؟ ان حالات میں عالم اسلام کے ایک مثالی حکمران حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی حیات مبارکہ کی چند جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ یہ واضح ہو کہ ملک و قوم کو بہتری کی طرف لے جانے اور حالات میں مثبت تبدیلی لانے کا صحیح طریق کار کیا ہے اور حالات کو سدھارنے کے لیے کس قسم کی قیادت قوم کو درکار ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خاندان بنو اُمیہ کے نامور چشم و چراغ اور خلفائے اسلام میں مثالی کردار کے حامل حکمران شمار ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق تابعینؒ کے طبقہ سے ہے جو صحابہ کرامؓ کے بعد امت کا سب سے بہترین طبقہ ہے۔ وہ اپنے دور کے ممتاز عالم دین، محدث اور صالح بزرگ تھے۔ ان کے والد عبد العزیزؒ کئی سال تک مصر کے گورنر رہے اور عمر بن عبد العزیزؒ خود بھی خلیفہ بننے سے پہلے حجاز کے والی رہے۔ وہ خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروانؒ کے بھتیجے اور داماد تھے اور شاہی خاندان کے ممتاز ترین افراد میں سے تھے۔ انہیں نامور اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک ؒ نے اپنا جانشین نامزد کیا اور وہ ان کی وفات کے بعد صفر ۹۹ھ میں منصب خلافت پر متمکن ہوئے۔ ان کا پایۂ تخت دمشق تھا اور وہ اپنے دور میں پوری دنیائے اسلام کے واحد حکمران تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جب شاہی خاندان نے خلیفہ سلیمان بن عبد المالکؒ کی وفات کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دمشق کی جامع مسجد میں عوام سے خطاب کیا اور کہا کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کا حق ہے اور وہ خود کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے اس لیے عوام کو ان کا حق اختیار و انتخاب واپس کرتے ہیں کہ وہ ان کی بجائے جس شخص کو چاہیں اپنا حکمران منتخب کر لیں، مگر عوام نے بیک آواز انہی کے حق میں فیصلہ دیا اور کہا کہ ان کے بغیر اور کوئی خلیفہ انہیں قبول نہیں ہو گا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خلافت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ بیت المال (قومی خزانہ) کا بیشتر حصہ شاہی خاندان اور اس کے منظورِ نظر اَفراد کی تحویل میں تھا اور قومی معیشت بدحالی کا شکار تھی۔ انہیں بیت المال کی دولت اور اثاثے ناجائز طور پر قابض افراد سے واپس لینا تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ترجیحات میں سب سے پہلا نمبر اسی کو دیا اور خلافت سنبھالتے ہی اس مشن کا آغاز کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جو عملی طریق کار اختیار کیا اسے تین دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان تینوں پر انہوں نے بیک وقت عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔
- سب سے پہلے انہوں نے ذاتی زندگی کو یکسر تبدیل کیا اور شہزادگی کے دور میں وہ سہولت اور تعیش کے جن معاملات کے عادی ہو گئے تھے، انہیں ترک کر دیا۔ ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اپنے دور کے انتہائی خوش پوش افراد میں سے تھے، عمدہ ترین لباس پہنتے اور کوئی لباس ایک بار سے زائد ان کے جسم سے نہ لگ پاتا، حتیٰ کہ ایک دور میں جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، ان کا ذاتی سامان تیس اونٹوں پر لاد کر دمشق سے مدینہ منورہ جایا کرتا تھا، اور ان کے علم و تقویٰ کے باوجود ان کے معاصرین ان کی اس ذاتی نفاست پسندی اور خوش پوشی پر تنقید کیا کرتے تھے۔ مگر خلافت سنبھالتے ہی ان کا مزاج تبدیل ہو گیا، خلافت کی عمومی بیعت کے بعد جامع مسجد سے نکلتے ہوئے انہیں شاہی گھوڑوں کا دستہ سواری کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میری سواری کے لیے خچر کافی ہے۔ انہوں نے اس معاملہ میں اپنی ذات اور اہل خاندان پر اتنی سختی کی کہ ان کے نانا محترم حضرت عمر بن الخطابؓ کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی اور اسی لیے انہیں ’’عمر ثانی‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
- دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ وصولیوں کا سارا وزن انہوں نے بڑے لوگوں پر ڈالا اور اس کا آغاز خود اپنی ذات سے کیا۔ ان کے پاس فدک کا باغ چلا آتا تھا جو بیت المال کی ملکیت تھا، وہ انہوں نے سب سے پہلے بیت المال کو واپس کیا۔ ان کی بیوی فاطمہ بنت عبد الملک کے پاس ایک قیمتی ہار تھا جو انہیں ان کے والد محترم خلیفہ عبد المالک بن مروانؒ نے شادی کے موقع پر دیا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اسے بیت المال کی ملکیت قرار دے کر واپس کر دیا۔ اس کے بعد خاندان خلافت کا اجلاس طلب کیا اور ان سے کہا کہ بعض سابق خلفاء کی طرف سے انہیں جو جاگیریں اور عطیات دیے گئے تھے وہ بیت المال کی ملکیت تھے جن پر ان کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے وہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر خاندان کے سرکردہ حضرات نے احتجاج کیا اور سب سے زیادہ ہشام بن عبد الملکؒ نے اس پر زور دیا کہ انہیں ماضی کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، وہ اپنے دور خلافت کے مسائل نمٹائیں اور سابقہ خلفاء کے فیصلوں کو نہ چھیڑیں۔ اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے دو باتیں فرمائیں:
(۱) ایک یہ کہ ہشام بن عبد الملکؒ سے پوچھا کہ اگر ان کے پاس دو دستاویزات ہوں، ایک ان کے والد محترم عبد الملک بن مروانؒ کی طرف سے ہو اور دوسری خلافت بنو اُمیہ کے بانی حضرت معاویہؓ کی طرف سے ہو تو وہ کس کو ترجیح دیں گے؟ ہشام نے جواب دیا کہ وہ حضرت معاویہؓ کی دستاویز کو ترجیح دیں گے اس لیے کہ وہ پہلے کی ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا کہ ان کے پاس اس سے بھی پہلے کی دستاویز موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس لیے وہ اس پر عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔
(۲) دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کی اولاد میں سے ایک یا دو طاقتور افراد ساری جائیداد پر قبضہ کر کے باقی ورثاء کو محروم کر دیں، پھر بعد میں کسی وقت آپ کو یہ اختیار حاصل ہو جائے کہ آپ ان کے درمیان انصاف کر سکتے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ ہشام نے جواب دیا کہ میں قبضہ کرنے والوں سے جائیداد واپس لے کر سب ورثاء میں اصول کے مطابق تقسیم کر دوں گا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا کہ میں بھی یہی کچھ کرنے لگا ہوں۔ چنانچہ خلافت کے خاندان کو ان کے بے لچک رویہ کے سامنے سپر انداز ہونا پڑا اور بیت المال کی ساری دولت اور اثاثے دو ہفتے کے اندر قومی خزانے میں واپس آگئے۔
- تیسرا معاملہ حضرت عبد العزیزؒ نے یہ کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک اختیار کیا اور سابقہ حکمرانوں کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے سخت اقدامات انہوں نے واپس لے لیے۔ متعدد ٹیکس منسوخ کر دیے، عوام سے ٹیکسوں کی وصولی کا طریق کار آسان کر دیا، بالخصوص غیر مسلموں پر کی جانے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا اور انہیں بہت سی سہولتیں فراہم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنے حصہ کے واجبات خوشی سے ادا کرنے لگے اور بیت المال کی معاشی حالت مستحکم تر ہوتی چلی گئی۔ اس سلسلہ میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے خود ایک بار فرمایا کہ عراق کے صوبہ میں لوگوں سے ٹیکسوں کی وصولی میں حجاج بن یوسف کے دور میں بہت سختی ہوتی تھی اور متعدد ناجائز ٹیکس بھی لگائے گئے تھے اس کے باوجود عراق سے مرکز کو وصول ہونے والی رقم کبھی دو کروڑ اسی لاکھ درہم سے زیادہ نہیں بڑھی۔ مگر میں نے وصولی کا نظام آسان کر دیا ہے اور بہت سے ٹیکس ختم کر دیے ہیں جس کی برکت سے میرے دور میں عراق سے مرکز کو وصول ہونے والی رقم سالانہ بارہ کروڑ درہم تک پہنچ گئی ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے صرف اڑھائی سال حکومت کی مگر ان کے اقدامات اور طریق کار کی برکت سے اتنے مختصر عرصہ میں نہ صرف بیت المال مستحکم ہوا، اس کے اثاثے واپس ملنے کے ساتھ ساتھ اس کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہوا بلکہ عام لوگوں تک خوشحالی کے اثرات پہنچے۔ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ اس دور میں زکوٰۃ ادا کرنے والے اپنی زکوٰۃ کی رقوم لے کر بازاروں میں گھومتے اور آوازیں دیتے تھے کہ کوئی مستحق ہو تو ان سے زکوٰۃ وصول کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوں مگر سوسائٹی میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ملتا تھا۔