اس ہفتے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سہ ماہی امتحانات کی وجہ سے چھٹیاں تھیں۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو تین جگہ کے سفر کا پروگرام بنا لیا۔ ۱۴ اپریل کو سیالکوٹ میں جامعہ فاروقیہ کی نئی عمارت کا افتتاح تھا جس میں سلسلہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی بھی تشریف لائے اور مجھے بھی حاضری کا موقع ملا۔ یہ درسگاہ حضرت امام علی الحق شہیدؒ کے مزار کے قریب ایک مسجد میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل حضرت مولانا محمد اسماعیل قاسمیؒ نے کم و بیش نصف صدی قبل قائم کی تھی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند مولانا محمد انذر قاسمی شہیدؒ نے اسے ترقی دی اور ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حافظ احمد مصدق قاسمی اس کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس مدرسہ میں درس نظامی اور حفظ قرآن کریم کے شعبوں میں سینکڑوں طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اب پسرور روڈ پر ایک وسیع اور خوبصورت بلڈنگ مسجد و مدرسہ کی صورت میں تعمیر کر کے بعض تعلیمی شعبے وہاں منتقل کیے جا رہے ہیں۔
اس سفر میں سیالکوٹ جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر ویگن میں یہ چہ میگوئیاں کان میں پڑنے لگی تھیں کہ ۱۷ اپریل کو گوجرانوالہ میں ہونے والے صدر پرویز مشرف کے جلسہ کے لیے گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے مجھے اگلے روز کی فکر پریشان کرنے لگی کیونکہ میں نے ایک دو روز کیلئے اسلام آباد جانے کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ اس خدشہ کے پیش نظر ۱۵ اپریل کو صبح نماز پڑھتے ہی جنرل بس سٹینڈ کی طرف روانہ ہو گیا کہ صبح صبح شاید کوئی سواری مل جائے۔ اڈے پر پہنچا تو فضا سہمی سہمی سی محسوس ہو رہی تھی اور اکا دکا ویگنیں بھی اپنے اپنے سٹینڈ پر کھڑی تھیں۔ راولپنڈی کی ویگن پر سوار ہوا تو اچانک دیکھا کہ کچھ باوردی محافظ ویگن ڈرائیوروں سے الجھ رہے ہیں اور خاصی گرما گرمی کی کیفیت ہے۔ پتہ چلا کہ ایک ویگن چپکے سے وہاں سے خالی کھسک گئی ہے جس پر باوردی محافظ سیخ پا ہے۔ وہ چیختے ہوئے ڈرائیوروں سے پوچھ رہا تھا کہ اس کی اجازت کے بغیر یہ ویگن وہاں سے کیوں گئی جبکہ اس نے ڈرائیوروں کو وہاں سے جانے سے منع کر رکھا تھا؟ جبکہ کچھ ڈرائیور اسے سمجھا بجھا کر اور منت سماجت کر کے ٹھنڈا کرنے میں مصروف تھے۔ اتنے میں وہ ہماری ویگن کے آگے آکھڑا ہوا اور کہا کہ یہ ویگن اب روانہ نہیں ہو گی۔ ہمیں خطرہ لاحق ہو گیا کہ ہم شاید سفر نہیں کر پائیں گے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اتر کر میں بھی اس سے بات کروں، مگر اتنے میں کچھ باوردی حضرات اور آ گئے، جن کے ساتھ ڈرائیوروں کے مذاکرات ہوئے اور ہماری گاڑی کا راستہ صاف ہو گیا۔
ہم ویگن پر گوجرانوالہ سے روانہ ہوئے تو ڈرائیور نے سواریوں سے دو باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ یہ شاید آخری ویگن ہے جو راولپنڈی جا رہی ہے اس کے بعد غالباً وہ کسی اور گاڑی کو نہیں جانے دیں گے اور دوسری بات یہ کہی کہ اگر راستہ میں گاڑی روک کر ان سے پوچھا جائے تو سواریاں خود کو عام سواریاں شو نہ کریں، بلکہ یہ کہیں کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور پرائیویٹ گاڑی کر کے راولپنڈی جا رہے ہیں، ورنہ راستہ میں سواریوں کو اتار کر ویگن قبضے میں کی جا سکتی ہے۔
ڈرائیور ہمیں یہ ہدایات دے رہا تھا اور میرے ذہن میں صدر پرویز مشرف کی تقریروں کے وہ اقتباسات گھوم رہے تھے جن میں وہ پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کرنے، صاف ستھری حکومت مہیا کرنے اور عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ حقوق اور سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے فرما رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے گوجرانوالہ ڈویژن کی حدود کو پار کیا تو ڈرائیور کے ساتھ سواریوں نے بھی اطمینان کا سانس لیا کہ ”پکڑے جانے“ سے بچ گئے ہیں۔
مجھے ویگن کے پکڑے جانے اور اتار دیے جانے سے زیادہ ایک اور بات پریشان کر رہی تھی کہ یہ صورت حال دیکھ کر میرے اندر کا پرانا سیاسی کارکن نیند سے بیدار ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ خدانخواستہ پکڑے جانے کی صورت میں وہ بھی بیدار ہو گیا تو معاملہ کہیں بگڑ ہی نہ جائے، مگر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی کہ میں اپنے پروگرام کے مطابق اسلام آباد پہنچ گیا اور یہ سطور اسلام آباد میں بیٹھ کر تحریر کر رہا ہوں۔
اسلام آباد میں ایک دوست کے ہاں شام کے کھانے پر کچھ احباب سے ملاقات ہوئی جن میں ایک دوست نے، جو پاک سیکرٹیریٹ میں اہم عہدے پر کام کرتے ہیں، توجہ دلائی کہ ریفرنڈم سے زیادہ اس کے بعد تیزی سے آگے بڑھائے جانے والے ایجنڈے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہوم ورک مکمل ہو چکا ہے، ہدایات آ چکی ہیں اور گرین سگنل مل چکا ہے، اس لیے علمائے کرام اور دینی حلقوں کو اس کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ سنگین مرحلہ ’’تعلیمی نصاب و نظام‘‘ کا ہوگا جسے بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے عنوان سے ازسرنو مرتب کیا جا رہا ہے چنانچہ ملک کے سرکاری تعلیمی نصاب سے ہر سطح پر ایمان و عقیدہ، جہاد اور اسلام کے عالمی کردار سے متعلقہ تمام تر مواد خارج کر دینے کا پروگرام بن چکا ہے اور ملک کے تعلیمی نظام کی سیکولرائزیشن کا منصوبہ ہوم ورک کی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔
یہ باتیں رات کے کھانے پر ہوئیں مگر اسی رات کے اختتام پر ہم ناشتے کے دستر خوان پر تھے کہ اخبارات آ گئے اور ایک اخبار میں این این آئی کے حوالے سے ضلع کونسل پشاور کی یہ قرارداد نظر سے گزری جس کے ذریعے ایک خاتون کونسلر نے سرحد حکومت سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ صوبہ کے تعلیمی اداروں میں سکولوں کی سطح پر تھیالوجی اور قاری صاحبان کی سیٹیں ختم کر کے ان کی جگہ بیوٹیشن اور میوزیشن کی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں تاکہ نئی نسل کو آرائش اور میوزک کی باقاعدہ تعلیم دی جا سکے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق محکمہ تعلیم کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور اسکولوں میں قاری اور تھیالوجی کی پوسٹیں ختم کر کے اس کی جگہ بیوٹیشن اور میوزیشن کی آسامیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری بچیوں کو میڈونا اور ماریا کیری بنایا جائے گا؟ نہیں، ہم بحیثیت مسلمان اس کی قطعی اجازت نہیں دے سکتے، اس لیے حکومت اس کی وضاحت کرے اور اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے تو وہ واپس لیا جائے۔ قرارداد میں خاتون کونسلر نے تقاضا کیا ہے کہ اگر حکومت نے فنون لطیفہ کو ترقی دینی ہے اور صوبائی وزیر کو اس کا بہت زیادہ شوق ہے تو وہ علیحدہ ادارے بنائے اور سرکاری اسکولوں میں مفت کمپیوٹرائزڈ، معاشرتی انصاف اور خواتین کے حقوق کا نصاب متعارف کرائے۔
قرارداد کے ساتھ ضلع کونسل پشاور کی اس خاتون کونسلر کا نام مذکور نہیں ہے، لیکن جس خاتون نے بھی یہ قرارداد پیش کی ہے، ہم اس کے شکر گزار ہیں کہ اس باغیرت خاتون نے ایک خطرناک رجحان اور فتنہ کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ قوم کو اس سے بروقت خبردار کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے اور صوبہ سرحد کے غیور مسلمانوں کے علاوہ ملک بھر کی دین دار اور غیرت مند خواتین کے جذبات کی بھی ترجمانی کی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف ملک بھر میں ریفرنڈم کی حمایت میں جلسے کر رہے ہیں جن سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ خود اعلان فرما چکے ہیں کہ ریفرنڈم کا اعلان انہوں نے جیتنے کے لیے کیا ہے، اس لیے وہ جیت جائیں گے بلکہ جیت ہی چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس کے بعد شروع ہونے والا ہے جب وہ ریفرنڈم کے نام پر اپنی صدارت کو پانچ سال کے لیے طے شدہ قرار دے کر ان فائلوں کا فیتہ کھولیں گے جو ان کی میز پر ان کے ’’ایکشن‘‘ کے انتظار میں پڑی ہیں اور جن کے لیے امریکی حکومت کے ترجمان نے یہ کہہ کر ’’این او سی‘‘ بھی جاری کر دیا ہے کہ ’’ریفرنڈم کے بارے میں فیصلہ کرنا پاکستان کی عدالتوں کا کام ہے‘‘۔ اور اس طرح سودی قوانین کے خاتمہ، توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلوں پر ناک بھوں چڑھانے والے امریکہ نے ریفرنڈم کے بارے میں پاکستانی عدالتوں کو فائنل اتھارٹی تسلیم کر کے دراصل اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کلیئرنس دے دی ہے، جس کا دینی حلقوں کو بروقت ادراک کرنا چاہیے اور اس ایجنڈے کا ”ڈے ٹو ڈے“ سامنا کرنے کے لیے لنگر لنگوٹ کس لینا چاہیے۔