جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل محمد عزیز خان نے گزشتہ دنوں راولاکوٹ کی ایک تقریب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ قوم کے ہر باشعور شہری کے دل کی آواز ہے اور ہمیں ان باتوں پر اس لیے بھی زیادہ خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ کافی عرصہ کے بعد ’’ادھر سے‘‘ ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آیا ہے جس سے تپش اور لو کے اس موسم میں وقتی طور پر ہی سہی، مگر کچھ سکون سا محسوس ہوا ہے۔ جنرل صاحب نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے یہ کہہ کر قوم کو گزشتہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہندو مسلم کشمکش کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جانے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آجائیں گے، وہ غلطی پر ہیں اس لیے کہ بھارت کا تنازع ہمارے ساتھ صرف کشمیر کے مسئلہ پر نہیں بلکہ اس کے ایجنڈے کا بنیادی ہدف جنوبی ایشیا پر اپنی بالادستی، یا جنرل صاحب موصوف کے بقول، تھانیداری قائم کرنا ہے اور وہ پاکستان کو اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتا ہے۔
دراصل عالمی قوتوں اور فری ورلڈ ٹریڈ کے نام پر دنیا کی معیشت کو اپنے قبضے میں لینے کی خواہش مند طاقتوں کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی کو کسی نہ کسی طرح کم کیا جائے تاکہ انہیں آزاد منڈیاں فراہم ہوں اور وہ کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی مصنوعات کو کھلی مارکیٹ میں لا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی مغربی نظام اور فلسفہ و تہذیب کی راہ میں پاکستان کو ایک نظریاتی اور تہذیبی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے عالمی استعمار اس کی موجودہ پوزیشن کے برقرار رہنے پر راضی نہیں ہے، اس لیے اس کے سوا اسے کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ پاکستان اور بھارت کی صلح ہو اور انہیں یورپی یونین طرز کی کسی نیم سیاسی یا تجارتی وحدت میں یکجا کر دیا جائے، جس کے بعد پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے دستبردار کرانا آسان ہو جائے گا، اس کی فوج کے سائز کو بھی کم کیا جا سکے گا، اور اس طرح پاکستان ایک اسلامی ملک اور عالم اسلام کی نظریاتی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ریاست کی بجائے بھارت کے زیر اثر ایک ملک کا درجہ اختیار کر لے گا۔ لیکن ان منصوبہ سازوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کم از کم ایک ہزار سالہ مسلم ہندو کشمکش کے تاریخی پس منظر میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ نہ تو ہندو ذہنیت اپنے پڑوس کے مسلمانوں کو اس حالت میں قبول کر سکتی ہے کہ وہ ایک برابر کی قوت اور قوم کے طور پر رہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے یہ صورتحال قابل قبول ہوگی کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ ان کی بالادستی کے تاثر کے ساتھ زندگی گزاریں۔
آپ حالات کا جو بھی تجزیہ کر لیں اور دنیا کے حالات میں تبدیلیوں اور نئے عالمی رحجانات کا جس قدر ڈھنڈورا پیٹ لیں، مگر اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جنوبی ایشیا میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کی حریف قومیں ہیں جن کے درمیان دشمنی اور کشمکش کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ طویل پس منظر رکھتی ہے اور جن کے درمیان آج بھی ایک دوسرے پر بالادستی کے نہ صرف جذبات موجود ہیں بلکہ اس کے لیے دونوں طرف سے تیاریاں بھی جاری ہیں۔ مغربی اقوام اگر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی ایسی مصالحت کرا سکتی ہیں جس سے یہ دونوں قومیں باہم شیروشکر ہو کر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن یا جی ایٹ کی چراگاہ بن جائیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اور انہیں اس حوالہ سے اپنے تجزیوں اور اندازوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں نہیں ہیں، مسئلہ کشمیر تو ایک زندہ تنازع ہے جس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالنا ہوگا اور یہ نہ صرف مغربی اقوام بلکہ آزادی اور انسانیت کا نام لینے والی دنیا بھر کی تمام اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دلانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں، اور پاکستان جو کشمیریوں کے جائز اور مسلمہ حق کے لیے کشمیری عوام کا ساتھ دے رہا ہے، اسے کشمیریوں کے ساتھ تعاون سے دستبردار کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بجائے اس کے موقف پر سنجیدگی سے غور کریں۔ مسئلہ کشمیر کا جو حل بھی کشمیری عوام کی خواہشات اور ان کے مسلمہ حقوق کے مطابق ہوگا، اس کا خیر مقدم کیا جائے گا، لیکن مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل جس میں کشمیری عوام کی وحدت، آزادی اور ان کے شہری حقوق کو عالمی استعمار کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیری عوام کے حقوق اور قربانیوں کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کا کوئی حل ان پر مسلط کر دیں تو اس سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مزید الجھ جائے گا اور یقینا ایک نئی کشمکش کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل مسلط کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کو مصالحت کے بہانے کسی سیاسی یا تجارتی وحدت کے دائرے میں اکٹھا کر کے اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے ایک ہزار سالہ مسلم ہندو کشمکش کا خاتمہ ہو جائے گا تو یہ خام خیالی کی بات ہوگی۔ اس کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مغل بادشاہت کے دور میں کوئی مسئلہ کشمیر موجود نہیں تھا، لیکن جنوبی ہند کے جنونی ہندوؤں نے دہلی کے مسلم اقتدار کے خاتمہ کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ مرہٹوں کی یلغار کا راستہ روکنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو قندھار سے آنا پڑا تھا اور پانی پت کے میدان میں تلوار کے زور پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا بھی اس میں برابر کا حق ہے اور وہ بھی اس خطہ میں آزادی اور خودمختاری کے ساتھ زندہ رہنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
آج بھی جنوبی ہند میں ’’ہندو احیائیت‘‘ کی تحریک پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’’مرہٹہ ازم‘‘ ایک بار پھر منظم شکل میں سامنے آ رہا ہے اور تین سو سال قبل کی طرح آج بھی اس کا ایجنڈا یہی ہے کہ مسلمان اس خطہ میں یا ان کے تابع اور برخوردار بن کر رہیں اور یا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ ’ہندو احیائیت کے اس ایجنڈے اور یلغار کا سامنا سر جھکا کر اور دنیا کی بڑی قوتوں سے امن کی بھیک مانگ کر نہیں ہوگا بلکہ ماضی کی طرح آج بھی اس کا حل شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر میں ہے، احمد شاہ ابدالی کی یلغار میں ہے اور پانی پت کے میدان میں ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ پانی پت کی ایک اور لڑائی کا میدان گرم ہو رہا ہے۔ اسے روکنے کے لیے ہر طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی لیکن تاریخ کے عمل کو کبھی روکا جا سکا ہے اور نہ اب روکا جا سکتا ہے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر قوموں کی تاریخ کے نقشے بنانا اور چیز ہے، تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرانے جا رہی ہے اور اس کی آندھی جب اٹھتی ہے تو اس کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ارشادات میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی بات فرمائی ہے اور اس کے فیصلہ کن مرحلہ کا اس خطہ میں اسلام کی بالادستی اور مسلمانوں کے غلبہ کی صورت میں بعض ارشادات میں ذکر فرمایا ہے، تاریخ کے مسلسل عمل کا رخ اسی جانب ہے اور جلد یا بدیر وہ آخری اور فیصلہ کن معرکہ بہرحال بپا ہو کر رہنا ہے۔ اس حوالہ سے تو ہمیں کسی قسم کا کوئی تردد یا شبہ نہیں ہے، البتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کی عسکری قیادت کے بارے میں یہ شک ذہنوں میں ابھرنے لگا ہے کہ کہیں جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ ماضی اور تاریخ کے مسلسل عمل کا شعور اور ادراک ہماری عسکری قیادت کے ذہنوں سے محو تو نہیں ہو گیا؟ جنرل محمد عزیز خان نے راولاکوٹ کی تقریر میں ہمارا یہ شک دور کر دیا ہے، اس لیے ان کی حقیقت بیانی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی خدمت میں یہ عرض کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ: