گولیکی ضلع گجرات میں ’’شہدائے ختم نبوت کانفرنس‘‘

   
تاریخ : 
۲ جنوری ۲۰۱۲ء

۲۴ دسمبر کو ضلع گجرات کے گاؤں گولیکی میں ماسٹر سرفراز احمد شہید کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ ماسٹر سرفراز احمد کو دو ماہ قبل ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا تھا اور بتایا جاتا ہے کہ ان کے جسم میں چالیس سے پچاس کے درمیان گولیاں پیوست تھیں۔ گولیکی ایک پرانا گاؤں ہے جہاں کی ایک قدیمی جامع مسجد مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان وجہ تنازع بنی ہوئی ہے جس میں ماسٹر سرفراز احمد شہید کے دو چچا زاد بھائی اس سے قبل شہید ہو چکے ہیں، ایک قادیانی کا قتل بھی اس تنازعے کا حصہ ہے اور ایک مسلمان فرحان قیوم نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔

گولیکی میں کم و بیش ساڑھے تین سو سال سے چلی آنے والی یہ مسجد شروع سے مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی ہے لیکن ۱۹۲۲ء میں اس مسجد کا امام ’’امام دین‘‘ قادیانی ہوگیا اور مسجد میں قادیانیوں کا عمل دخل شروع ہوگیا۔ اسی کے خاندان سے ایک شخص اکمل قادیانی نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تعریف میں لکھے گئے اس بدنام شعر کی وجہ سے خاصی شہرت پائی جو اس کی ایک نظم کا حصہ ہے اور اس میں اس نے نعوذ باللہ کہا ہے کہ:

محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں

اس دور میں علاقے میں قادیانیوں کا زیادہ تعارف نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اور قادیانی اس مسجد میں اکٹھے عبادت کرتے رہے تا آنکہ ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو اسی مسجد میں مسلمان اور قادیانی الگ الگ نماز باجماعت پڑھنے لگے اور مسجد میں ہی علیحدہ عبادات کا نظم بنا لیا۔ ۱۹۹۲ء میں مسجد کی دوبارہ تعمیر کے موقع پر مسلمانوں اور قادیانیوں کا تنازع شدت اختیار کر گیا اور قادیانیوں نے مسلمانوں کو مسجد سے زبردستی بے دخل کر دیا جس کے خلاف مسلمان عدالت میں چلے گئے اور ۱۹۹۷ء میں علاقہ مجسٹریٹ الیاس گل نے مسجد کو سیل کر دیا جو اب تک سیل چلی آرہی ہے۔ ماسٹر سرفراز احمد شہید اس کیس میں مسلمانوں کی طرف سے مدعی تھے اس لیے نشانے پر آگئے، جبکہ ان کا دوسرا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ انہوں نے سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کو دعوت دے کر گولیکی میں ان کا خطاب کرایا۔ چنانچہ مختلف حوالوں سے ماسٹر سرفراز احمد پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ کیس سے دستبردار ہو جائیں لیکن وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور مبینہ طور پر ان پر پانچ قاتلانہ حملے وقفے وقفے سے ہوئے اور آخری حملے میں وہ شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ اس سے قبل ۱۹۹۹ء کے دوران ایک حملے میں وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ شدید زخمی ہوئے اور ان کا ایک چچازاد بھائی شہید ہوا۔ ۲۰۰۱ء میں ان کے ایک اور چچازاد بھائی کو شہید کر دیا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں ہی ایک اور تصادم کے دوران فرحان قیوم نے جام شہادت نوش کیا اور اسی سال ایک قادیانی کے قتل کے الزام میں ماسٹر سرفراز احمد گرفتار ہوئے اور انہیں عمر قید کی سزا ہوئی مگر ہائیکورٹ نے انہیں بری کر دیا۔

اس پس منظر میں ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ان شہدائے ختم نبوت کی یاد میں گولیکی میں ’’شہدائے ختم نبوت کانفرنس‘‘ انعقاد پذیر ہوئی جس کا اہتمام جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ ضلع گجرات نے کیا۔ جمعیت اہل سنت گجرات کے نوجوان علماء کرام کی تنظیم ہے جس میں دیوبندی مکتب فکر کے نوجوان فضلاء کو جوڑ کر منظم اور مربوط دینی و مسلکی جدوجہد میں شریک کیا گیا ہے۔ ہمارے ایک عزیز نوجوان مولانا محمد عمر عثمانی اس محنت میں پیش پیش ہیں جو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں اور میرے سسرالی گاؤں گلیانہ تحصیل کھاریاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ضلع گجرات کے ان نوجوان علماء کرام کی چند باتیں مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی بھی دینی اور مسلکی معاملہ ہو یہ اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور متحرک کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اپنے مسلک کے علماء کرام بالخصوص ملک بھر کے مختلف جامعات سے فارغ التحصیل ہو کر آنے والے علاقے کے نوجوان علماء کرام کو جوڑنے اور وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی حوالے سے ان کے اجتماعات منعقد کرنے کی محنت کرتے رہتے ہیں۔ اور تیسری یہ کہ ضلع کے بزرگ علماء کرام سے لاتعلق رہنے کی بجائے ان کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں، ان سے مسلسل مشاورت کرتے رہتے ہیں اور ان کی راہنمائی کو عملاً بھی قبول کرتے ہیں۔ ایک اور بات بھی ان میں اچھی پائی جاتی ہے کہ دیوبندی مکتب فکر کے مختلف داخلی حلقوں اور جامعات کے فضلاء کے درمیان اپنی جدوجہد اور روابط میں کوئی فرق نہیں رکھتے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کی قوت کار میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ تین چار باتیں ایسی ہیں کہ کسی بھی جگہ ان کو خلوص سے اپنا لیا جائے تو دیوبندی حلقوں اور جماعتوں کی کثرت کے باعث مختلف فکری اور تربیتی حلقوں کے درمیان پائے جانے والے بُعد اور خلا کو، جو اب کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگا ہے، کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

بہرحال گولیکی کی شہدائے ختم نبوت کانفرنس میں حاضری ہوئی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا کا مفصل بیان تھا اور ان کے ساتھ مجلس کے ایک اور اہم راہنما مولانا عزیز الرحمان ثانی نے بھی خطاب کیا۔ ان دونوں راہنماؤں نے گولیکی کے مسلم قادیانی تنازعہ میں مظلوم مسلمانوں اور شہدائے ختم نبوت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلایا، شہداء کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کی اور قادیانیوں کے ملک دشمن عزائم کو بے نقاب کیا۔

جبکہ راقم الحروف نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ اس گاؤں میں قادیانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے، مسئلہ کے دوسرے پہلو پر گفتگو کی اور قادیانیوں کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ اب تک کی مجموعی صورتحال کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے دنیا اور آخرت دونوں کے حوالے سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ میں نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں چار افراد نے نبوت کا دعوٰی کر کے اپنے گرد معتقدین کا ہجوم اکٹھا کر لیا تھا، ان میں سے دو قتل ہوگئے تھے اور دو نے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا تھا۔ قتل ہونے والے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی تھے جبکہ توبہ کر کے ملت اسلامیہ کے دائرے میں داخل ہونے والے طلیحہ بن خویلد اسدیؓ اور سجاح نامی خاتون تھیں۔ یہ دونوں مسلمانوں میں واپس آگئے تھے اور انہوں نے آخری زندگی ایک اچھے مسلمان کے طور پر گزاری۔ میں قادیانیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مسیلمہ اور اسود عنسی کا راستہ اپنانے کی بجائے طلیحہ اور سجاح کے نقش قدم کو اپنائیں اور غلط عقائد سے توبہ کر کے مسلمانوں کے اجتماعی دھارے میں واپس آجائیں تو وہ ہمارے مسلمان بھائی ہوں گے۔

قادیانیوں کو، خواہ ان کا تعلق قادیانی یا لاہوری کسی بھی گروہ سے ہو، میں ایک اور زاویے سے بھی غور و فکر کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جس دور میں سندھ کی ریاست خیرپور ابھی پاکستان میں ضم نہیں ہوئی تھی، نواب خیرپور کے سرکاری طبیب ہمارے ایک محترم بزرگ مولانا حکیم حیات علی چشتی تھے جن کا تعلق میرپور آزاد کشمیر سے تھا اور وہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کے فرزند مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری نے جو اَب برمنگھم برطانیہ میں رہتے ہیں، مجھے یہ واقعہ بتایا کہ حکیم صاحب کے ساتھ نواب خیرپور کے جو سرکاری طبیب بطور ڈاکٹر تھے وہ قادیانی تھے اور اس حوالے سے دونوں میں ملاقات اور گفتگو رہتی تھی۔ ایک دن حکیم صاحب نے ڈاکٹر صاحب موصوف سے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ مالیخولیا کے مریض ہیں، اور یہ بات آپ اور میں دونوں جانتے ہیں کہ مالیخولیا کا مریض خود کو خدا سے کم نہیں سمجھتا اور اس دماغی مرض کی وجہ سے اس قسم کے دعوے کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے اس مسلسل مرض کی وجہ سے اس کے دعوؤں کی بات تو کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے مگر آپ تو مالیخولیا کے مریض نہیں ہیں اور اس مرض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اس لیے آپ پر تعجب ہوتا ہے کہ آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوؤں پر کیسے یقین کر لیا ہے؟ ڈاکٹر غوری صاحب کا کہنا ہے کہ مولانا حکیم حیات علی چشتی کا یہ تیر نشانے پر لگا اور دو تین روز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حکیم صاحب سے کہا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہے چنانچہ انہوں نے قادیانیت سے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا۔ میرے خیال میں آج کے قادیانی حضرات اس زاویے سے سوچیں گے تو انہیں بھی یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter