شخصی آزادی کا مغربی تصور اور آسمانی تعلیمات

   
۲ جولائی ۲۰۰۷ء

بخاری شریف اور حدیث کی دیگر مستند کتابوں میں روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کو عام راستوں اور گزرگاہوں میں بیٹھنے اور مجلس لگانے سے منع فرما دیا۔ اس پر بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا اس کے بغیر گزارہ نہیں، کیونکہ کوئی ملنے کے لیے آئے تو بسا اوقات گھر میں بٹھانے کی جگہ نہیں ہوتی اور باہر کھلے راستے میں گفتگو کرنا پڑ جاتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ مجبوری ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (۱) نگاہیں نیچی رکھو (۲) سلام کا جواب دو (۳) راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہو مثلاً اینٹ، پتھر یا چھلکا وغیرہ تو اسے وہاں سے ہٹا دو (۴) کوئی آدمی راستہ بھول گیا ہو تو اس کی رہنمائی کرو، اور (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، یعنی نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے روک ٹوک کرتے رہو۔ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک مسلمان کی ان دینی ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے ہوئے بھی ضرورت محسوس ہونے پر اسے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق حضرت جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے وہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوئے اور آپؐ کے دست مبارک پر بیعت کی تو جناب رسالت مآبؐ نے بیعت کی شرائط میں ’’والنصح لکل مسلم‘‘ کو بھی شامل فرما دیا کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرو گے اور خیرخواہی کی سب سے زیادہ عملی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کو نقصان اور ضرر سے بچا لیا جائے اور نفع و نقصان کے حوالے سے اس کی رہنمائی کی جائے۔ یہ نفع و نقصان دنیا کا بھی اور آخرت کا نفع و نقصان بھی اس میں شامل، بلکہ وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

لیکن چونکہ مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب و ثقافت نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے، اس لیے ہمارے ذہنوں میں نفع و نقصان کا وہی تصور رسائی حاصل کر پاتا ہے جس کا تعلق دنیا کے مفادات سے ہو اور آخرت کے نفع و نقصان کا تصور ذہنوں سے رفتہ رفتہ نکلتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی دوست، پڑوسی، محلہ دار یا ملنے جلنے والے سے اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اس پہلو سے بات کرتا ہے کہ اس کی فلاں بات اس کے کاروبار کے لیے نقصان دہ ہے یا اس کے کسی اور مفاد کے لیے ضرر رساں ہے، تو اسے قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے قابل تعریف ہونے میں ہمیں بھی کوئی کلام نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست، ساتھی اور واقف کار کو آخرت کے نفع و نقصان کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا فلاں عمل قبر میں اس کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، آخرت میں اس کے لیے نقصان دہ ہو گا اور اسے جہنم میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا تو اسے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات دقیانوسیت کی علامت بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔

اسی طرح مغربی ثقافت کے زیر اثر یہ تصور بھی ہمارے ذہنوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے کہ شخصی آزادی کے تحت آپ کو کسی دوسرے شخص کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرے، اگر آپ کا کوئی مفاد اور حق اس سے مجروح نہیں ہوتا تو آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس کے ساتھ روک ٹوک کا معاملہ کریں۔ مگر اسلام شخصی آزادی کے اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتا اور ہر مسلمان کے لیے یہ بات لازم کرتا ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو کوئی ایسا عمل کرتا دیکھے جو معاشرے کے لیے ضرر رساں ہو، حتیٰ کہ اگر خود عمل کرنے والے کا بھی اس میں دنیا یا آخرت کا نقصان نظر آ رہا ہو، تو دیکھنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اسے ٹوکے، سمجھائے اور اسے اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس معاملے میں اسلام کی تعلیمات شخصی آزادی کے مغربی تصور سے قطعی طور پر مختلف ہیں، کیونکہ قرآن و سنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں کے باہمی حقوق، بلکہ فرائض میں شامل کیا گیا ہے اور بیسیوں آیات و احادیث میں اس کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم (سورۃ المائدۃ) میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جب بنی اسرائیل کو ایک بار پوری دنیا پر فضیلت دیے جانے کے بعد ان کی حرکات کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت نازل ہونے کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہوں نے برائیوں کے ارتکاب پر ایک دوسرے کو روکنے اور منع کرنے کا عمل ترک کر دیا تھا، سوسائٹی میں برائی کے اعمال کھلے بندوں ہوتے تھے، مگر باہمی روک ٹوک کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ قرآن کریم نے مذکورہ آیات میں اس طرز عمل کو کسی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ہونے کا باعث بتایا ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم لال مسجد اسلام آباد کی بعض کارروائیوں مثلاً ایک مبینہ قحبہ خانہ اور مساج پارلرز پر چھاپے مار کر کارندوں کو حراست میں لینے اور انتظامیہ پر ایسے اڈوں کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے دیکھتے ہیں تو اس پر مختلف حلقوں کا رد عمل اور تبصرے بھی یکطرفہ اور ادھورے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات تو سبھی کہہ رہے ہیں کہ لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کا اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینا اور انتظامی و عدالتی نظام کو کراس کرتے ہوئے ازخود اس نوعیت کی کارروائی کرنا درست طرز عمل نہیں ہے، دانش مندی کی بات نہیں ہے اور ملک و ملت کے لیے نقصان دہ طرز عمل ہے، لیکن اس بات پر بحث کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ بے حیائی، بدکاری اور فحاشی کے کھلم کھلا ارتکاب اور ان کے باقاعدہ اڈے قائم ہونے پر حکومتی اداروں نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، دینی و سیاسی جماعتوں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے، سماجی تنظیموں کو سوسائٹی کو تباہی کی طرف لے جانے والا یہ عمل کیوں دکھائی نہیں دے رہا اور قرآن و سنت کے احکام سے صریح بغاوت پر پوری قوم سناٹے کی کیفیت میں کیوں ہے؟

جہاں تک لال مسجد کی انتظامیہ کے طرز عمل اور طریق کار کا تعلق ہے، ہم نے اس سے کھلے بندوں اختلاف کیا ہے اور ہم پورے انشراحِ صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دینی جدوجہد کا یہ طریق کار درست نہیں ہے، بلکہ غیر دانش مندانہ اور دینی جدوجہد کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن صرف اسلام آباد نہیں، بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں قحبہ خانوں کا جو وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور مساج پارلروں کے نام پر جس طرح بدکاری اور فحاشی کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے، اس پر حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی خاموشی اس سے کہیں بڑا جرم ہے۔ کیونکہ اس وقت عملی طور پر یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ بے حیائی، فحاشی اور بدکاری کے مراکز کا جال ہر طرف پھیل رہا ہے، لیکن ان پر روک ٹوک کا کوئی سرکاری یا پرائیویٹ نظام موجود نہیں ہے اور ہم اپنے مجموعی ماحول کے حوالے سے اسی سطح پر پہنچ چکے ہیں، جس سطح پر بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت نازل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ لال مسجد کے طرز عمل کو ہدف تنقید بنانے میں ہم اپنے دانش ور دوستوں کے ساتھ ہیں، لیکن کیا معاملے کے اس دوسرے رخ کے حوالے سے قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے ہمارے دانشوروں کے پاس کوئی سوچ یا مواد موجود نہیں ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter