جامعہ حفصہ کا معاملہ: مذاکرات کے مراحل

   
۱۲، ۱۶، ۱۷ جولائی ۲۰۰۷ء

اب جبکہ لال مسجد اسلام آباد، جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا معاملہ مسلح حکومتی آپریشن کے بعد اس انجام کو پہنچ چکا ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی خواہش تھی اور جس کے لیے گن گن کر دن گزارے جا رہے تھے، اس وقت جب میں اسلام آباد ہی میں بیٹھا یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، غازی عبد الرشید اپنی والدہ محترمہ اور دیگر بہت سے رفقاء سمیت جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اور لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف سرکاری فورسز کا آپریشن آخری مرحلہ میں ہے جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ چند گھنٹوں میں اپنے آخری نتیجے تک پہنچنے والا ہے، جبکہ کل صبح آپریشن کے آغاز سے ہی الیکٹرانک میڈیا پر وفاقی وزراء اور دیگر سرکاری ترجمانوں کے بیانات اور وضاحتوں کی شکل میں یکطرفہ صورتحال بار بار پیش کی جا رہی ہے، میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ چونکہ میں بھی ان مذاکرات کا حصہ رہا ہوں جن کے اچانک ختم ہو جانے کے بعد مسلح آپریشن شروع ہو گیا تھا اور وہ اب تک جاری ہے، ان مذاکرات کے مختلف مراحل کی تفصیل قارئین کے سامنے پیش کر دوں تاکہ وہ معاملہ کے وسیع تر تناظر میں یہ جائزہ لے سکیں کہ وہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے جن کے ختم ہوتے ہی سب کچھ ختم کر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

ان مذاکرات کی کہانی کا طویل پس منظر ہے اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے حوالے سے، جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے ملک بھر کے کم و بیش بارہ ہزار دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم ہے، ان مذاکرات کا قصہ اس وقت شروع ہوا جب جامعہ حفصہ لال مسجد اسلام آباد کی طالبات نے قریب ہی واقع ایک سرکاری چلڈرن لائبریری پر یہ کہتے ہوئے قبضہ کر لیا کہ یہ قبضہ اسلام آباد میں مقامی حکومت کی طرف سے چند مساجد کو گرائے جانے کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا ہے اور مساجد کی دوبارہ تعمیر کی صورت میں یہ قبضہ چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ امور بھی مطالبات میں شامل تھے کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے، فحاشی اور بے حیائی کے مبینہ اڈوں کو ختم کیا جائے اور حدود شرعیہ میں ایک آرڈیننس کے ذریعے سے جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ واپس لی جائیں۔

اس موقع پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام نے جہاں حکومت پر دباؤ ڈال کر اس سے وعدہ لیا کہ وہ ان مساجد کو دوبارہ تعمیر کرے گی جو اسلام آباد میں گزشتہ چند برسوں کے دوران میں گرائی گئی ہیں بلکہ ان میں سے ایک مسجد کی تعمیر دوبارہ شروع بھی کرا دی گئی، وہاں ان علماء کرام نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے منتظم مولانا عبد العزیز اور ان کے معاون مولانا عبد الرشید غازی پر بھی زور دیا کہ وہ سرکاری لائبریری کا قبضہ چھوڑ دیں اور کسی بھی احتجاجی جدوجہد کے لیے قانونی طریق کار پر قناعت کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ دونوں بھائیوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام کے اس موقف کو قبول نہ کیا تو چونکہ معاملہ ایک دینی مدرسہ کا تھا کہ جامعہ حفصہ کا شمار ملک کے طالبات کے بڑے مدارس میں ہوتا تھا جس کی طالبات نے سرکاری لائبریری پر قبضہ کیا تھا، اس لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی ہائی کمان سے رجوع کیا گیا کہ وہ مداخلت کرے اور اس قضیہ کو نمٹانے کے لیے کردار ادا کرے۔

چنانچہ وفاق المدارس کی طرف سے اس کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان اور ان کے ہمراہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا حسن جان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر سرکردہ حضرات اسلام آباد تشریف لائے اور حکومت کے ذمہ دار حضرات سے ملاقات کر کے گرائی جانے والی مساجد کو فوری طور پر دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا اور مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی سے ملاقات کر کے انہیں بتایا کہ سرکاری عمارت پر قبضہ کرنے، قانون کو ہاتھ میں لینے اور حکومت کے ساتھ تصادم پیدا کرنے کی پالیسی سے وفاق المدارس کی قیادت کو اتفاق نہیں ہے اور ملک بھر کے اکابر علماء کرام اس طریق کار کو غلط سمجھتے ہیں، اس لیے وہ لائبریری کا قبضہ چھوڑ دیں اور اپنے مطالبات کے لیے قانونی طریق کار اور ذرائع اختیار کریں۔ مگر مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی نے یہ بات قبول نہ کی اور اپنے طریق کار کو درست قرار دیتے ہوئے اسی پر برقرار رہنے کا اعلان کر دیا جس پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی ہائی کمان نے وفاق کے ساتھ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا الحاق ختم کرنے کا اعلان کیا، اور اس کے چند روز بعد وفاق المدارس کی مجلس عاملہ نے ایک باضابطہ اجلاس میں اپنے موقف کا اعلان کیا کہ اس کے نزدیک لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے منتظمین کے مطالبات درست ہیں مگر طریقہ کار غلط ہے جس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجلس عاملہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جائز مطالبات کی منظوری کا اعلان کرے اور طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کے ذریعے سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ مجلس عاملہ کے اعلان میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر حکومت نے طاقت کا استعمال کیا تو یہ بھی ایک غلط طریق کار ہوگا جس کی وفاق کی طرف سے شدید مخالفت کی جائے گی۔

اس پس منظر میں جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع میں مزید شدت پیدا ہوئی، سرکاری فورسز نے ان دونوں اداروں کو گھیرے میں لے لیا، دونوں طرف سے فائرنگ اور مسلح تصادم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور وفاق کی قیادت نے محسوس کیا کہ مزید خونریزی اور خوفناک تصادم کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ضروری ہوگیا ہے تو وفاق کے سربراہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان نے اس سلسلے میں پیشرفت کا فیصلہ کیا، چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر سرکردہ علماء کرام اسلام آباد تشریف لائے اور غازی برادران سے بات کی کہ وہ تصادم کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے لچک پیدا کریں اور کسی درمیانی راستے پر آئیں۔ اس پر مولانا عبد الرشید غازی نے چند شرائط پر خود کو علماء کرام کے حوالے کرنے کی پیشکش کی مگر بات بوجوہ آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جس میں ان کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر بھی شریک تھے، مگر ڈیڈلاک بدستور باقی رہا۔

۸ جولائی کو حضرت مولانا سلیم اللہ خان خود، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اور دیگر علماء کرام کے ہمراہ کراچی سے اسلام آباد پہنچے جبکہ ان کی ہدایت پر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ملتان سے اور راقم الحروف گوجرانوالہ سے اسلام آباد پہنچے، جبکہ میں اس روز دارالعلوم رحیمیہ ملتان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے جا رہا تھا اور لاہور پہنچ چکا تھا جہاں سے مجھے تین بجے ملتان کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ پکڑنا تھی مگر حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے حکم پر میرا روٹ اچانک تبدیل ہوگیا اور میں تین بجے ملتان کی فلائٹ پر سوار ہونے کے بجائے دو بجے اسلام آباد کی فلائٹ پر سوار ہوگیا۔ اسلام آباد پہنچے تو ہم نے یہ طے کیا کہ ہمارا بنیادی ہدف حکومت اور مولانا عبد الرشید غازی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرانا، مزید خونریزی کو روکنا، اور انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہوگا اور اس کے لیے ہم اپنی پوری صلاحیتیں اور قوت صرف کریں گے۔ اس مرحلہ پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارا اسلام آباد آنا کسی کی دعوت پر نہیں تھا جیسا کہ ایک ٹی وی چینل کے نشریہ میں آج یہ کہا گیا ہے کہ ان علماء کرام کو بلایا گیا تھا اور یہ انہی بلانے والوں کے مہمان ہیں۔ یہ قطعی طور پر غلط بات ہے، ہم وفاق المدارس کی ہائی کمان کے فیصلے کے مطابق آئے ہیں، وفاق کے انتظامات کے تحت یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور اسی کے پروگرام کے مطابق واپس چلے جائیں گے۔

چنانچہ ہم نے یہ طے کیا کہ سب سے پہلے چودھری شجاعت حسین صاحب سے رابطہ کیا جائے اور ان سے بات کر کے مزید پیشرفت کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ چودھری صاحب سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ ابھی ایک گھنٹہ کے بعد وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں، اس لیے آپ حضرات ابھی آ سکیں تو آ جائیں۔ ہم اس وقت کھانے کے لیے میز پر بیٹھ چکے تھے، مگر کھانا وہیں چھوڑ کر بھاگم بھاگ چودھری شجاعت حسین کے ہاں پہنچے تو وہ وفاقی وزراء جناب نصیر خان، جناب انجینئر امیر مقام اور دیگر رفقاء کے ہمراہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے وفد میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا ڈاکٹر عادل خان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف کے علاوہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام میں سے مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد شریف ہزاروی اور دیگر علماء کرام بھی شامل تھے۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خان کی قیادت میں جانے والے اس وفد کے متکلم مولانا مفتی رفیع عثمانی تھے۔ انھوں نے ملک کے دینی حلقوں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے وابستہ ہزاروں مدارس کی ترجمانی کرتے ہوئے چودھری صاحب کو بتایا کہ اس سے قبل صورتحال یہ تھی کہ مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی ایک غلط طریق کار پر بے جا اڑے ہوئے تھے اور حکومت نے صبر و تحمل اور مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کیا، لیکن اب حکومت نے طاقت استعمال کر کے اور مذاکرات کا راستہ بند کر کے جو رویہ اختیار کیا ہے، ہمارے نزدیک وہ بھی غلط ہے اور اس سے جو جانی نقصان ہو رہا ہے، اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت بھی ایک غلط بات پر اڑ گئی ہے، اس لیے ہم یہ مطالبہ لے کر آئے ہیں کہ فوری طور پر فوجی آپریشن بند کیا جائے، مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے اعلان کیا جائے، وہاں جو لاشیں بتائی جاتی ہیں انھیں نکالا جائے، زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتالوں میں منتقل کیا جائے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود طالبات اور طلبہ کو خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں، پانی کا کنکشن بحال کیا جائے اور عبد الرشید غازی صاحب نے جو شرائط وہاں سے باہر نکلنے کے لیے پیش کی ہیں، انھیں یکسر مسترد کرنے کے بجائے ان پر دوبارہ غور کر لیا جائے تاکہ کوئی قابل عمل درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے ساتھ عبد الرشید غازی صاحب کی اس سے قبل ہونے والی گفتگو کی روشنی میں چودھری صاحب کو بتایا گیا کہ عبد الرشید غازی چند شرائط پر ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں اور وہ یہ ہیں کہ:

  1. عبد الرشید غازی کو ان کے خاندان اور ذاتی سامان سمیت ان کے آبائی گاؤں (روجھان، ڈیرہ غازی خان) میں منتقل کر دیا جائے اور ان کی گرفتاری یا نظر بندی نہ کی جائے۔
  2. جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں مقیم طالبات، طلبہ اور دیگر افراد میں سے کسی کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع کے حوالہ سے درج کسی مقدمہ میں گرفتار نہ کیا جائے، البتہ ان میں سے کوئی فرد لال مسجد کے تنازع سے پہلے کے کسی کیس میں مطلوب ہے تو اس کی گرفتاری پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
  3. وہ لال مسجد، جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ تینوں کے نظم و نسق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا انتظام وفاق المدارس کے سپرد کر دیا جائے اور لال مسجد کا نظام محکمہ اوقاف اسلام آباد کی تحویل میں دیا جائے جو وفاق المدارس کے مشورہ سے اس کے انتظامات کرے۔

یہ غازی صاحب کی شرائط تھی جن کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ یہ حکومت کی طرف سے اس عام معافی کے اعلان کی ایک عملی شکل تھی جس کا خود حکومت نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد کے لیے چند ہفتے قبل اعلان کیا تھا، اس لیے ہم نے عرض کیا کہ جب حکومت خود اس سے قبل عام معافی کا اعلان کر چکی ہے تو اس کی عملی شکل کے طور پر ان شرائط کو قبول کر لیا جائے اور انسانی جانوں کے مزید ضیاع کو روکنے کے لیے عبد الرشید غازی کو ان کی شرط کے مطابق لال مسجد سے نکلنے کا محفوظ راستہ دے دیا جائے۔

یہ شرائط چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقاء کے علم میں اس سے قبل بھی آچکی تھیں، اس لیے ہمیں اپنا موقف سمجھانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی، البتہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اس موقع پر اس بات کا حوالہ دیا کہ ایسے موقع پر انسانوں جانوں کو بچانے کے لیے اس سے زیادہ سخت شرائط بھی دنیا میں تسلیم کی جاتی رہی ہیں بلکہ خود پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں کابل ایئرپورٹ پر کھڑے پی آئی اے کے اغوا شدہ طیارے میں موجود ایک سو پچیس مسافروں کی جانیں بچانے کے لیے پاکستان کی مختلف جیلوں سے تین سو کے لگ بھگ مجرموں کو رہا کر دیا گیا تھا، اس لیے اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد بالخصوص بچوں اور عورتوں کی جانیں بچانے کے لیے عبد الرشید غازی کی یہ شرائط تسلیم کر لی جائیں تو مزید خونریزی کو روکا جا سکتا ہے۔ علماء کے وفد نے چودھری شجاعت حسین سے کہا کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے اور غازی عبد الرشید کی یہ ضد اگر بے جا ہے تو بھی اسے مان لے تاکہ مزید خونریزی کو روکا جا سکے۔ اس موقع پر وفد کے بعض ارکان کی طرف سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ فوری طور پر دونوں طرف سے سیزفائر کیا جائے، آپریشن روک دیا جائے، وہاں سے غیر ضروری فورسز ہٹا لی جائیں اور اس کے بعد تمام معاملات سپریم کورٹ آف پاکستان یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیے جائیں اور وہ جو فیصلہ بھی کریں، دونوں فریق اسے قبول کر لیں۔

گفتگو کے دوران میں ایک موقع پر ملک کی عمومی صورتحال اور اہل دین کے حوالے سے حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی خاصے جذباتی ہو گئے اور صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو سختی کے ساتھ ہدف تنقید بنایا جس پر فضا گرم ہوتے ہوتے رہ گئی، مگر مجموعی طور پر گفتگو کا ماحول مناسب رہا اور ہم نے اپنے جذبات اور موقف چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقاء تک اس خیال سے پہنچا دیے کہ وہ صدر اور وزیر اعظم کے پاس جا رہے ہیں، انھیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف مسلح آپریشن کے بارے میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کریں گے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ وہ ہمارا یہ موقف اور جذبات وزیر اعظم اور صدر مملکت تک پہنچا دیں گے اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے اور تصادم کے امکانات کو روکنے کے لیے کوئی قابل عمل راستہ نکالا جائے۔

اس موقع پر میڈیا کے حضرات بھی موجود تھے جنھوں نے گفتگو کی مجموعی رپورٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں سے الگ الگ انٹرویو بھی لیے۔ میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس سے قبل ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ لال مسجد کی انتظامیہ کے مطالبات صحیح ہیں لیکن ان کا طریق کار غلط ہے، لیکن اب حکومت بھی طاقت کے استعمال کا غلط طریق کار اختیار کر کے اسی پوزیشن پر آ گئی ہے اور ہم حکومت کو یہ بتانے کے لیے آئے ہیں کہ اس کے اس طرز عمل کا رد عمل انتہائی شدید ہوگا اور ملک بھر کے دینی حلقوں اور عوام میں سخت اشتعال پیدا ہوگا۔ ایک صحافی دوست نے سوال کیا کہ کیا یہ ریاست کو مذہب سے الگ کرنے کی کسی مہم کا حصہ تو نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کی کارروائیاں اسی مقصد کے لیے کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ پاکستان کی نہ صرف دستوری بنیاد اسلامی نظریہ پر ہے بلکہ اس کے وجود کی بنیاد بھی اسلام پر ہی ہے، اس لیے پاکستان کو اس کے قیام کے نظریاتی اور تہذیبی پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔

بہرحال ہم چودھری شجاعت حسین صاحب سے یہ عرض کر کے اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے کہ ہم آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔ مغرب کے بعد وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود ہمارے پاس تشریف لا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آئے اور ان کے ساتھ کم و بیش ایک گھنٹہ تک انہی امور پر گفتگو ہوئی، انہوں نے بتایا کہ چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ہماری ملاقات کی تفصیلات صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم جناب شوکت عزیز تک پہنچ چکی ہیں۔ خود ان حضرات کی بھی خواہش ہے کہ افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلہ کے حل کی کوئی صورت نکل آئے اور اس مقصد کے لیے وزیر اعظم کے ساتھ آپ حضرات کی ملاقات کا پروگرام طے کیا جا رہا ہے۔ اس دوران ہم نے صدر جنرل پرویز مشرف سے براہ راست ملاقات کے لیے وفاق المدارس کی طرف سے ایک مکتوب بذریعہ فیکس بھجوا دیا تھا جس کی وصولی کی ان کے آفس سے اطلاع مل گئی تھی اور جنرل شفقات صاحب کے ساتھ قاری محمد حنیف جالندھری کی فون پر گفتگو بھی ہو گئی تھی لیکن جب اعجاز الحق نے بتایا کہ صدر اور وزیر اعظم دونوں تک ہمارا موقف اور جذبات پہنچ چکے ہیں اور وزیر اعظم کے ساتھ ہماری ملاقات کا پروگرام طے کیا جا رہا ہے، تو پھر ہم نے صدر کے ساتھ ملاقات کا زیادہ پیچھا نہیں کیا۔

اگلے روز ۹ جولائی کو اڑھائی بجے وزیر اعظم جناب شوکت عزیز کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی جس میں ہماری طرف سے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا حکیم محمد مظہر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر عادل خان اور راقم الحروف کے علاوہ مولانا مفتی محمد اور مولانا قاضی عبد الرشید بھی شامل تھے۔ جبکہ وزیر اعظم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین صاحب، جناب اعجاز الحق، جناب محمد علی درانی، جناب طارق عظیم اور دیگر حضرات تھے۔ وزیر اعظم نے علماء کرام کی اسلام آباد میں آمد کا خیر مقدم کیا، ان کے مصالحتی جذبہ کو سراہا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ خدا کرے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ انہیں وفاق المدارس کے موقف اور جذبات سے آگاہ کیا گیا جس کی اطلاع انہیں پہلے بھی مل چکی تھی اور جو نکات چودھری شجاعت حسین صاحب کے ساتھ ملاقات میں زیر بحث آئے تھے، وہ وزیر اعظم کے سامنے پھر دہرائے گئے جن میں سے غازی عبد الرشید کو محفوظ راستہ دینے کے بارے میں تھوڑی بہت بات ہوئی مگر پھر اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ان کی گرفتاری یا نظر بندی نہیں ہوگی اور یہ بات چودھری شجاعت حسین صاحب نے بڑی وضاحت کے ساتھ خود مجلس میں دہرائی۔ دوسرے نکات پر بھی اصولی اتفاق رائے ہو گیا اور طے پایا کہ اس کی تفصیلات وفاق المدارس کے ذمہ دار حضرات وفاقی وزراء کے ساتھ مل کر طے کر لیں گے۔

ہم نے گزارش کی کہ علماء کرام کا وفد غازی عبد الرشید سے براہ راست ملاقات کے لیے لال مسجد جانا چاہتا ہے، مگر وزیر اعظم نے اس کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے، اس لیے آپ حضرات کو لال مسجد میں جانے کی ہم اجازت نہیں دیں گے۔ البتہ وہاں جو ٹاکنگ پوائنٹ حکومت کی طرف سے بنایا گیا ہے، وہاں جا کر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے آپ ان سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ مگر وزیر اعظم سے ملاقات سے فارغ ہو کر جب ہم اپنی قیام گاہ تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ لال مسجد میں جانے کا پروگرام بن گیا ہے اور ہم لوگ چودھری شجاعت حسین صاحب اور اعجاز الحق صاحب کے ساتھ پانچ بجے کے بعد وہاں جائیں گے۔ اس دوران میں ٹیلی فون پر غازی عبد الرشید کے ساتھ بھی رابطہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ وہ چودھری صاحب اور علماء کرام کا لال مسجد میں خیر مقدم کریں گے اور انہیں پورا تحفظ دیا جائے گا، حتیٰ کہ اس کی تفصیلات بھی طے ہوگئیں کہ کون سے راستے سے جائیں گے، کہاں تک گاڑیوں پر جائیں گے اور کون سے دروازے سے اندر داخل ہوں گے۔ مگر جب علماء کرام کا وفد چودھری شجاعت حسین صاحب، اعجاز الحق صاحب، محمد علی درانی صاحب، طارق عظیم صاحب، اور عبد الستار ایدھی کے ہمراہ وہاں پہنچا تو وہاں موجود حکام نے ہمیں لال مسجد میں جانے سے روک دیا اور کہا کہ آپ حضرات میں سے کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس دوران میں غازی عبد الرشید نے فون پر ہونے والی گفتگو میں یہ کہا کہ وفاقی وزراء کے ساتھ علماء کی گفتگو میں مولانا فضل الرحمن خلیل کو بھی شامل کیا جائے، چنانچہ ان کے اصرار پر انہیں بلا لیا گیا اور وہ اس کے بعد ہونے والی گفتگو میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔

ہم شام پونے چھ بجے کے لگ بھگ اس جگہ تک پہنچے جسے ٹاکنگ پوائنٹ کا نام دیا گیا ہے اور جہاں سے آگے کسی کو نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔ وہاں ایک گاڑی پر لاؤڈ اسپیکر نصب تھا جس کے ذریعے سے لال مسجد کے اندر کے لوگوں کو خطاب کیا جاتا تھا اور وہ جس بات کا جواب ضروری سمجھتے، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے اس کا جواب دیتے تھے۔ ہم سے کہا گیا کہ اس لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے اندر کے لوگوں سے خطاب کریں اور انہیں ہتھیار ڈالنے کے لیے کہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اس کام کے لیے نہیں آئے۔ اگر اندر جانے کی اجازت ہے تو ہم براہ راست وہاں جا کر عبد الرشید غازی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ٹیلی فون کا رابطہ ہی کافی ہے، ہم لاؤڈ اسپیکر کو ان کے ساتھ گفتگو کا ذریعہ بنانے کو تیار نہیں ہیں۔

اس دوران میں قریب کے ایک خالی مکان میں ہمارے مل بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا اور ہم مذکورہ بالا وفاقی وزراء اور چودھری شجاعت حسین صاحب کے ساتھ اس اصولی مفاہمت کی تفصیلات طے کرنے بیٹھ گئے جو وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران میں طے پا گئی تھی۔ ایک ایک شق پر بحث ہوئی، ہر شق کے مختلف پہلوؤں پر دونوں طرف سے تحفظات کا اظہار ہوتا رہا اور رات تقریباً سوا بارہ بجے ہم ایک تحریر پر متفق ہوئے جن کے نکات طارق عظیم صاحب نے لکھے جبکہ اسے باقاعدہ فارمولے کی شکل میں نے دی، اور جب ہم اس پر اتفاق رائے کر چکے تو ہمیں بتایا گیا کہ اب اسے لے کر چودھری شجاعت حسین صاحب ایوان صدر جائیں گے اور وہاں سے منظوری کے بعد اسے حتمی شکل دی جائے گی، جبکہ اسے فون پر غازی عبد الرشید کو سنایا جا چکا تھا اور انہوں نے بھی اس سے اتفاق کا اظہار کر دیا تھا۔

ہمارا خیال تھا کہ ہم نے جو کچھ طے کیا ہے، وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں اصولی طور پر طے پا جانے والے نکات کی روشنی میں ہے، اس لیے مزید کسی جگہ سے اس کی توثیق کی ضرورت نہیں پڑے گی، لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ایسا ضروری ہے اور چودھری صاحب نے کہا کہ آپ حضرات انتظار کریں، ہم آدھ پون گھنٹہ میں واپس آرہے ہیں۔ مجلس میں شریک دونوں طرف کے حضرات کے نزدیک یہ معاملات تقریباً طے پا چکے تھے۔ چودھری وجاہت حسین صاحب بار بار اصرار کر رہے تھے کہ یہ سارا عمل رات ہی رات مکمل کر لیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے کتنی گاڑیوں کا بندوبست کریں۔ اور اس کے ساتھ یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ جب ہم تھوڑی دیر کے بعد سب اندر جائیں گے تو وہاں موجود افراد کے لیے کھانا بھی ساتھ لے کر جائیں گے، اس کا انتظام کر لینا چاہیے۔ اس پر یہ تجویز دی گئی کہ لاہور کے داتا دربار کی طرح اسلام آباد میں بھی بعض مقامات پر پکی پکائی دیگیں مل جاتی ہیں، وہاں سے منگوا لی جائیں حتیٰ کہ ایک مرحلہ پر چودھری وجاہت حسین نے بتایا کہ وہ بیس دیگوں کا انتظام کر رہے ہیں، لیکن جب انتظار طویل ہوتا گیا تو ہمارے ذہنوں میں تشویش پیدا ہوئی اور ہم نے (مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور راقم الحروف) اس پر آپس میں بات بھی کی، چنانچہ جب رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ چودھری شجاعت حسین صاحب وفاقی وزراء کے ہمراہ واپس آئے تو ان کے پاس ہماری طے شدہ تحریر کے بجائے ایک اور تحریر تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ صرف اسے قانونی شکل دینے کے لیے نئے سرے سے لکھا گیا ہے، مگر جب اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں پہلی تحریر کے تینوں نکات غائب تھے۔

  1. غازی عبد الرشید کے لیے لکھا گیا تھا کہ انہیں ان کے خاندان سمیت گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
  2. لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود طلبہ اور دیگر مرد حضرات کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع کے حوالہ سے گرفتار نہ کرنے کی بات حذف کر دی گئی تھی اور لکھا گیا تھا کہ ان میں سے جو شخص (تنازعہ سے قبل یا بعد کے فرق کے بغیر) کسی بھی مقدمہ میں مطلوب ہوگا، اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
  3. جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کی تحویل میں دینے کی بات بھی حذف کر دی گئی تھی۔

یہ تینوں باتیں ہماری تجاویز نہیں تھیں بلکہ غازی عبد الرشید کی شرائط تھیں جن پر انہیں شدت سے اصرار تھا، اس لیے ہم ان کے بارے میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ چنانچہ طے پایا کہ فون پر یہ نئی تحریر غازی عبد الرشید کو سنا دی جائے اور اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن جب مولانا فضل الرحمن خلیل نے انہیں فون پر یہ تحریر سنائی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ مولانا فضل الرحمن خلیل ہمارے سامنے انہیں فون پر سمجھاتے رہے کہ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ وہ اسے قبول کر لیں، لیکن جب وہ نہ مانے تو مولانا فضل الرحمن خلیل نے فون میرے ہاتھ میں دے دیا۔ میں نے غازی عبد الرشید سے بات کی جو میری ان سے آخری گفتگو ثابت ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس تحریر میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا اور ہاں یا نہ میں جواب درکار ہے جس کے لیے صرف آدھے گھنٹے کی گنجائش ہے، اس لیے آپ اسے قبول کر لیں تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے والی تحریر جو مجھے سنائی گئی تھی، اب بھی میرے لیے قابل قبول ہے لیکن دوسری تحریر کو آپ تبدیل کرانے کی کوشش کریں۔ میں نے کہا کہ ایسا عملاً ممکن نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پھر ٹھیک ہے، ان سے کہیں کہ یہ ہمارا قتل عام کریں، قیامت کے دن میں آپ سب حضرات سے اس کے بارے میں بات کر لوں گا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت خود میرے حواس بھی قابو میں نہیں رہے تھے، اس لیے میں نے مزید کوئی بات کیے بغیر ٹیلی فون دوبارہ مولانا فضل الرحمن خلیل کے ہاتھ میں دے دیا۔

اس تحریر میں کوئی ردوبدل ممکن نہ ہونے کی بات میں نے اس لیے کہی تھی کہ ان حضرات نے آتے ہی ہمیں دو ٹوک طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ آخری اور حتمی فیصلہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اس کا جواب ہاں یا نہ میں دیں اور اس کے لیے ہمارے پاس نصف گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس دوران میں ایک اعلیٰ فوجی افسر مذاکرات کے کمرے میں تشریف لائے اور کرسی پر بیٹھ کر ہماری گفتگو کا جائزہ لیتے رہے۔ میں فوجی رینکوں کے درجات کو نہیں پہچانتا، اس لیے ان کی وردی اور بیجوں سے مجھے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کس سطح کے افسر ہیں، لیکن ان کا لہجہ اور انداز بتا رہا تھا کہ وہ کمانڈر ہیں، اس لیے کہ جب گفتگو کے دوران میں غازی عبد الرشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا زاہد الراشدی یہ تحریر لے کر میرے پاس آجائیں، ہم اس پر دوبارہ غور کر لیتے ہیں تو ان فوجی افسر صاحب نے انتہائی تحکمانہ لہجے میں کہا کہ میں فضل الرحمن خلیل کے علاوہ کسی اور شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں دوں گا اور یہ بھی صرف پندرہ منٹ کے لیے جا سکیں گے، اس سے زیادہ وقت نہیں ہے۔

اس صورتحال میں ان مذاکرات میں مزید حصہ دار بننا ہمارے لیے ممکن ہی نہ تھا، اس لیے ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور وہاں سے فوری چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ صورتحال کی سنگینی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم زبانی طور پر السلام علیکم کہہ کر کمرے سے باہر نکل آئے اور کسی سے رخصتی مصافحہ نہ کر سکے اور ان میں سے بھی کسی دوست کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ہمیں مزید رکنے کا کہیں یا ہم سے رخصتی مصافحہ کر لیں۔ دونوں فریقوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ہم علماء کرام وہاں سے فوراً روانہ ہو جائیں حتیٰ کہ دوسرے کمرہ میں موجود ہمارے بعض ساتھیوں نے بتایا کہ کمرے سے باہر سرکاری وفد کے دو حضرات آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ ’’ان مولویوں کو یہاں سے جلدی چلتا کرو‘‘۔ چنانچہ ہم وہاں سے اڑھائی بجے کے لگ بھگ چلتے بنے لیکن جب ہم اپنی قیام گاہ میں پہنچ کر تھوڑی دیر باہمی مشاورت کے بعد نماز فجر کا وقت داخل ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ نماز پڑھ کر کچھ نیند کر لیں تو دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور میڈیا نے خبر دی کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

مذاکرات کے حوالے سے چند باتیں اور بھی ہیں جن کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً:

  • یہ کہ بعض وفاقی وزراء نے اپنے انٹرویوز میں کہا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ عبد الرشید غازی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان کے ساتھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جو غیر ملکی موجود ہیں، انھیں بھی تحفظ فراہم کیا جائے اور یہ بات حکومت کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے وفد کا غازی عبد الرشید سے ٹیلیفونک رابطہ وزیراعظم سے ہماری ملاقات کے بعد قائم ہوا جو وقفہ وقفہ سے رات اڑھائی بجے تک جاری رہا، اور اس وقت تک غیر ملکیوں کے حوالے سے ان کی طرف سے کوئی بات سامنے نہیں آئی اور مقدمات اور گرفتاریوں کے بارے میں صرف اس پہلو پر بات چیت ہوتی رہی کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے تنازع سے قبل یعنی چلڈرن لائبریری پر جامعہ حفصہ کی طالبات کے قبضہ سے پہلے کے مقدمات میں اگر کوئی شخص مطلوب ہے تو اس کی گرفتاری پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، البتہ چلڈرن لائبریری پر قبضہ کے بعد درج کیے جانے والے مقدمات میں کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ غازی عبد الرشید کی شرط تھی جسے وزیر اعظم کے ساتھ ہماری ملاقات کے دوران میں تسلیم کر لیا گیا تھا، مگر صدر جنرل پرویز مشرف نے اسے مسترد کر دیا جس کا انہوں نے قوم سے نشری خطاب کے دوران خود بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ عبد الرشید غازی کو گرفتاری یا نظربندی سے مستثنیٰ کرنے اور ان کے ساتھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد کو چلڈرن لائبریری کے بعد درج کیے جانے والے مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کی شرط قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے علماء اور وزراء کا مرتب کردہ مصالحتی فارمولا ناکام ہوگیا۔

    اس لیے اس مرحلے میں یہ وضاحت ہماری طرف سے ضروری ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ گفتگو کے دوران میں غازی عبد الرشید نے غیر ملکیوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر عادل خان اور راقم الحروف پر مشتمل وفد جب رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ مذاکرات سے لاتعلق ہو کر لال مسجد کے قریب ٹاکنگ پوائنٹ سے واپس آیا تو اس کے بعد وزراء کی بات چیت مولانا فضل الرحمن خلیل کے ذریعے سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک چلتی رہی۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر یہ طے کیا کہ ہم سردست میڈیا سے کوئی بات نہیں کریں گے اور ہمارے بعد ہونے والی اس گفتگو کے نتائج کا انتظار کریں گے تاکہ میڈیا کے ساتھ ہماری کسی بات سے اس گفتگو کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ ہماری خواہش اور دعا تھی کہ خدا کرے، اس گفتگو کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے اور جس نقصان اور المیہ سے ہم ڈر رہے تھے، اس کو روکنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ ہم نے باہمی مشورہ سے اپنے موبائل فون بند کر دیے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد کمرے بند کرکے سو گئے۔ مجھے ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ حامد میر صاحب نے آکر جگایا۔ انہیں کسی ذریعے سے پتہ چل گیا تھا کہ میں فلاں ہوٹل کے فلاں کمرے میں سویا ہوا ہوں۔ میرے چھوٹے بھائی اور پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر بھی اسی کمرے میں میرے ساتھ تھے اور میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ مجھے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے نہ جگایا جائے، مگر حامد میر صاحب کے اصرار پر مجھے جگا دیا گیا اور اس وقت تک رونما ہونے والی صورت حال سے مجھے آگاہ کیا گیا تو میں نے میر صاحب کو جیو کے لیے وہ انٹرویو دیا جو بار بار نشر ہو چکا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وزراء اس قدر اعتماد کے ساتھ غیر ملکیوں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں تو ممکن ہے، ہماری واپسی کے بعد مولانا فضل الرحمن خلیل کے ذریعے سے ہونے والی گفتگو میں عبد الرشید غازی نے اس قسم کی کوئی بات کی ہو، لیکن مجھے رات ایک دوست نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن خلیل نے بھی ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں یہ وضاحت کی ہے کہ ان کے ساتھ عبد الرشید غازی نے غیر ملکیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔

  • اسی طرح لال مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے حوالہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی، اسے بھی ریکارڈ میں لانا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لے کر حکومت کو عدالت میں طلب کیا اور ہدایات جاری کیں جو اخباری اطلاعات اور وہاں موجود افراد کے ذریعے سے ہم تک پہنچیں۔ وہ یہ تھیں کہ:
    • لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد کی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
    • علماء کی جس مصالحتی کمیٹی نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے، اس کے لال مسجد میں جانے اور عبد الرشید غازی کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ اس مصالحتی کمیٹی کو سرکاری طور پر سہولت فراہم کی جائے اور اسے تحفظ فراہم کیا جائے۔
    • لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود افراد اگر ہتھیار ڈالیں تو اس وقت سیشن جج اسلام آباد وہاں موجود ہوں تاکہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر عملدرآمد کی نگرانی کر سکیں، وغیر ذٰلک۔
  • ہمیں خوشی ہوئی کہ اس سے ہمیں اپنے مصالحتی مشن میں سپورٹ حاصل ہوگی، لیکن عملاً جو کچھ ہوا، اس سے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہوئیں اور مصالحتی کمیٹی کو سپورٹ کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کی یہ ہدایت عملاً مصالحتی کمیٹی کے لیے رکاوٹوں کا باعث بن گئی جس کی کچھ واقعاتی تفصیل عرض کرنا چاہتا ہوں۔

    ہم ٹاکنگ پوائنٹ کے قریب ایک مکان کی بالائی منزل میں وفاقی وزراء کے ساتھ مصالحتی فارمولا کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے اور عبد الرشید غازی کے ساتھ فون پر گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک نیچے سے لاؤڈ اسپیکر پر ایک اعلان شروع ہوگیا جو اسلام آباد کے سیشن جج صاحب کی طرف سے تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق وہ عبد الرشید غازی اور ان کے ساتھ موجود تمام افراد کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ہتھیار ڈال دیں اور سیشن جج کی موجودگی میں خود کو قانون کے حوالہ کر دیں۔ میں نے اس موقع پر طارق عظیم صاحب اور دیگر وزراء سے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر یہ ضروری تھا تو ہمارے آنے سے پہلے ہوسکتا تھا یا ہمارے جانے تک اسے مؤخر کیا جا سکتا تھا، لیکن عین اس وقت جبکہ ہم عبد الرشید غازی کے ساتھ مصالحت کی تفصیلات طے کر رہے ہیں، ہماری موجودگی میں یہ اعلان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ اس پر طارق عظیم اور اعجاز الحق کے ساتھ میری خاصی تلخی ہوگئی۔ ہم نے اصرار کیا کہ اس اعلان کو فوراً رکوایا جائے مگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بعد میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک وکیل رائے بشیر صاحب نے، جو سپریم کورٹ کی عدالتی کارروائی میں وہاں موجود تھے اور ہمارے ساتھ رات کو ساتھ والے کمرے میں دوسرے حضرات کے ساتھ ہماری گفتگو کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے، بتایا کہ ان سے اسلام آباد انتظامیہ کے ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ ہم سیشن جج صاحب کو گھر سے لے کر آئے ہیں، وہ ابھی اعلان کریں گے۔ آپ بھی بطور وکیل ان کے ساتھ کھڑے ہو کر لال مسجد والوں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کریں مگر انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔

    ہم نے وزراء سے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ علماء کی مصالحتی کمیٹی کے لال مسجد میں جانے اور عبد الرشید غازی کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام کرے۔ حکومت اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ حضرات کو اسی لیے یہاں لایا گیا ہے کہ آپ ٹاکنگ پوائنٹ پر سیشن جج صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے اعلان کریں اور اندر والوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہیں۔ ہم نے گزارش کی کہ ہم تو مصالحت کے لیے آئے ہیں، ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرنے کے لیے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہی کہا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ اگر ہمارا کام صرف سیشن جج صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنا ہے تو پھر ’’مصالحتی کمیٹی‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کوئی جواب وزراء کی طرف سے نہیں دیا گیا۔

    رات دو بجے کے بعد جب چوہدری شجاعت حسین صاحب اور وفاقی وزراء ایوان صدر سے ایک نیا مسودہ لے کر آئے اور اسے پڑھا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ آپ نے طے کیا تھا کہ عبد الرشید غازی کو گرفتار یا نظر بند نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھیوں میں سے بھی کسی کو چلڈرن لائبریری پر قبضہ کے بعد درج کیے جانے والے کسی مقدمہ میں گرفتار نہیں کیا جائے، مگر اس نئی تحریر میں یہ دونوں باتیں ختم کر دی گئی ہیں، تو ان وفاقی وزراء نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ایسا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ اگر ہم وہی کچھ لکھیں جو پہلی تحریر میں لکھا گیا تھا تو ہم سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی اور توہین عدالت کے مرتکب قرار پا سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارا موقف تھا کہ جب سپریم کورٹ نے ہماری ’’مصالحتی کمیٹی‘‘ کی مصالحتی حیثیت اور کردار کو تسلیم کر لیا ہے تو ہمارے ذریعے سے جو بھی مصالحت طے پائے گی، وہ قانون کی خلاف ورزی یا سپریم کورٹ کے حکم سے انحراف متصور نہیں ہوگی، لیکن ہمارے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا گیا اور وزراء نے یہ کہہ کر ایوان صدر سے لائی گئی تحریر میں کسی قسم کے ردوبدل سے انکار کر دیا کہ سپریم کورٹ کے آج کے آرڈر کے بعد ہم ایسا نہیں کر سکتے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے، وہ قوم کے سامنے ہے اور جو کچھ ہونے جا رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کسی غلط فہمی کی گنجائش نہیں ہے۔ اہل دین کی آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے بہت زیادہ حوصلہ و تدبر اور حکمت و دانش کی ضرورت ہے۔ غازی عبد الرشید، ان کی والدہ محترمہ اور ان کے رفقاء کی المناک شہادت ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی باعث رنج و غم ہے کہ ان کا تعلق اہل دین سے تھا اور وہ ایک غلط طریق کار پر بے جا اڑے رہنے کے باوجود جن مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، وہ درست تھے۔ اور یہ سانحہ ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی انتہائی صدمہ کا پہلو لیے ہوئے ہے کہ ہمارے محترم اور بزرگ دوست حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کا خاندان اپنے انتہائی قیمتی افراد سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جن افسران، سپاہیوں اور دیگر شہریوں نے جانیں دی ہیں، ان کی موت پر بھی ہم اسی طرح صدمہ سے دوچار ہیں۔ وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی تھے، پاکستانی تھے اور اپنی ڈیوٹی پر تھے۔ ہم سب حضرات کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت اس صورتحال میں مسلسل باہمی مشاورت میں ہے۔ اس کی مجلس عاملہ کے فیصلے ان سطور کی اشاعت تک آپ کے سامنے آچکے ہوں گے۔ ہمارا بنیادی ہدف اور دائرہ کار دینی تعلیم کا فروغ، اسلامی روایات کا تحفظ، دینی مدارس اور ان کی آزادی کی بقا، اور عالم کفر کی نظریاتی، تہذیبی اور تعلیمی یلغار کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان مقاصد کے لیے قانون اور دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کا ہر معروف طریقہ اختیار کرنا نہ صرف یہ کہ ہمارا حق بنتا ہے بلکہ ہمارے فرائض میں سے ہے۔ اس نئی صورتحال میں جہاں جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے مستقبل کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے، وہاں ملک بھر کے دینی مدارس کے جداگانہ تشخص اور آزادی و خود مختاری کو بھی دوبارہ سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم حوصلہ، تدبر، دانش، جرات، استقامت، اور تسلسل کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکے تو دینی مدارس اس نئی آزمائش میں بھی سرخرو ہوں گے۔

قارئین کرام! جو ہونا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ اس کے اسباب و عوامل اور نتائج و عواقب کا تجزیہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر ایک عرصہ تک بحث ہوتی رہے گی اور ہم بھی حسب موقع اور حسب توفیق اس بحث میں اپنا حصہ ڈالیں گے، ان شاء اللہ تعالی۔ مذاکرات کے دوران میں ہونے والے اہم واقعات کو تاریخ کے ریکارڈ میں لانا ضروری تھا۔ جو کچھ اس کالم میں تحریر کیا گیا ہے، وہ قوم کی اور تاریخ کی امانت تھی جو امانت ہی کے جذبہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس قسم کے المیوں سے صحیح طور پر سبق حاصل کر سکیں اور یہ حادثات اپنی تمام تر المناکیوں کے باوجود ہمارے لیے مستقبل کی بہتر صورت گری کا باعث بن جائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter