جناب محمد رفیق تارڑ ایوان صدر سے رخصت ہو کر لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر آرام کر رہے ہیں اور بعض اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ان کا ارادہ اب مطالعہ کتب اور لکھنے پڑھنے کا ہے۔ وہ ملک میں دستور کی آخری علامت کے طور پر باقی رہ گئے تھے اور شاید اسی وجہ سے انہوں نے فوجی حکام کے تقاضے پر استعفیٰ دینے سے انکار کیا مگر ان کے انکار کے باوجود انہیں پی سی او کے تحت سبکدوش کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا اور ان منتخب اداروں کے سربراہوں کو بھی ان کے مناصب سے فارغ کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب اس ملک میں دستور کی کوئی رسمی علامت بھی موجود نہیں رہی جو جنرل پرویز مشرف کے چیف ایگزیکٹو بننے سے قبل تک نافذ العمل تھا۔ اور اب ملک کا سارا نظام پی سی او کے تحت چلایا جا رہا ہے جس کی تمام تر بنیاد چیف ایگزیکٹو کی شخصی وفاداری پر ہے۔
جب جنرل ضیاء الحق مرحوم نے چوہدری فضل الٰہی مرحوم کو صدارت سے سبکدوش کرکے صدر مملکت کا منصب سنبھالا تو پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ ان دنوں شیرانوالہ گیٹ لاہور میں قیام پذیر تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ جب صدر ضیاء الحق مرحوم کے بطور صدر حلف اٹھانے کی خبر ملی، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ تشریف فرما تھے، اس موقع پر کچھ اخبار نویس آگئے، انہوں نے مفتی صاحب ؒ سے ردعمل معلوم کرنا چاہا تو مفتی صاحب نے کہا کہ یہ معمول کی کارروائی ہے اور مزید کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ اخبار نویس چلے گئے تو حضرت مولانا عبید اللہ انور ؒ نے مفتی صاحب سے پوچھا کہ حضرت یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے؟ مفتی صاحب نے دریافت کیا کہ حضرت آپ کا کیا خیال ہے؟ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ نے فرمایا کہ یہ معمولی بات تو نہیں ہے بہت بڑی بات ہے اور ”ایہہ ہتھاں دیاں دتیاں نے، دنداں نال کھولنیاں وی اوکھیاں ہوجان گیاں“۔ یعنی یہ ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں دانتوں کے ساتھ کھولنی بھی مشکل ہوجائیں گی۔ اس پر حضرت مولانا مفتی محمود ؒ کچھ متفکر ہوئے مگر فرمایا کہ اب تو میں نے جو کچھ کہا ہے کہہ چکا ہوں۔
بالکل اسی طرح کی کیفیت اب میری ہو رہی ہے کہ دستور کے حوالے سے پریشانی اور اضطراب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور ملک کے چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی و دینی حلقوں کا متفقہ دستور ہے جو قومی وحدت کی واحد علامت ہے۔ اس وقت ملک میں علاقائی، فرقہ وارانہ اور لسانی حوالوں سے جو تفریقیں دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہیں اور جو نئے نئے دستور مسائل اور تقاضے سامنے آ رہے ہیں انہیں اگر ۱۹۷۳ء کے دستور کے دائرے سے ہٹ کر چھیڑنے کی کوشش کی گئی اور اس دستوری ڈھانچے کو کراس کرکے ان مسائل کا حل نکالنے کا اختیار کیا گیا تو ملک شدید دستوری بحران سے دوچار ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر جو لابیاں اور ادارے اس سلسلہ میں متحرک دکھائی دیتے ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس خطرہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا کوئی دستوری بحران پیدا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی قومی وحدت کو نقصان پہنچانے کے لیے بین الاقومی عوامل و محرکات بھی پس پردہ سرگرم عمل ہوگئے ہیں اس لیے ملک کے سیاسی حلقوں کو یہ مسئلہ سرسری انداز میں نہیں لینا چاہیے اور اس صورتحال کے تمام تر مضمرات اور خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے ”دستور پاکستان“ کے ہر حال میں تحفظ اور اس کی جلد از جلد بحالی کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
دستور کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے خدا جانے میرے ذہن میں یہ بات کیوں باربار آرہی ہے کہ خانہ کعبہ کی موجودہ تعمیر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے خلاف ہے مگر اس کے باوجود اسے صرف اس لیے برقرار رکھا گیا تھا کہ اس کے نقشہ میں باربار ردوبدل سے امت میں خلفشار پیدا ہوگا اور ”خانہ کعبہ“ حکمرانوں کے درمیان بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا ابراہیمی نقشہ یہ تھا کہ اس کی کرسی (دروازہ) زمین کے برابر تھی دو دروازے آمنے سامنے تھے اور حطیم کا حصہ چھت کے تحت بیت اللہ میں شامل تھا جناب نبی اکرمؐ کی بعثت سے قبل مشرکین مکہ نے اسے دوبارہ تعمیر کیا تو ایک دروازہ بند کر دیا، کرسی اونچی کر دی اور حطیم کا حصہ چھت سے باہر نکال دیا، جناب نبی اکرمؐ نے ایک موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ خانہ کعبہ کو دوبارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشہ کے مطابق تعمیر کیا جائے مگر یہ فرمایا کہ قریش جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ اس بات کو محسوس کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب یزید کی بیعت سے انکار کر کے حجاز مقدس میں حکومت قائم کر لی تو انہوں نے اپنی خالہ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جناب نبی اکرمؐ کی یہ بات سن رکھی تھی اس لیے انہوں نے خانہ کعبہ کو گرا کر اسے ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کر دیا مگر جب حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو شکست دے کر اور انہیں شہید کرکے حجاج بن یوسف نے مکہ مکرمہ کا کنٹرول سنبھالا تو خانہ کعبہ کو پھر سے گرا کر اسے قریش کی طرز پر تعمیر کر دیا اس کے بعد بنو امیہ سے جب خلافت بنو عباس میں منتقل ہوئی تو عباسی خلفاء نے خانہ کعبہ کو گرانے اور جناب نبی اکرمؐ کی خواہش کے مطابق اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا جس پر اس وقت کے امام اہل سنت حضرت امام مالکؒ نے فتویٰ دیا کہ اب خانہ کعبہ اسی حالت میں رہے گا اور اسے گرا کر پھر سے تعمیر کرنا اب جائز نہیں ہے اس لیے کہ اگر ہر آنے والا حکمران اسی طرح کرتا رہے گا تو خانہ کعبہ بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ چنانچہ حضرت امام مالکؒ کے فتویٰ کے بعد عباسی حکمران اس ارادے پر عمل سے رک گئے اور تب سے خانہ کعبہ اسی طرح چلا آرہا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل بات ملی وحدت، ملکی سالمیت اور قومی خودمختاری کی ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ۱۹۷۳ء کے دستور کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا تو یہ تینوں باتیں خطرات کا شکار ہوجائیں گی، اس لیے ہمارے حکمران اور سیاسی قائدین کو اس مسئلہ پر پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دستوری ڈھانچے کے تحفظ اور بحالی کے لیے کسی مصلحت، دباؤ یا مفاد کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔