بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بحمد اللہ تعالیٰ اس سال بھی اس مسجد میں ہماری ماہانہ فکری نشست کا تسلسل جاری رہا اور ہم نے مختلف مجالس میں تصوف و سلوک کے متعدد پہلوؤں پر گفتگو کی، اگرچہ ترتیب اور جامعیت کے ساتھ یہ بات چیت حسب منشاء نہیں ہو سکی مگر چند اہم امور پر کچھ نہ کچھ بات ہو گئی، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
آج اس سال کی آخری نشست ہے اور میں اس موقع پر تصوف و سلوک کے اس پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، جس پر سب سے پہلے عرض کرنا چاہئے تھا مگر اس کی باری اب آئی ہے ، وہ یہ کہ متقدمین کے ہاں تصوف و سلوک کو فقہ و حدیث کا ہی حصہ تصور کیا جاتا تھا مگر بعد میں جب علوم کی مختلف اصطلاحات سامنے آئیں تو فقہ کو صرف احکام تک محدود سمجھ لیا گیا ور عقائد اور وجدانیات و روحانیات کو الگ علوم شمار کیا گیا۔
صاحب ’’التوضیح والتلویح‘‘ نے فقہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے کہ فقہ کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ ’’فقہ النفس ما لھا و ما علیھا‘‘ کسی شخص کا اپنے حقوق و فرائض کا پہچان لینا فقہ ہے جس کے ساتھ بعد میں ’’عملاً‘‘ کا لفظ شامل کر لیا گیا جس سے اس کا دائرہ احکام تک محدود ہو گیا جبکہ بہت سے اہل علم جن میں سرفہرست امام اعظم امام ابو حنیفہؒ ہیں فقہ کی تعریف میں ’’عملاً‘‘ کے لفظ کا اضافہ نہیں کرتے جس سے اس کے دائرہ میں احکام کے ساتھ ساتھ عقائد اور روحانیات وغیرہ بھی شامل ہو جاتے ہیں ، گویا ان کے نزدیک فقہ تین شعبوں، عقائد ، احکام اور وجدانیات یعنی سلوک و تصوف کو محیط ہے، اسی وجہ سے امام اعظم حضرت ابوحنیفہؒ نے عقائد پر جو رسالہ تصنیف فرمایا اس کا نام ’’الفقہ الاکبر‘‘ رکھا ہے۔
یہی بات میں نے کسی جگہ حضرت امام غزالی ؒکے حوالہ سے بھی پڑھی ہے کہ تصوف و سلوک اصل میں فقہ کا ہی حصہ ہے جسے بعد میں اس سے الگ سمجھ لیا گیا، جب کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے یہ بات بخاری شریف کے حوالہ سے لکھی ہے ’’الجامع الصحیح البخاری‘‘ کے تراجم ابواب پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا مستقل رسالہ یہ جو بخاری شریف کے متداول نسخوں میں اس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ بخاری شریف صرف حدیث کی کتاب نہیں ہے بلکہ ان سے قبل محدثین کرامؒ نے احادیث نبویؐ کو جن چار الگ الگ موضوعات کے حوالہ سے مرتب کیا تھا، امام بخاریؒ نے ان کو یکجا کر دیا ہے، مثلاً قرآن کریم کی تفسیر کی روایات کو اس میں اس طرح سمو دیا ہے کہ بخاری شریف کی کتاب التفسیر کے علاوہ اس کے تراجم ابواب میں قرآن کریم کی ہزاروں آیات و الفاظ کا ذخیرہ اس کا حصہ بن گیا ہے۔
اسی طرح امام بخاری ؒنے صرف احادیث مرتب نہیں کیں بلکہ ان سے ہزاروں مسائل و احکام کا استنباط بھی کیا ہے جس کا ’’فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘ کے عنوان سے ذکر ہوتا ہے، بلکہ بخاری شریف میں روایات کی تعداد کم اور ان سے استنباط کیے جانے والے مسائل و احکام کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے یہ فقہ کی کتاب بھی ہے۔
اس کے ساتھ ہی محدثین کرامؒ ’’مغازی و سیر‘‘ کے عنوان سے تاریخ کی جو روایات الگ طور پر پیش کرتے رہے ہیں امام بخاریؒ نے انہیں بھی ’’ الجامع الصحیح‘‘ کا حصہ بنایا ہے، جس سے تاریخ بھی اس میں شامل ہو گئی ہے ، پھر سلوک و احسان کی ان روایات کو بھی اس کتاب میں سمو دیا ہے جو اس سے قبل ’’زھد و رقائق‘‘ کے عنوان سے بیان کی گئی تھیں جیسا کہ خود امام بخاریؒ کے استاذ محترم حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ کی مستقل تصنیف ’’الزھد والرقائق‘‘ کے نام سے موجود ہے۔
گویا حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے نزدیک بخاری شریف پانچ علوم (۱) تفسیر (۲) حدیث (۳) فقہ (۴) تاریخ اور (۵) سلوک و احسان کا مجموعہ ہے اور تصوف و سلوک علم حدیث اور علم فقہ کے حصے کے طور پر شمار ہوتا رہا ہے۔
البتہ بعد میں جب الگ الگ علمی اصطلاحات سامنے آئیں تو سلوک و احسان کا شعبہ الگ طور پر شمار ہونے لگا اور رفتہ رفتہ ہمارے باقاعدہ تعلیمی نصاب سے خارج ہو گیا جس کا شاید امام غزالی ؒ نے بھی کسی جگہ شکوہ کیا ہے۔
میں اسے ایک اور حوالہ سے بھی دیکھتا ہوں کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک روحانیات اور اخلاقیات ہمارے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہوتے تھے، چنانچہ گلستان، بوستان، اخلاق جلالی اور مثنوی مولانا رومؒ سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں جن کا تعلق اپنے موضوع کے لحاظ سے روحانیات اور اخلاقیات کے ساتھ ہے اور طالب علم کی زندگی پر اس کے اثرات بھی ہوتے تھے، مگر اب آہستہ آہستہ ہماری تعلیم و تدریس ، فن اور علم کے دائروں میں محدود ہو کر رہ گئی ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم میں سے کم و بیش ہر شخص یہ شکوہ کرتا ہے کہ مدارس میں تعلیم تو ہوتی ہے مگر تربیت نہیں ہوتی جبکہ میری طالب علمانہ رائے میں سلوک و تصوف کے بعض رجحانات کے بارے میں عام طور پر شکایت بھی کی جاتی ہے کہ سلوک و تصوف علم و تدریس کے دائرے سے نکل کر محض عملی تجربات میں محصور ہو کر رہ گیا ہے جبکہ اگر صرف علم ہو تجربہ نہ ہو تو تربیت نہیں ہو پاتی اور صرف تجربہ ہو ، علم پر اس کی بنیاد نہ ہو تو وہ شرعی حدود کا پابند نہیں رہے گا ، اصل تصوف و سلوک وہی ہے جس کی بنیاد علم اور تجربات دونوں پر ہو اور آج ان دونوں کا امتزاج اور توازن دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے جس کے نقصانات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
اس لیے میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ ہمیں بالآخر حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے موقف کی طرف واپس جانا ہو گا کہ ’’فقہ‘‘ عقائد ، احکام اور وجدانیات تینوں پر مشتمل ہے اور ان تینوں کو تعلیم و تدریس اور عمل و تجربہ میں توازن کے ساتھ جمع کر کے ہی ہم ان کے مقاصد کو صحیح طور پر حاصل کر سکتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کی صحیح سمت راہ نمائی فرمائیں اور ہمیں اپنی دینی و علمی ذمہ داریاں صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق دیں ، آمین یا رب العالمین۔