آج گفتگو کے لیے دو موضوع سامنے ہیں اور دونوں کے بارے میں کچھ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک رؤیت ہلال کا مسئلہ ہے، جس پر رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن اور صوبہ سرحد کی حکمران جماعت اے این پی کے درمیان بحث و مباحثے کا بازار گرم رہا ہے اور دوسرا موضوع اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لیبیا کے صدر جناب معمر قذافی کا خطاب اور خطاب سے زیادہ ان کا وہ انداز ہے جو انہوں نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔
رؤیت ہلال کے حوالے سے یہ تنازعہ تو ہمارے ہاں بہت پرانا ہے کہ پشاور اور بعض دیگر قریبی شہروں کے علمائے کرام نے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے نظام پر اعتماد نہ کرتے ہوئے چاند دیکھنے کے لیے اپنا پرائیویٹ نظام بحال رکھا ہوا ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے اپنا یہ تسلسل قائم رکھا ہے۔ ایک عرصے سے ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے نظام سے ہٹ کر پشاور، مردان، چار سدہ اور دیگر شہروں کے علمائے کرام اپنے طور پر چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے مطابق رمضان المبارک اور عیدین کرتے ہیں۔
چند سال قبل متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت نے بھی ایک موقع پر رؤیت ہلال کے اس پرائیویٹ نظام کا ساتھ دیتے ہوئے صوبہ سرحد میں سرکاری طور پر اس کے مطابق عید منانے کا فیصلہ کیا تھا، جس سے یہ خلفشار بڑھ گیا تھا اور خود حکومتی نظام بھی عید کے مسئلے پر دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ اس موقع پر انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ صوبائی حکومت کا اس مسئلے میں فریق بننا درست نہیں ہے۔ اس سال اے این پی کی حکومت نے بھی وہی رول ادا کیا ہے اور دنیا نے یہ تماشہ دیکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وفاق اور تین صوبے ایک دن عید منا رہے ہیں، جبکہ صوبہ سرحد کی حکومت اور کچھ شہروں نے اس سے ایک روز قبل عید منائی۔
اب سے ربع صدی قبل پورے ملک میں یہ صورت حال تھی کہ ہر شہر کے علمائے کرام اپنے طور پر چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے تھے اور بسا اوقات ایک ہی شہر میں دو دو عیدیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر سرکردہ علمائے کرام کی کوششوں سے، جن میں مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ بھی شامل تھے، مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے قیام کا سرکاری سطح پر فیصلہ ہوا اور یہ فارمولا طے پایا کہ یہ کمیٹی تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام پر مشتمل ہو گی، اس کا چیئرمین بھی انہی میں سے ہو گا اور وہ چاند دیکھنے اور اس کا اعلان کرنے میں خود مختار ہو گی۔ چنانچہ اس کمیٹی کے قیام کے بعد سے ملک کے اکثر شہروں میں پرائیویٹ سطح پر الگ طور پر چاند دیکھنے اور اس کا اعلان کرنے کی روایت ختم ہو گئی اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان پر اعتماد کرتے ہوئے ملک بھر میں (چند محدود استثناؤں کے ساتھ) ایک ہی دن عید منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
خود ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں مرکزی جامع مسجد اسی طرح رؤیت ہلال کا مرکز ہوتی تھی، جیسے پشاور میں مسجد قاسم علی خان ہے اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام مل بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے، لیکن مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے قیام کے بعد حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے یہ سلسلہ موقوف کر دیا۔ تب سے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سمیت تمام علمائے کرام کا معمول یہ چلا آ رہا ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان پر روزہ رکھتے اور اسی کے اعلان پر عید کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے رؤیت ہلال کے نظام کا بدستور باقی رہنا اور مسلسل خلفشار کا باعث بننا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہمارے فاضل دوست ہیں، صاحبِ علم و بصیرت ہیں اور ہمارے مخدوم حضرت مولانا مفتی عبد القیوم پوپلزئیؒ کے فرزند و جانشین ہیں، لیکن اکابر علمائے کرام کی مشاورت سے قائم ہونے والے نظام پر اس قدر بے اعتمادی اور اس سے مسلسل بغاوت کا سبب سمجھ سے باہر ہے۔
جہاں تک سعودی عرب کے ساتھ عید کرنے کا تعلق ہے، مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور جناب بشیر احمد بلور کی تجویز سے اختلاف نہیں ہے۔ یہ اجتہادی مسئلہ ہے کہ اختلافِ مطالع جو حقیقتاً تو موجود ہے، لیکن کیا شرعاً اس کا اعتبار ضروری ہے یا نہیں؟ اس پر فقہاء کی آراء مختلف ہیں اور خود فقہائے احناف میں دونوں موقف پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اجتہادی مسائل کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ علمائے کرام مل بیٹھ کر حالات اور ضروریات کی روشنی میں ان میں سے جس موقف پر بھی فیصلہ کر لیں وہی درست ہے، لیکن اس کا فیصلہ اجتماعی طور پر اور قومی سطح پر ہونا چاہیے۔ اگر قومی سطح پر باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ یہ فیصلہ ہو جائے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ روزے اور عید کا نظام وابستہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، پھر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی، لیکن اس فیصلے کی اصل جگہ اسلام آباد ہے اور تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ قومی سطح کی مشاورت کے بعد ہی ایسا فیصلہ ممکن ہے۔ مگر جب تک ایسا کوئی فیصلہ اجتماعی طور پر نہیں ہو جاتا اور اسے قومی فیصلے کا درجہ حاصل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک جو نظام رؤیت ہلال کے حوالے سے قومی سطح پر موجود ہے، اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس کے طرز عمل اور فیصلوں سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اگر کوئی اختلاف دلیل کے ساتھ ہے تو وہ ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس سے پہلے اس نظام سے بغاوت کرنا اور لوگوں کو خلفشار کا شکار بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ اے این پی کی صوبائی حکومت اور اس کے ساتھ پشاور میں رؤیت ہلال کے پرائیویٹ نظام کے ذمہ دار حضرات سے اس سلسلے میں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی اپیل کرتے ہیں۔
صدر معمر قذافی گزشتہ چالیس سال سے لیبیا کے حکمران ہیں۔ ایک زمانے میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ وہ مصر کے جمال عبد الناصر مرحوم کی طرح عرب قومیت کی تحریک کی قیادت کریں گے ، لیکن ان کے مزاج میں جو تنوع ہے وہ رکاوٹ بن گیا اور نہ صرف یہ کہ معمر قذافی عرب قومیت کی تحریک کی قیادت نہ کر سکے، بلکہ عرب قومیت کی تحریک اور نعرہ بھی بتدریج منظر سے ہٹتا چلا گیا۔ بہت سے حوالوں سے جناب معمر قذافی نے اپنی انفرادیت قائم رکھی ہوئی ہے، اس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی ہوتا رہتا ہے، چنانچہ وہ اپنے چالیس سالہ دورِ اقتدار میں پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے چند روز قبل نیویارک تشریف لے گئے تو اس میں بھی انفرادیت کا یہ انداز موجود تھا ۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے اس کا بھرپور اظہار کیا۔ اپنے خطاب میں باتیں تو انہوں نے کم و بیش وہی کی ہیں جو امریکہ اور مغربی قوتوں پر تنقید کرنے والے عالمی رہنما اس فورم پر اس سے قبل بھی کر چکے ہیں، لیکن یہ باتیں اس فورم پر کہنے کے لیے جنرل اسمبلی تک پہنچنے کی غرض سے انہوں نے جو سفر کیا ہے، جو انداز اختیار کیا ہے وہ بہرحال لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا ہے اور اس ذریعے سے وہ اپنا موقف زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا عالم اسلام کے ساتھ طرز عمل اور عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر اور دیگر بہت مسلم ممالک کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے بارے میں ان کا رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جناب معمر قذافی نے اس حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ملت اسلامیہ کی ایک بہت بڑی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی ہے، لیکن خود جناب قذافی نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حیثیت لندن کے ہائیڈ پارک کارنر سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جہاں کچھ لوگ شام کو آ کر اپنے دلوں کی بھڑاس نکال کر چلے جاتے ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ لیبیا کے صدر جناب معمر قذافی اور ایران کے صدر جناب احمدی نژاد نے جنرل اسمبلی میں مظلوم اقوام، بالخصوص مسلم ممالک کے جذبات کی ترجمانی کی ہے، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے، لیکن جو کچھ ان دونوں رہنماؤں نے جنرل اسمبلی میں فرمایا ہے، ان باتوں کی اصل جگہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس ہے کہ مسلم سربراہ جمع ہوں اور ان معاملات و مسائل کا حقیقت پسندانہ بنیادوں پر جائزہ لے کر ان سے نمٹنے کے لیے اجتماعی حکمت عملی طے کریں۔ اگر مسلم حکمران اپنے طور پر مل بیٹھ کر عالم اسلام کے مسائل پر کوئی سنجیدہ موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو جنرل اسمبلی میں ہر سال کسی نہ کسی مسلم لیڈر کے اس انداز میں اظہارِ خیال کرنے سے جذبات کی تسکین کے سوا اور کیا مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟
ایک چھوٹی سی تیسری بات بھی آج کے کالم میں قارئین کو ایک اچھی خبر دینے کے لیے شامل کرنا چاہتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند نے انٹرنیٹ پر درس نظامی کے پانچ سالہ کورس کی آن لائن تدریس کا اہتمام کیا ہے، جس کا باقاعدہ آغاز ۲۰ اکتوبر سے ہو رہا ہے، اس سلسلے میں مزید معلومات اس پروگرام کی ویب سائٹ www.darululum.org سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔