زلزلہ کے آثار

   
۱۳ نومبر ۲۰۰۵ء

میں دس رمضان المبارک کو بیرون ملک سفر سے واپس پہنچا تو پہلے سے طے شدہ مصروفیات نے کسی اور طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیا۔ گکھڑ میں معارف اسلامیہ اکادمی نے چند سالوں سے شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں دورہ تفسیر قرآن کریم کا اہتمام کر رکھا ہے۔ ہمارے فاضل ساتھی مولانا داؤد احمد، جو مدرسہ مظاہر العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث ہیں، ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر پڑھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ برادرم عبد القدوس خان قارن، برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد اسماعیل محمدی اور دیگر فاضل دوستوں کے لیکچر بھی ہوتے ہیں۔ میرے لیے آخری تین پارے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جن کے ترجمہ اور ہلکی پھلکی تفسیر کے ساتھ مجھے اپنے ذوق کی کچھ باتیں طلبہ کے کانوں میں انڈیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سال ڈیڑھ سو کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات نے شرکت کی۔ ایک ہفتہ اس میں مصروفیت رہی ۔

اسی طرح آخری عشرہ میں ختم قرآن کریم کی تقریبات کا ایک مربوط سلسلہ ہوتا ہے، جس میں شہر کے مختلف حلقوں کے دوستوں سے ملاقاتوں اور رابطہ کی صورت نکل آتی ہے۔ اس سال یہ سلسلہ سترہویں شب سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ ہمارے ایک مرحوم بزرگ حاجی محمد ابراہیم کالے خان کے گھر میں تاجر حضرات کے لیے عام وقت سے ذرا تاخیر سے تراویح کا اہتمام ہوتا ہے اور دکاندار اپنے کاروبار کو سمیٹنے کے بعد اس میں شریک ہو جاتے ہیں۔ سترہویں شب کو ان کے ہاں ختم قرآن کریم تھا۔ اس کے بعد آخری رمضان تک پچیس کے لگ بھگ مقامات پر حاضری ہوئی۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ اگر رمضان میں حاضری نہ ہو تو سال کے کسی اور حصے میں وہاں دوستوں سے ملاقات و رابطہ کی کوئی صورت نہیں نکلتی، اس لیے میں ان پروگراموں میں حاضری کا ہر ممکن التزام کرتا ہوں۔

پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے رابطہ کیا کہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں حاضری کا کوئی پروگرام جلد بننا چاہیے۔ میں نے مذکورہ بالا مصروفیات کی وجہ سے عرض کیا کہ اب تو عید الفطر کے بعد ہی ممکن ہے۔ چنانچہ عید کے تیسرے دن ہم نے دو تین روز کا پروگرام بنا لیا۔ اتوار کی صبح کو قاری صاحب ایک قافلہ کے ساتھ اپنی گاڑی پر گوجرانوالہ پہنچے۔ یہ قافلہ گھر کا ہی تھا کہ ان کے دو بیٹے محمد معاویہ اور محمد زبیر، ایک بھتیجا سعدی اور ایک شاگرد راشد ساتھ تھے۔ میرے ساتھ ہمارے ایک سرگرم ساتھی ڈاکٹر محمد رفیق میر چلنے کو تیار ہو گئے اور اس طرح ہم گوجرانوالہ سے باغ آزاد کشمیر کا ارادہ کر کے روانہ ہوئے۔ قاری جمیل الرحمٰن اختر نے لاہور سے ایک چھوٹا ٹرک سامان کا بھی مہیا کر رکھا تھا، جس میں خورد و نوش کی اشیا کے پیکٹ، گرم کپڑے اور بستر وغیرہ تھے۔ ہم نے دوپہر کا کھانا کورنگ ٹاؤن اسلام آباد میں پروفیسر افتخار احمد بھٹہ کے ہاں کھایا، جو میرے بہت پرانے دوست ہیں، وزارت تعلیم میں ڈپٹی سیکرٹری رہے ہیں اور گزشتہ سال ریٹائر ہو کر کورنگ ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ دینی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

ظہر کے لگ بھگ آزاد پتن کے راستہ سے راولا کوٹ کی طرف چلے۔ ہمارا اندازہ تھا کہ مغرب تک باغ پہنچ جائیں گے، لیکن راستہ صاف نہ تھا۔ راولا کوٹ سے گزرتے ہوئے وہاں زلزلہ کے آثار دیکھے۔ بعض بلڈنگیں گری ہوئی تھیں اور بہت سی عمارتیں متاثرہ تھیں۔ آگے جانے میں جلدی تھی، اس لیے رک نہ سکے اور راولا کوٹ میں زلزلہ کے اثرات پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ارجہ کی طرف بڑھ گئے۔ ارجہ پہنچے تو عشاء کا وقت قریب تھا، اس لیے ہم نے وہاں رکنا مناسب نہ سمجھا اور آگے چل کر ہاڑی گہل کے مدرسہ امداد الاسلام میں پہلا اسٹاپ کیا، جس کے مہتمم بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاضی بشیر احمد صاحب ہیں۔ قاضی صاحب ایک عرصہ تک آزاد کشمیر میں ضلع قاضی کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور کچھ ہی عرصہ قبل ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان شریعت کونسل کے حوالے سے آزاد کشمیر میں ہماری سرپرستی کرتے ہیں اور مرکزی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل کا کوئی تنظیمی اور عملی کام تو ہوتا نہیں، علمی و فکری نوعیت کی سرگرمیاں ہوتی ہیں، جس کے لیے ہم کوئی تنظیمی ڈھانچہ کسی سطح پر تشکیل دیے بغیر ہم خیال علماء کرام اور دانشوروں کو مختلف مسائل کے حوالے سے وقتاً فوقتاً جمع کرتے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں قاضی موصوف اور دھیر کوٹ کے راجہ محمد یونس طاہر ایڈووکیٹ کے ذریعے ہم نے ایک علمی و فکری حلقہ تشکیل دینے کی کوشش کی تھی، مگر راجہ محمد یونس طاہر کی وفات کے بعد بات آگے نہ بڑھ سکی۔

ہم نے رات مدرسہ امداد الاسلام میں قیام کیا اور ٹرک والا سامان حضرت قاضی صاحب کے حوالے کر کے اپنے نصف قافلہ کو ٹرک کے ساتھ واپس کر دیا۔ مولانا قاضی بشیر احمد آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں الرشید ٹرسٹ کے کاموں کی سرپرستی کرتے ہیں اور دارالعلوم کراچی کی طرف سے کی جانے والی امدادی سرگرمیوں کے انچارج بھی رہے ہیں۔ الرشید ٹرسٹ کی امدادی سرگرمیوں کا اعتراف تو بحمد اللہ تعالیٰ بین الاقوامی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ دارالعلوم کراچی نے بھی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم کی توجہات سے زلزلہ سے متاثر ہونے والے افراد اور خاندانوں کے تعاون کے لیے خاصا سامان بھجوایا ہے اور اب بھی اس کی ترسیل جاری ہے جو مولانا قاضی بشیر احمد کی سربراہی میں علماء کرام کے ایک گروپ کی نگرانی میں مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔

ہم رات مدرسہ امداد الاسلام ہاڑی گہل میں تھے کہ الرشید ٹرسٹ کی امدادی سرگرمیوں کے نگران ملا خیل تشریف لے آئے اور رات وہیں رہے۔ ان سے ٹرسٹ کی امدادی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مجموعی صورتحال کے بارے میں بھی بہت معلومات حاصل ہوئیں اور متعدد امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا۔

پیر کی صبح کو باغ پہنچے تو ہر طرف کھنڈرات ہی کا سماں تھا۔ دارالعلوم تعلیم القرآن باغ جہاں اس سے قبل کم از کم چودہ پندرہ مرتبہ آ چکا ہوں، مگر اس دفعہ وہاں تک پہنچنے کا راستہ ہم خود تلاش نہ کر سکے۔ دکانداروں سے پوچھتے رہے کہ ہم دارالعلوم تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ بالآخر دارالعلوم ہی کے ایک ساتھی نے ہمیں دیکھ لیا اور ہم وہاں تک پہنچ پائے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا امین الحق فاروقی اور باغ کے ضلع مفتی مولانا مفتی عبد الشکور ہمارے منتظر تھے۔

دارالعلوم کی پرانی دو منزلہ عمارت ملبہ کا ڈھیر بنی ہوئی ہے اور مدرسۃ البنات کی تین منزلہ نئی عمارت بھی زمین بوس ہو چکی ہے۔ مسجد ناقابل استعمال ہے اور پورا دارالعلوم کھنڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ زلزلہ آیا تو دو منزلہ عمارت میں حفظ کی کلاسیں لگی ہوئی تھیں، افراتفری میں سب بچے نہ نکل سکے اور چوبیس بچے عمارت کے نیچے دب کر جام شہادت نوش کر گئے۔ جامعہ ام المومنین عائشہ للبنات میں بھی اسی (۸۰) کے لگ بھگ طالبات موجود تھیں۔ زلزلہ کے ساتھ نچلی منزل کی دیواریں ٹوٹیں اور چھت فرش کے ساتھ آ لگی، مگر بچیوں نے ہمت کی کہ ایک طرف تھوڑا سا خلا دیکھا تو ہمت سے کام لے کر ایک ایک کر کے اس میں سے باہر نکل آئیں۔ مولانا امین الحق خود عمرہ کے لیے حجاز مقدس گئے ہوئے تھے، ان کی اہلیہ بھی مکان کے ملبہ میں پھنس گئیں جنہیں بڑی مشکل سے نکالا گیا۔

مفتی عبد الشکور حسبِ معمول گھر سے منصبی فرائض کے لیے آئے، مگر دفتر میں جانے سے قبل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کسی کام کے لیے چلے گئے۔ وہ زلزلہ کے وقت وہاں تھے، اسپتال کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہی، وہ بہت سے ڈاکٹروں کے ساتھ جلدی میں عمارت سے بحفاظت نکل گئے اور وہیں باقی لوگوں کو سنبھالنے میں مصروف ہو گئے۔ وہ کئی گھنٹے تک وہاں مصروف رہے اور جب دفتر اور دارالعلوم کے احباب نے انہیں مسلسل غائب پایا تو یہ بات پھیل گئی کہ مفتی عبد الشکور بھی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ حتیٰ کہ میں جب لندن سے گوجرانوالہ پہنچا تو پہلی خبر یہی سنی کہ مفتی عبد الشکور جاں بحق ہو گئے ہیں۔ مفتی صاحب ہمارے انتہائی عزیز ساتھیوں میں سے ہیں، نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور حضرت والد صاحب مدظلہ کے انتہائی قریبی شاگردوں میں سے ہیں۔

مفتی صاحب کہتے ہیں کہ وہ جب چند گھنٹوں کے وقفے سے دارالعلوم تعلیم القرآن پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا بیٹا ایک دکان کے ملبے میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ درزی کی دکان پر اپنے کپڑوں کا ماپ دے رہا تھا کہ اچانک چھت دونوں پر آ پڑی اور وہ فرش اور چھت کے درمیان تھوڑے سے خلا میں پھنس کر رہ گئے۔ باہر آوازیں دیں تو باہر والوں کو انہیں نکالنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ بالآخر ایک چھوٹے سے خلا میں سے ہم نے بمشکل کھینچ کر باہر نکالا۔ دکان کی چھت اور فرش کے درمیان اس خلا اور سوراخ کو میں نے بھی دیکھا ہے اور میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ آخر اتنے سے خلا میں سے ایک زندہ نوجوان کو کس طرح نکالا جا سکا تھا، لیکن بہرحال ان کی زندگی باقی تھی، اس لیے ایسا ہی ہوا۔ مفتی عبد الشکور کا ایک بیٹا اسکول میں تھا کہ اس کی چھت گرنے سے دوسرے بچوں کے ہمراہ شہید ہو گیا۔

دارالعلوم تعلیم القرآن میں ہی ایک بزرگ سردار محمد زمان تشریف لے آئے جو آزاد کشمیر کے سابق وزیر تعلیم سردار محمد یوسف کے بھائی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دارالعلوم سے تھوڑے فاصلے پر بازار میں ان کا جنرل اسٹور ہے، جو تین منزلہ ہے۔ وہ وہاں اپنے کاؤنٹر پر بیٹھے تھے اور ان کا بیٹا ایک ملازم کے ہمراہ اوپر تیسری منزل میں سامان سیٹ کر رہا تھا کہ اچانک عمارت ہلنے لگی اور چھت ان پر آن پڑی اور وہ درمیان میں پھنس کر رہ گئے۔ ان کے آگے کاؤنٹر تھا، پیچھے دیوار تھی اور اوپر چھت سر پر آ کر رک گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ سر پر چھت کا وزن محسوس نہیں ہو رہا تھا، لیکن وہ گردن سیدھی نہیں کر سکتے تھے۔ سر ایک طرف جھک گیا تھا اور وہ مکمل طور پر جکڑی پوزیشن میں کم و بیش پانچ گھنٹے تک وہیں بیٹھے رہے۔ اس دوران وہ مسلسل دعا اور استغفار کرتے رہے اور کلمہ طیبہ کے ساتھ درود شریف پڑھتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت دل کی گہرائیوں سے کلمہ نکل رہا تھا اور میں بلند آواز سے یہ دعا کرتا رہا کہ ”یا اللہ! اس حادثہ میں میری موت ہے تو کلمہ پڑھتے ہوئے موت دینا اور اگر میری زندگی باقی ہے تو مجھے معذور نہ کرنا۔“ ان کی دعا قبول ہوئی اور جب ملبہ کھود کر انہیں پانچ گھنٹے کے بعد وہاں سے نکالا گیا تو وہ بالکل صحیح سالم تھے۔

ہمیں بتایا گیا کہ جس شب ہم ہاڑی گہل پہنچے، اسی روز شام کو آل جموں و کشمیر جمعیت علمائے اسلام کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم اپنے قافلہ کے ساتھ باغ پہنچے اور ہماری آمد سے تھوڑی دیر قبل واپس تشریف لے گئے۔ ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو ہم پروگرام میں عجلت کر کے ان کی زیارت و ملاقات کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتے، مگر خدا کو منظور نہ تھا۔

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے زلزلہ سے متاثرہ خاندانوں اور افراد کی معاونت کے لیے خصوصی توجہ فرمائی ہے اور ان کے فرزند برادرم مولانا سعید یوسف خان نے اپنے رفقاء کے ہمراہ اس سلسلہ میں بہت محنت کی ہے۔ چنانچہ ضلع باغ میں ان کی طرف سے دس ٹرک سامان اور مکانوں کی چھتوں کے لیے چار ہزار جستی چادروں کے علاوہ پچاس پچاس ہزار روپے کی مالیت کے چار بڑے ٹینٹ تقسیم کیے گئے۔ اس کے علاوہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے ان علمائے کرام، جو اس زلزلہ میں شہید ہوئے، کے ورثاء کو دس دس ہزار روپے اور دیگر علماء کرام کو پانچ پانچ ہزار روپے تقسیم فرمائے۔

باغ میں زلزلہ کے دوران شہید ہونے والوں میں میرے ایک پرانے اور بزرگ دوست سردار محمد ایوب خان صاحب بھی ہیں، جو آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے بھی پہلے سردار عبد القیوم خان کے دور حکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور اس کی قرارداد آزاد کشمیر کی اسمبلی میں سردار محمد ایوب خان صاحب نے پیش کی تھی۔ میرے ساتھ ان کا خصوصی تعلق رہا ہے اور بہت سے امور پر ہمارے درمیان مشاورت رہتی تھی۔ وہ بھی دیگر ہزاروں افراد کے ہمراہ اس زلزلہ کی نذر ہو گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون

باغ میں ہم بیس بگلہ پہنچے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دل دہل گیا۔ ابھی تین ماہ قبل ہی میں اس علاقہ سے ہو کر گیا تھا۔ دس اور گیارہ اگست کو میں نے دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کے علاوہ دھیر کوٹ، ارجہ، بیس بگلہ، غنی آباد، ملوٹ، تھب اور دیگر مقامات میں دینی مدارس کے اجتماعات سے خطاب کیا تھا۔ بیس بگلہ میں دارالعلوم فیض القرآن اور مرکزی جامع مسجد کی خوبصورت عمارت دیکھ کر دل بہت خوش ہوا تھا، مگر اب بیس بگلہ کے پورے بازار سمیت مسجد و مدرسہ کو ملبہ کے ڈھیر کی شکل میں دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگا، مگر مشیت ایزدی کے فیصلوں کے سامنے کیا چارہ ہے۔

راستہ میں ملوٹ، جگلڑی اور واپسی پر تھب کے مدرسہ امداد الاسلام کا بھی یہی حال دیکھا۔ اس مدرسہ کے مہتمم مولانا عبد الرؤف خان مدرسہ نصرة العلوم کے فاضل ہیں، مفتی عبد الشکور صاحب کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے اس مدرسہ کے لیے بڑی محنت کی ہے۔ کتابی ذوق کے آدمی ہیں، چن چن کر منتخب کتابیں انہوں نے جمع کر رکھی تھیں۔ مدرسہ البنات کی تین منزلہ عمارت اچانک اس طرح زمین بوس ہوئی کہ اوپر کی منزل کی چھت فرش کے ساتھ آ گئی اور نچلی منزل ایسے غائب ہو گئی جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ مولانا عبد الرؤف کہتے ہیں کہ میں صرف پانچ منٹ قبل اس عمارت سے نکلا تھا اور راولپنڈی جانے کے لیے ویگن پر سوار تھا کہ گاڑی اچانک ہچکولے کھانے لگی۔ میں یہ سمجھا کہ بریکیں فیل ہو گئی ہیں، لیکن جب سامنے سڑک کے کنارے دکانیں اچھل کر زمین پر جا پڑیں تو معلوم ہوا کہ یہ زلزلہ ہے۔ میں گاڑی سے نکل کر مدرسہ کی طرف بھاگا تو وہاں کا منظر ناقابلِ دید تھا۔ مدرسہ میں کچھ بچیاں موجود تھیں جو بڑی مشکل سے وہاں سے نکل سکیں اور اس طرح یہ مدرسہ اور اس کے ساتھ مسجد بھی زلزلہ کی نذر ہو گئے۔

میں نے اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے رات مولانا عبد الرؤف اور مفتی عبد الشکور صاحب کے ساتھ ان کے گھر میں بسر کی، جو ان کے زلزلہ کا شکار ہونے والے گھر کے سامنے ایک ٹینٹ کی صورت میں تھا۔ ایک بڑے ٹینٹ کو درمیان میں پردہ کر کے مردانہ اور زنانہ حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے اور یہ ان چار ٹینٹوں میں سے ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان مدظلہ نے بھجوائے تھے۔

اس ٹینٹ میں رات بسر کی تو ان حضرات کی بات ہماری سمجھ میں بھی عملاً آ گئی کہ سردیوں کے اس موسم میں، جس کا آغاز ہو گیا ہے، لوگوں کا خیموں اور ٹینٹوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے لوگوں کو خیمے اور ٹینٹ دینے کی بجائے جستی چادریں اور ملبہ سے لکڑی نکالنے کے لیے اوزار فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ اپنے مکانات کے ملبہ سے لکڑی نکال کر مکان کا ڈھانچہ کھڑا کر لیں اور ان کے اوپر جستی چادریں فٹ کر کے سردی کے اس موسم میں وہاں رہ سکیں۔

باغ میں میں نے مفتی عبد الشکور صاحب کے ہمراہ مختلف کیمپوں کا دورہ کیا۔ الرشید ٹرسٹ کے مرکز میں گئے اور امدادی سرگرمیوں کی صورت حال دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مفتی سفیر احمد ثاقب اس کام کی نگرانی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مولانا مفتی عبد الشکور، مولانا قاضی بشیر اور مولانا امین الحق ان کی سرپرستی و معاونت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جماعۃ الدعوۃ، مسلم ہینڈز اور جماعت اسلامی کے مراکز میں بھی گئے اور ان کے کام سے واقفیت حاصل کی۔ ہم اقوام متحدہ کے امدادی مرکز میں بھی گئے، جس کے انچارج فرانس سے تعلق رکھنے والے جان مارک ہیں۔ پہلے تو ہمیں دیکھ کر وہ کچھ ہچکچائے، لیکن جب انہیں یہ بتایا کہ بطور جرنلسٹ معلومات حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں تو گفتگو پر آمادہ ہو گئے اور پھر بڑی خوش دلی سے سوالات کے جوابات دیے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امدادی کام کرنے والے بیرونی اداروں اور گروپوں کے درمیان رابطہ و تعاون پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، بالخصوص ڈاکٹروں کی ٹیموں میں رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلہ میں متاثر ہونے والوں کی سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ انہیں چھت مہیا کی جائے، تاکہ وہ آنے والی سردی سے بچ سکیں۔ اس کے بعد خوراک مہیا کرنا ضروری ہے، اس کے بعد میڈیکل امداد اور اس کے بعد تعلیمی سلسلہ کی بحالی ان کی اہم ضروریات ہیں۔

باغ کے بعد ہم واپسی پر ارجہ رکے، جہاں جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الحی کی رہائش ہے اور بچیوں کا مدرسہ بھی ہے۔ میں اس مدرسہ میں متعدد بار حاضر ہو چکا ہوں، مگر اس دفعہ مدرسہ، مسجد اور اس کے ساتھ مولانا عبد الحی کے مکان کو کھنڈرات کی شکل میں دیکھا اور دل مسوس کر رہ گیا۔ مولانا عبد الحی کے دو بیٹے اور ایک پوتا اس زلزلہ میں شہید ہوئے ہیں، جبکہ دو بیٹیاں شدید زخمی ہیں۔ مگر مولانا موصوف پورے حوصلہ کے ساتھ امدادی اور جماعتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان سے تعزیت کی، حالات معلوم کیے اور انہی کے ساتھ دھیر کوٹ اور مظفر آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔ دھیر کوٹ اس زلزلہ میں زیادہ متاثر نہیں ہوا اور مولانا عبد الحی کی نگرانی میں کام کرنے والا مدرسہ انوار العلوم اور مدنی مسجد بھی بحمد اللہ محفوظ رہے ہیں۔

دھیر کوٹ جاتے ہوئے ہم غازی آباد میں رکے، جو آزاد کشمیر کے معروف سیاسی قائد سردار محمد عبد القیوم خان اور ان کے فرزند سردار عتیق احمد خان صاحب کی قیام گاہ ہے۔ دونوں سے ملاقات ہوئی اور دیگر امور کے علاوہ زلزلہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔ سردار محمد عبد القیوم خان اس سلسلہ میں خاصے پریشان ہیں کہ عالمی میڈیا بلکہ ہمارے قومی میڈیا کا ایک بڑا حصہ زلزلہ کے حوالے سے علمی و فکری مغالطے اور اشکالات پھیلا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور شیطانی قوتیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح متحرک اور مستعد ہیں، مگر دینی حلقوں کی جانب سے اس کا نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ میں نے گزارش کی کہ ہم اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی بساط کی حد تک ایسی باتوں کا جواب بھی دے رہے ہیں تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اسے زیادہ وسیع کرنے اور قومی میڈیا میں لانے کی ضرورت ہے۔

آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے اپنی گفتگو میں دو باتوں پر بطور خاص زور دیا کہ

  1. حکومت پاکستان اس زلزلہ میں ہونے والی اموات کو بہت کم کر کے دکھا رہی ہے، جس کی وجہ ہم سمجھ نہیں پا رہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں آزاد کشمیر میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں اور اگر برف باری شروع ہونے سے قبل لوگوں کو چھت مہیا نہ کی گئی تو پندرہ بیس ہزار کے لگ بھگ مزید اموات کا خدشہ ہے۔
  2. دوسری بات جو انہوں نے کہی، یہ ہے کہ امداد کے لیے آنے والوں میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کون کس مقصد کے لیے آ رہا ہے؟ اس لیے کہ اس موقع سے پاکستان اور اسلام کے دشمن بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن سے ہمیں چوکنا رہنا چاہیے۔

مولانا عبد الحی اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ہمراہ ہم مظفر آباد پہنچے تو جامعہ دارالعلوم اسلامیہ میں لاہور، ملتان، کراچی اور دیگر اطراف سے بہت سے علماء کرام آئے ہوئے تھے، جن کی آمدورفت کا سلسلہ زلزلہ کے بعد سے جاری ہے۔ جامعہ اسلامیہ کے مہتمم مولانا قاضی محمود الحسن اشرف مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ آنے والوں کی رہنمائی اور بریفنگ کا کام بھی خوبی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہاں حکومت آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر امور دینیہ مولانا مفتی محمد ابراہیم سے ملاقات ہوئی، جو شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان کے عزیز شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کے ہمراہ ہم نے مظفر آباد کے زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور ان تباہ کاریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جن کا تذکرہ اخبارات میں پڑھتے آ رہے ہیں۔

ہم نے اس موقع پر الرشید ٹرسٹ کی خیمہ بستی بھی دیکھی، جس کا ایک بلاک مکمل ہو کر رہائش کے قابل ہو گیا تھا۔ چنانچہ افتتاحی دعا میں بھی شرکت ہوئی۔ الرشید ٹرسٹ کی خیمہ بستی میں ہم نے جو اہم خصوصیت دیکھی وہ یہ ہے کہ اس میں پردہ کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے، ورنہ بہت سی دوسری خیمہ بستیوں میں اس کا پوری طرح اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے خرابیاں جنم لے رہی ہیں اور شکایات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ مگر الرشید ٹرسٹ نے خیموں کی ترتیب اور آمد و رفت کے نظم میں اس کا اہتمام کیا ہے کہ پردہ کی حدود حتی الوسع قائم رہیں اور شرعی حدود کا دائرہ نہ ٹوٹنے پائے۔

مظفر آباد میں ایک رات قیام کے بعد ہم بالا کوٹ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ہمارا دارالعلوم محمدیہ شہیدیہ جانے کا پروگرام تھا، جو خطیبِ ہزارہ مولانا قاضی خلیل احمد کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ ہمیں یہ معلوم تھا کہ جامع مسجد اور دارالعلوم دونوں زمین بوس ہو چکے ہیں اور قاضی خلیل احمد کا بیٹا، بہو اور ایک پوتا اس زلزلہ میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں، جس کے بعد قاضی صاحب مانسہرہ منتقل ہو گئے ہیں اور جمعہ کے روز تشریف لاتے ہیں۔ دارالعلوم شہیدیہ پہنچے تو وہاں بھی ملبے کے ڈھیر ہی نظر آئے۔ بالا کوٹ کی مرکزی جامع مسجد اور دارالعلوم محمدیہ شہیدیہ اس سے قبل بھی ۱۹۹۲ء کے سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں اور اب دوسری مرتبہ اس آزمائش سے گزرے ہیں۔ ملبہ کے ڈھیر پر ایک خیمہ لگائے دارالعلوم کے ناظم صاحب بیٹھے تھے اور آنے جانے والوں کو معلومات فراہم کر رہے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ مولانا قاضی خلیل احمد آج بالا کوٹ آئے ہوئے ہیں اور اپنے گھر میں موجود ہیں۔ ان سے فون پر رابطہ کیا تو کہنے لگے کہ اگر آپ کھنڈرات میں سے گزر سکتے ہیں تو گھر ہی آ جائیں۔ راقم الحروف اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر بہت سے زمین بوس مکانوں کی چھتوں کو عبور کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو وہ اپنے مکان کے ملبے میں کاریگروں کے ساتھ اس کے کسی حصہ کو قابلِ استعمال بنانے کے امکانات تلاش کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر گلے لگے اور آبدیدہ ہو گئے۔ بیٹے، بہو اور پوتے کا غم تو تھا ہی، مکان کے ملبے پر کھڑے تھے، مگر زبان پر جس صدمے کا اظہار تھا وہ یہ تھا کہ اردگرد کی مساجد بھی باقی آبادی کے ساتھ مکمل طور پر شہید ہو چکی ہیں اور کسی طرف سے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

قاضی صاحب سے ملاقات و تعزیت کے بعد ہم مانسہرہ جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ جامعہ اسلامیہ فریدیہ اسلام آباد کے امدادی کیمپ کے احباب کی طرف سے فون آ گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے ہمارے پاس بھی آئیں۔ یہ کیمپ بالا کوٹ میں مانسہرہ روڈ پر قائم ہے اور مولانا سعید اعوان کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ اس کی سرگرمیاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ حضرت مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے فرزندان گرامی مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی جس استقامت اور جذبہ کے ساتھ اپنے شہید والد کی شاندار روایات کا پرچم سربلند رکھے ہوئے ہیں، اسے دیکھ کر دل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے اور یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ پاکستان میں دینی حلقوں کا مستقبل، حال سے بہتر ہو گا۔ ظہر کی نماز اس کیمپ میں ادا کی اور نماز کے بعد چند معروضات پیش کیں، جو امدادی کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور دعا پر مشتمل تھیں۔ کھانا بھی وہیں کھایا۔

وہاں سے بالا کوٹ کی طرف روانہ ہوئے اور مدرسہ معہد القرآن الکریم مانسہرہ میں قاری محمد ارشد سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں مظفر آباد سے ہمارے بارے میں اطلاع مل گئی تھی کہ ہم ظہر تک ان کے پاس پہنچ رہے ہیں، وہ کھانا تیار کرا کے ہمارے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ قرآن کریم کے حفظ اور تجوید و قراءت کا یہ مرکزی ادارہ حضرت مولانا قاری فضل ربیؒ اور الحاج سیٹھی محمد یوسف کی حسین یادگار اور صدقہ جاریہ ہے۔ قاری محمد ارشد حضرت قاری فضل ربی کے فرزند ہیں اور اپنے والد مرحوم کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم عصر کے بعد ان کے پاس پہنچے، رات کا کھانا سمجھ کر ان کے ہاں دوبارہ کھانا کھایا۔ مولانا مفتی حبیب اللہ انور چترالی سے ملاقات ہوئی اور جمعیت علماء اسلام صوبہ سرحد کے سرگرم رہنما مولانا مفتی کفایت اللہ سے بھی تبادلہ خیال ہوا۔ میں نے ان سے زلزلہ زدگان کے حوالے سے صوبائی حکومت کے کردار کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے زخمیوں کو پچیس پچیس ہزار اور شہداء کے ورثاء کو ایک ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے اور اب تک تقریباً ایک ارب روپے اس مد میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بے گھر ہونے والوں کی آباد کاری کے لیے خیمہ بستیوں کے پروگرام کے بارے میں بھی عملی پیش رفت سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس کے لیے تیزی سے کام جاری ہے۔

حالیہ زلزلہ میں آزاد کشمیر اور ضلع مانسہرہ کے جو علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں الائی کا علاقہ بھی ہے اور اس کے اثرات بٹل، چھتر پلین اور شنکیاری تک پہنچے ہیں۔ ہم وہاں بھی جانا چاہ رہے تھے، بلکہ شنکیاری کے قریب بستیوں میں خود میرے بہت سے قریبی عزیز ان اثرات کا شکار ہوئے ہیں جن کے پاس جانا بہت زیادہ ضروری تھا، لیکن بعض اہم مصروفیات کی نوعیت ایسی تھی کہ ہم مانسہرہ سے آگے نہ جا سکے اور وہیں سے واپسی کرنا پڑی۔ امید ہے کہ آئندہ چند روز میں وہاں حاضری کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکوں گا، ان شاء اللہ

قارئین کرام! زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں چار روزہ سفر کے دوران ہم نے جو کچھ دیکھا اور جو محسوس کیا، اس کا بہت تھوڑا سا حصہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا سکا ہے، اسی سے مجموعی صورتحال کا اندازہ کر لیں۔ باقی ہم نے اس سلسلے میں کیا کرنا ہے اور ہم پر اس حوالے سے کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس کے بارے میں اپنے گزشتہ کالم میں ”علماء کرام سے چند گزارشات“ کے عنوان سے ضروری باتیں عرض کر چکا ہوں، ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر پہچان کر ان کی بروقت ادائیگی کی کوئی صورت پیدا کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter