اے پی پی کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم جناب رجب طیب اردگان نے انقرہ میں اپنی پارٹی کے ایک اجلاس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر میں فوجی بغاوت کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب جمہوریت کی نئی تعریف کی کوششوں میں مصروف ہے اس لیے اگر اخوان المسلمون نے انتخابات جیت بھی لیے تو وہ برسرِ اقتدار نہیں آئے گی کیونکہ حالیہ اقدامات سے یہ تأثر ملتا ہے کہ جمہوریت بیلٹ بکس کا نام نہیں ہے اور آج کے دانشور یہی رائے رکھتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بی بی سی کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں اسرائیل کے عبرانی زبان کے ٹی وی چینل ۱۰ کی رپورٹ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ جزیرہ سینا میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مصری فوج کے حالیہ آپریشن سے قبل مصر اور اسرائیل کے فوجی راہ نماؤں کے درمیان باقاعدہ مشاورت ہوئی ہے اور اس مشاورت کے بعد جزیرہ سینا میں جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سمیت فوجی دستے اس خطہ میں مبینہ اسلامی شدت پسندوں کے خلاف کاروائی میں مصروف ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور خبر بھی توجہ کی مستحق ہے جو بی بی سی نے نشر کی ہے کہ معزول مصری صدر محمد مرسی کے حامی ایک فلسطینی نوجوان اسلام بولی کو فلسطینی انٹیلیجینس حکام نے صرف اس لیے گرفتار کر لیا ہے کہ اس نے معزول مصری صدر کے نام پر ’’مرسی پرفیوم‘‘ تیار کر کے اس کی فروخت شروع کر دی تھی۔ فلسطینی حکام نے پرفیوم کی ساری بوتلیں اپنی تحویل میں لے لیں اور اسلام بولی کو زدوکوب کرتے ہوئے گرفتار کر کے لے گئے۔
مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد عوامی احتجاج کو جس بے دردی کے ساتھ کچلا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے کون کون لوگ مصروفِ کار ہیں وہ بھی ایک ایک کر کے بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں اور مصر اور اس کے اردگرد کا ماحول دیکھ کر یہ شعر بار بار یاد آرہا ہے کہ:
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام بہاراں کیا ہوگا
حوالہ کے لیے یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ یہ تینوں خبریں ’’پاکستان‘‘ نے ۲۲ اگست کو ’’عالمی منظر‘‘ کے صفحے پر شائع کی ہیں اور ہم اس وقت ان میں سے ایک خبر یعنی ترک وزیر اعظم جناب طیب اردگان کے بیان کے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اخوان المسلمون اگر مصر میں دوبارہ انتخابات جیت گئے تو بھی وہ برسرِ اقتدار نہیں آئیں گے اس لیے کہ امریکہ اور مغرب کے نزدیک جمہوریت بیلٹ بکس کا نام نہیں ہے اور وہ اس کی کوئی الگ تعریف طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مغرب نے جمہوریت کو اس عنوان سے دنیا میں متعارف کرایا تھا کہ ’’عوام کی حکومت، عوام پر اور عوام کے لیے‘‘ اور دنیا کو یہ سبق دینے کی کوشش کی تھی کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی سب سے بڑی طاقت ہیں، وہ دستور بھی خود بنائیں گے، قانون سازی بھی خود کریں گے اور ان کے نفاذ کی اتھارٹی بھی وہی ہوں گے۔ جبکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر یہ کہا جاتا رہا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو کسی بات کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ ہم نے پاکستان کے دستور میں منتخب پارلیمنٹ کو قانون سازی میں قرآن و سنت کا پابند بنانے کی دفعہ شامل کی تو اسے پارلیمنٹ کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا گیا اور اب تک اس کے خلاف عالمی سطح پر مہم جاری ہے۔ لیکن مغرب نے اپنے گماشتوں کے ذریعے الجزائر میں عوام کے ووٹوں سے غالب اکثریت حاصل کرنے والے اسلامک سالویشن فرنٹ کا جو حشر کیا اور مصر میں عوام کے ووٹ حاصل کر کے برسر اقتدار آنے والی اخوان المسلمون کا جو حشر کیا جا رہا ہے وہ مغرب کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے اور جناب طیب اردگان کے اس دعوے کی کھلی شہادت دے رہا ہے۔
خود ہمارے ہاں پاکستان میں منتخب پارلیمنٹ کے اکثریتی بلکہ بعض معاملات میں متفقہ فیصلوں کو جس بری طرح سے مسترد کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے، وہ بھی اس کی تائید کر رہی ہے۔ اس لیے اب یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں رہا بلکہ دنیا کے وہ تمام انصاف پسند حلقے اس سلسلہ میں ذمہ دار ہیں جو عوام کی نمائندگی، منتخب حکومت، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور رائے عامہ کے احترام کی بات کرتے ہیں، وہ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں اور جمہوریت کی آڑ میں قوموں کی خود مختاری کو پامال کرنے والوں کے خلاف کلمۂ حق بلند کریں۔
اس سلسلہ میں قارئین کی دلچسپی کے لیے اپنے ایک پرانے کالم کا ایک حصہ نقل کرنا چاہوں گا جو ’’جمہوریت، امریکہ اور عالمِ اسلام‘‘ کے عنوان سے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں اب سے بارہ سال قبل ۴ فروری ۲۰۰۲ء کو شائع ہوا تھا، ملاحظہ فرمائیں:
گزشتہ دنوں نیویارک میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کے انتظامات سابق صدر بل کلنٹن کی قائم کردہ ’کلنٹن پریسیڈنشل فاؤنڈیشن‘‘ نے کیا اور ان کے ساتھ اس سلسلہ میں نیویارک یونیورسٹی آف لاء اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مسلم کرسچیئن سنٹر نے بھی میزبانی کے فرائض میں شرکت کی۔ اس سیمینار میں دو سو کے لگ بھگ اہم مدعوئین شریک تھے اور متعدد مسلم دانشوروں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ اور عالم اسلام کے حوالہ سے امریکی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔
سیمینار کے حوالہ سے نہ تو ساری تفصیلات اس خبر کا حصہ ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے اور نہ ہی سب باتوں پر اس کالم میں تبصرہ کیا جا سکتا ہے البتہ ایک پہلو جو زیادہ قابل توجہ ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں مسلم دانشوروں نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی یکطرفہ حمایت کر رہا ہے۔ ان دانشوروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا ہے تاہم کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے تعلق سے اپنے نظم و نسق کی پالیسیوں کی مدافعت کی اور مسلم مفکرین کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ ۱۱ ستمبر سے قبل مسلم شدت پسندی کے لیے کلنٹن اور ان کے جانشین کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تاہم ساتھ ہی انہوں نے مباحثہ کے دوران ایڈرل کالج کے پروفیسر مقتدر خان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا۔‘‘
ہمیں جس نکتہ پر اظہار خیال کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ’’مسلم دانشوروں نے امریکہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا‘‘۔ جس کے جواب میں بل کلنٹن نے کسی حد تک اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا‘‘۔
مگر ہمارا موقف ان دونوں سے مختلف ہے اور پورے شرح صدر کے ساتھ ہماری گزارش ہے کہ صرف یہ بات نہیں کہ امریکہ نے مسلم دنیا میں جمہوریت کو فروغ دینے میں کوئی خاص کام نہیں کیا اور وہ مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں ناکامی کا ذمہ دار ہے، بلکہ دنیا میں جمہوریت کے فروغ کی راہ میں امریکہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں جہاں کے عام مسلمان اسلام کے ساتھ کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کے واضح رجحان سے بہرہ ور ہیں، وہاں جمہوریت کا راستہ روکا جائے، عوام کو حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کی تشکیل سے دور رکھا جائے اور دینی رجحانات کی نمائندگی کرنے والے طبقات و عناصر کو رائے عامہ اور پالیسی سازی کے مراکز کے قریب نہ آنے دیا جائے۔
امریکہ کے نزدیک جمہوریت کوئی اصول اور فلسفہ نہیں ہے کہ وہ اسے دنیا کے ہر خطے میں کار فرما دیکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جسے امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فلسفہ و ثقافت کے فروغ اور مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور جمہوریت کے اولین دعوے داروں کے اسی طرز عمل نے خود جمہوریت کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس پس منظر میں ترکی کے وزیر اعظم جناب رجب طیب اردگان کا مذکورہ بالا ارشاد پڑھ کر ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ جو بات اس سے قبل صرف ہم کارکنوں کی زبانوں پر تھی اب مسلم دنیا کے مقتدر حضرات کی زبانوں پر بھی آرہی ہے، لیکن اس کے ساتھ جناب طیب اردگان سے ہماری گزارش ہے کہ وہ عالم اسلام کے ہم خیال حکمرانوں کو اعتماد میں لے کر اس مخمصہ سے عالم اسلام کو نکالنے کے لیے راہ نمائی بھی کریں۔ ہم ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں نظرِ بد سے محفوظ رکھیں اور عالمِ اسلام کی بہتر سمت راہ نمائی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔