’’مذہبی جماعتیں اور قومی سیاست‘‘

   
۱۸ اکتوبر ۲۰۰۷ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ تبارک و تعالیٰ ونصلی و نسلم علیٰ رسولہ الکریم و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے پر عمل میں آیا تھا اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے ایک نظریاتی اسلامی ریاست کی تشکیل کے جذبہ کے ساتھ اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں، مگر قیام پاکستان کے بعد سے اس مملکت خداداد میں اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کے احکام کی عمل داری کا مسئلہ ابھی تک مسلسل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ اس کے اسباب میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ مذہبی قوتوں نے نفاذ اسلام کے لیے اپنی ساری تگ و تاز کا ہدف انتخابی سیاست کو قرار دے رکھا ہے، جبکہ جدوجہد کے دیگر فکری و نظریاتی اور عملی تقاضوں کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

ہمارے نزدیک آج کے دور میں نفاذ اسلام کی جدوجہد جن عملی تقاضوں کو پورا کیے بغیر کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتی، انہیں مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے راہنما اور کارکن آج کی عالمی سیاسی صورتحال، جدید سیاسی افکار اور نظاموں، عالمی تہذیبی و سیاسی کشمکش اور فکری و ثقافتی تصادم، نیز مستقبل کے گلوبل ماحول میں دنیا کی قیادت اور اس پر تسلط کے لیے آگے بڑھنے والی قوتوں اور ان کے ایجنڈے، طریق کار اور ہتھیاروں سے پوری طرح واقفیت حاصل کریں، اور اس وسیع تناظر کو سامنے رکھ کر اپنی جدوجہد کی حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کریں۔
  • دینی جماعتیں، مختلف مذہبی مکاتب فکر، علمی مراکز اور نفاذ اسلام کا جذبہ رکھنے والے حلقے اس مقصد کے لیے انفرادی محنت کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور مشترکہ جدوجہد کا بھی اہتمام کریں، اسے اپنی ترجیحات میں اولیت دیں، ایک دوسرے کے تجربات اور اثر و رسوخ سے استفادہ کریں، باہمی مشاورت و مفاہمت کو اپنے مستقل پروگرام کا حصہ بنائیں، اور جدوجہد کے روایتی و جذباتی انداز سے آگے بڑھ کر شعوری، تکنیکی اور سائنٹفک طریق کار اختیار کریں۔
  • پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں حائل حقیقی رکاوٹوں کا ادراک کیا جائے، ان کی نشان دہی کی جائے، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے اور انہیں دور کرنے کی منظم حکمت عملی اختیار کی جائے۔
  • اسلامی نظام اور اسلامی احکام و قوانین کے بارے میں جدید تعلیم یافتہ طبقوں اور نئی نسل کے ذہنوں میں آج کے عالمی حالات اور مغربی فکر و فلسفہ کے تناظر میں جنم لینے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کو نظر انداز کرنے اور مسترد کر دینے کی بجائے انہیں سنجیدگی کے ساتھ سنا جائے اور علمی و منطقی طور پر ان شکوک و شبہات کے ازالے کی کوشش کی جائے۔

میرا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۹۰ء تک جمعیت علمائے اسلام کی دینی و سیاسی جدوجہد کا متحرک کردار رہا ہوں۔ اس کے بعد بھی جمعیت علمائے اسلام ہی کا ’’غیر فعال‘‘ کارکن ہوں، تاہم جدوجہد کے مذکورہ تقاضوں کے پیش نظر میری عملی محنت کا دائرہ تحریکی، انتخابی اور سیاسی سرگرمیوں سے ہٹ کر تعلیمی، فکری اور نظریاتی محاذ پر مرکوز ہے اور تحریر و تقریر اور لابنگ کے میسر ذرائع سے اس کے لیے حتی الوسع تگ و دو کر رہا ہوں، اور اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ اور ملک کے اندر ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ اور ’’الشریعہ اکادمی‘‘ کے پلیٹ فارم میری سرگرمیوں کی جولان گاہ ہیں۔

نفاذ اسلام کے لیے دینی حلقوں کی اختیار کردہ حکمت عملی میں پائے جانے والے مختلف نقائص اور خامیوں کے حوالے سے راقم الحروف بھی وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہے اور اس زاویے سے صورتحال کا جائزہ لینے والے دیگر اہل فکر کی تحریروں میں بھی اس کے مختلف پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے ان میں سے بعض منتخب تحریروں کو زیر نظر مجموعہ کی صورت میں یکجا کر دیا ہے جسے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کیا جا رہا ہے۔ ان تحریروں سے جہاں اس امر کا اندازہ کرنا آسان ہوگا کہ مذہبی جماعتیں لوگوں کی توقعات کے مطابق نفاذ اسلام کی طرف مؤثر پیشرفت کیوں نہیں کر سکیں، وہاں مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی راہیں بھی تلاش کی جا سکیں گی۔ دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس مجموعے کو نفاذ اسلام کی جدوجہد میں ایک خدمت کے طور پر قبول فرمائیں اور اسے ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter