عالمی طاقتوں کا دوغلا طرز عمل

   
یکم اگست ۲۰۰۶ء

لبنان میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے اور فلسطین و لبنان کے عوام مسلسل اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، مگر دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ لبنان پر حملے کے لیے اسرائیل نے جس بات کو جواز کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ اس جواز سے مختلف نہیں ہے جو امریکہ نے افغانستان اور عراق پر فوج کشی کے لیے پیش کیا تھا۔ مگر آج تک اس جواز کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کی جا سکی جو طاقت کے علاوہ کسی اور پہلو کی بھی نشاندہی کرتی ہو۔

بچپن میں ایک کہاوت سنی تھی کہ ایک بھیڑیا نہر کے کنارے پانی پی رہا تھا کہ ایک بکری کو دیکھ کر دھمکانے لگا کہ میرا پانی کیوں جھوٹا کر رہی ہو؟ اس نے جواب میں کہا کہ میں تو اس طرف سے پانی پی رہی ہوں، جبکہ آپ کی طرف سے پانی آرہا ہے، اس لیے میں اسے کیسے جھوٹا کر سکتی ہوں۔ بھیڑیا یہ سن کر غرایا اور یہ کہتے ہوئے اس نے بکری کو آ دبوچا کہ اچھا آگے سے بولتی بھی ہو؟ فلسطینیوں اور لبنانیوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بول بھی رہے ہیں اور اسرائیل کے وحشیانہ مظالم اور جبر و تشدد کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنے، بلکہ اس پر اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس پر شور مچا رہے ہیں اور واویلا کر کے دنیا کو متوجہ کر ہے ہیں۔

امریکہ بہادر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اس لیے ایسی کاروائی کرنے کا بھی اسے حق ہے اور وہ اسے جنگ بند کرنے کے لیے نہیں کہے گا۔ یہ دفاع کا حق اسی طرح کا ہے جیسے امریکہ نے اپنے تحفظ کے لیے عراق کو ممنوعہ ہتھیاروں سے محروم کرنے کی پلاننگ کی تھی اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ کہتے ہوئے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی کہ عراق کے پاس ممنوعہ ہتھیار ہیں، جن سے دنیا کو خطرہ ہے، لیکن وہ ہتھیار آج تک دستیاب نہیں ہو سکے۔ اسی طرح دو اسرائیلیوں کے اغوا کا مسئلہ بھی ایک بہانہ ہے اور خود اسرائیلی حلقوں میں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے، چنانچہ اسرائیل کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر افرائیم اینبار نے ایک عرب ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اسرائیلی رائے عامہ کے خیال میں یہ صرف دو فوجیوں کے اغوا کی بات نہیں، بلکہ دراصل اسرائیل ’’حزب اللہ‘‘ کو جنوبی لبنان سے باہر دھکیلنا اور اس کی فوجی صلاحیت کو نقصان پہچانا چاہتا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں موجودہ پوزیشن میں حزب اللہ سے اسرائیل کی بڑی آبادی کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لبنان میں جنگ ختم کرانے کا فیصلہ امریکہ ہی کرے گا، کیونکہ وہ جب یہ محسوس کرے گا کہ اب بہت کچھ ہو چکا، اس لیے اسرائیل کو اب وہ پالیسی اختیار کر لینی چاہیے جو امریکہ کے لیے قابل قبول ہے، تو جنگ بندی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

ادھر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنے ہفتہ وار خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کہ جنگ بندی کے لیے کثیر ملکی فوجیں جلد لبنان میں بھیجی جانی چاہئیں اور حزب اللہ کو ہر صورت میں غیر مسلح کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ لبنان میں اسرائیل کی فوج کشی کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے۔ اسے اگر فلسطین میں حماس کو غیر مسلح کرنے کے امریکی مطالبے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ ساری کاروائی حماس اور حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت اور تسلط کے خلاف مزاحمت کے امکانات کو مکمل طور پر ختم کر دینے کی غرض سے کی جا رہی ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کے کردار اور رویے کو دیکھا جائے تو وہ اپنے قیام کے بعد سے مسلسل جارحیت کا مرتکب ہے اور انصاف کے مسلمہ اصولوں کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے عرب عوام بالخصوص فلسطینیوں اور لبنانیوں پر عرصہ حیات تنگ تر کرتا جا رہا ہے۔ مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسرائیل کی نسل پرستی اور نسل کی بنیاد پر ریاست کے قیام و استحکام کی کوششیں ہی مذکورہ عالمی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار پاتی ہیں، پھر فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد کو ان کے وطن سے محروم کر کے اور فلسطین کو تقسیم کرتے ہوئے اس کے ایک حصے پر اسرائیل کے قیام کی اس صورتحال پر بھی قناعت نہ کرتے ہوئے طاقت اور امریکی پشت پناہی کے بل پر اردگرد کے مزید علاقوں پر اس کا قبضہ کرنا اور اس کے لیے تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحدوں کو بھی پامال کر دینا اس کی جارحیت اور ہٹ دھرمی کی کھلی دلیل ہے۔

اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو مستقل اور خودمختار ریاستیں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے سعودی عرب سمیت بہت سے عرب ممالک اور پاکستان و دیگر مسلم ممالک نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا کہ یہ انصاف کے مسلمہ اصولوں اور اقوام کی آزادی اور خود مختاری سے متصادم ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے اس فیصلے کا خود یہ فیصلہ کرنے اور اسے تسلیم کرنے والوں نے کیا حشر کیا ہے، اسی سے اس بدنیتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو یہ فیصلہ کرتے وقت فیصلہ کرنے والوں کے ذہنوں میں تھی۔

ایک طرف اسرائیل کا حال یہ ہے کہ وہ ان سرحدوں پر قانع نہیں رہا جو اس کے لیے اقوام متحدہ کے اس فارمولے میں طے کی گئی تھی، اور اس نے بین الاقوامی سرحدیں عبور کر کے اردگرد کے متعدد ملکوں کی زمین پر قبضہ جما رکھا ہے جس میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ اسرائیل ابھی تک فلسطینیوں کے لیے آزاد اور خودمختار ریاست کا حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے نزدیک فلسطینی ریاست کا تصور صرف یہ ہے کہ اسرائیلی عملداری کے اندر فلسطینیوں کو اندرونی طور نیم خود مختار اور میونسپلٹی طرز کی حکومت دے دی جائے جس کے پاس کوئی فوج نہ ہو اور نہ اس کی کوئی خارجہ پالیسی ہو، بلکہ وہ اسرائیل کی ایک لے پالک ریاست کی طرح علاقائی اور عالمی مسائل میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہے۔

عسکری طور پر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اسرائیل کو اس قدر طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کے پاس موجود اسلحہ کے ذخائر اردگرد کے تمام عرب ممالک کے لیے خطرہ ہیں۔ اب اسرائیل نے بین الاقوامی سرحد ایک بار پھر عبور کر کے لبنانی عوام کو فوج کشی کا مسلسل نشانہ بنا رکھا ہے، مگر امریکہ اس کو بین الاقوامی سرحدوں کی پابندی کی تلقین کرنے کی بجائے اس کے اس مکروہ عمل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

موجودہ عالمی قوتوں کے انصاف کا معیار یہ ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے کویت پر فوج کشی کی تھی تو یہ ساری قوتیں مل کر صدام حسین کے عراق پر چڑھ دوڑی تھیں اور بزعم خویش بین الاقوامی سرحد کے تقدس کو بحال کیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے بین الاقوامی سرحد کی حرمت کو پامال کیا ہے تو یہی عالمی قوتیں بین الاقوامی سرحد عبور کرنے والے ملک کے ساتھ ہیں اور کثیر ملکی فوجیں اس حملہ آور ملک کے خود ساختہ مفادات کے تحفظ کے لیے لبنان میں آنے والی ہیں۔ گویا وہی کثیر ملکی فوجیں جو عراق میں صدام حسین کو بین الاقوامی سرحدوں کی پامالی کی سزا دینے کے لیے آئی تھیں، وہ لبنان میں اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی سرحدوں کی پامالی کو تحفظ دینے کے لیے براجمان ہوں گی۔

اس صورتحال میں سب سے زیادہ افسوسناک کردار ان مسلم حکمرانوں کا ہے، جو ایک برادر اسلامی ملک کی سرحدوں کی پامالی اور وہاں کے عوام پر ہونے والے وحشیانہ جبر کو ایسی خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، جیسے ان کی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ہوں۔ انہیں نہ مظلوم عوام کا بہتا ہوا خون دکھائی دے رہا ہے، نہ کسی برادر ملک کی سالمیت اور خود مختاری پر کھلم کھلا حملہ نظر آرہا ہے، اور نہ ہی کسی اصول اور قانون کی پامالی ان کی نگاہوں کے دائرے میں آرہی ہے۔ وہ تین ہفتوں تک مظلوم فلسطینی و لبنانی عوام کے قتل عام کا تماشا دیکھنے کے بعد او آئی سی کے فورم پر جمع ہونے والے ہیں تو وہ بھی اس لیے نہیں کہ اسرائیلی جارحیت کا راستہ روکنے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں، بلکہ اس لیے کہ اسرائیل کی برائے نام مذمت کی رسم ادا کرنے کے بعد اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لبنان میں کثیر ملکی فوج بھجوانے کی کاروائی کو سند جواز فراہم کریں، اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ لبنان میں کثیر ملکی فوج امریکہ اور اسرائیل کے مقاصد کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ خود ہماری خواہش پر ہماری حفاظت اور ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے متعین کی جا رہی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter