دستور کی بالادستی اور حکومتی رویہ

   
۱۰ فروری ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے جو یقیناً خوش آئند بات ہے اور اس سے مذاکرات کے نتیجے میں صورت حال بہتر ہونے کی امید بہرحال بڑھ گئی ہے۔ لیکن مذاکراتی ٹیموں اور ان سے زیادہ میڈیا کے مختلف ذرائع نے شریعت اور آئین کو آمنے سامنے کھڑا کر دینے کا جو ماحول بنا دیا ہے وہ تشویشناک ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شریعت اور آئین دونوں ملک کی ضروریات میں سے ہیں بلکہ وطن عزیز کے قیام اور بقا کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں جو کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے یا عمدًا بڑھایا جا رہا ہے وہ دونوں طرف کے اصحابِ فکر و دانش کے لیے قابل توجہ ہے۔

دستورِ پاکستان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ہے، اس میں جمہور اور ان کے نمائندوں کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا پابند قرار دیا گیا ہے اور ملک میں غیر شرعی قوانین کو ختم کر کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے اس دستور کو شریعت سے متصادم قرار دینے کی بات دستور اور اس کی تشکیل کے لیے اکابر علماء کرام کی جدوجہد کی نفی اور اس سے انحراف کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس دستور کی تدوین و ترتیب اور اسے اسلامی دستور قرار دینے والوں میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحکیمؒ ، مولانا نعمت اللہؒ ، مولانا صدر الشہیدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا محمد ذاکرؒ ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ ، اور پروفیسر غفور احمدؒ جیسے اکابر اہل علم و دانش شامل ہیں اور اس دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے والوں میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبد اللطیفؒ ، مولانا حسن جانؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، مولانا نور محمدؒ ، مولانا محمد احمدؒ ، اور مولانا عبد المالک خان کے نام نمایاں ہیں۔

دستور کے حوالہ سے اہلِ دین کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دستور اسلامی ہے یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا منافقانہ رویہ ہے جس نے دستور کی اسلامی دفعات کو عملاً معطل رکھا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ سرے سے دستور سے انکار کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اہل دین متحد ہو کر ایک زبردست عوامی تحریک کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے اور دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد پر آمادہ کریں۔ شریعت کے نفاذ کے خواہاں حلقے اگر اس کا اہتمام کر سکیں تو نفاذِ شریعت کی منزل زیادہ دور نہیں ہے۔

دستور کے حوالہ سے ایک مغالطہ عام طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ اسلام میں تحریری دستور اور تحریری قوانین کی کوئی روایت موجود نہیں ہے بلکہ براہ راست قرآن و سنت ہی دستور اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں دستور و قانون کا پہلا باضابطہ مجموعہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے امیر المومنین ہارون الرشیدؒ کی فرمائش پر ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے مرتب کیا تھا جس میں اگرچہ بنیادی امور بیت المال اور اس سے متعلقہ مسائل پر مشتمل ہیں۔ جبکہ انتظامی اور امارتی امور بھی اس میں بہت حد تک شامل ہیں۔ یہ دستور و قانون امیر المومنین کی فرمائش پر لکھا گیا تھا اور عباسی سلطنت میں باقاعدہ نافذ العمل رہا ہے۔

اسی طرح ’’الأحکام السلطانیہ‘‘ کے نام سے الماوردیؒ اور قاضی ابو یعلیؒ کی معرکۃ الآراء تصانیف قانون و دستور کی باقاعدہ تدوین و تشکیل کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ دورِ جدید کی بات نہیں بلکہ قرون اولیٰ کے دور کی علمی خدمات ہیں جن سے اب تک مسلسل استفادہ کیا جا رہا ہے۔ پھر سلطان اورنگزیب عالم گیرؒ کے دور میں ’’الفتاویٰ الہندیہ‘‘ کے نام سے جو علمی کام ہوا وہ صرف فتاویٰ نہیں تھے بلکہ ملک کے دستور و قانون کے طور پر مرتب کیے گئے تھے اور پورے برصغیر میں ۱۸۵۷ء تک نافذ العمل رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کے جمہور علماء کرام نے قرارداد مقاصد، ۲۲ متفقہ دستوری نکات اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کی صورت میں جو اجتہادی کام کیا ہے وہ نئی اختراع نہیں ہے۔ بلکہ امام ابو یوسفؒ ، قاضی ابو یعلیؒ ، الماوردیؒ ، اور اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور کے ان سینکڑوں علماء کرام کی اجتماعی علمی جدوجہد کا تسلسل ہے جو اسلام کے اصولوں اور تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس سے انحراف درست طرز عمل نہیں ہے۔

دوسری طرف یہ تاثر دینا بھی گمراہ کن بات ہے کہ شریعت کا نفاذ صرف طالبان کا مطالبہ ہے اور اس کا دائرہ صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود ہے۔ اس لیے کہ شریعت اسلامی کا نفاذ خود دستور پاکستان کا تقاضہ ہے، قیام پاکستان کا مقصد ہے اور پوری قوم کی اجتماعی ضرورت ہے۔ اس کی صرف دو تازہ مثالیں نمونہ کے طور پر پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ سود کے مسئلہ پر خود حکومت اب اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے کہ غیر سودی نظام کو اپنانا ملکی معیشت کو صحیح رخ پر لانے کے لیے ناگزیر ہے اور دوسری یہ کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سپریم کورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے حضرت عمرؓ کے نظام کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا نظام اور غیر سودی بینکاری کیا ہے؟ یہ دونوں شریعت اسلامیہ ہی کے اہم شعبے ہیں جو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لیے ناگزیر ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے ’’شریعت بل‘‘ کے نام سے جو بل منظور کرایا تھا وہ یقیناً انہیں یاد ہوگا، اس میں اگرچہ قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دیتے ہوئے حکومتی نظام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جس پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن کیا میاں محمد نواز شریف نے یہ بل واپس لے لیا ہے اور کیا ان کی حکومت اس ’’شریعت بل‘‘ پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھتی؟ سرِدست حکومتی نظام کو کچھ عرصہ کے لیے مستثنیٰ سمجھ کر قومی زندگی کے باقی شعبوں میں ہی اس ’’شریعت بل‘‘ کے نفاذ اور عملدرآمد کا اہتمام کرلیں۔ لیکن اس سے آنکھیں بند کر لینا اور شریعت کو صرف طالبان کا مسئلہ قرار دے کر مسلسل نظر انداز کیے چلے جانا دینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کوئی جواز نہیں رکھتا۔ میاں صاحب محترم کو سیکولر لابیوں اور عالمی استعمار کی ان سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو انہیں بتدریج شریعت اور شریعت بل سے دور لے جانے کے لیے کر رہی ہیں اور میاں صاحب کے گرد بھی ایک مخصوص حصار ہے جو اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

ہماری ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ طالبان کو دستور پاکستان کے بارے میں مغالطوں کے دائرے سے نکل کر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اور حکومت کو شریعت سے مسلسل بے اعتنائی کے طرز عمل کا جائزہ لے کر سیکولر لابیوں کے خول سے باہر نکلنا چاہیے۔ اگر دونوں فریقوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور پاکستان امن و سلامتی اور شریعت کی بالادستی کے حوالہ سے ایک خوشگوار مستقبل کا آغاز نہ کر سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter