(’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی و فکری مکالمہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر تحریر کیا گیا۔ )
نحمدہ تبارک و تعالیٰ و نصلی و نسلم علیٰ رسولہ الکریم و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ مکمل اور پھر کسی بھی نئی نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد قیامت تک دین کی حفاظت اور نئے پیش آنے والے مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلاش کرنے کے لیے جو نظام امت کو دیا گیا اور جو گزشتہ چودہ سو برس سے کامیابی کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دیتا چلا آ رہا ہے، اسے تجدید و اجتہاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجددین اور مجتہدین کا ایک مربوط اور مسلسل سسٹم ہے جو کسی تعطل اور تساہل کے بغیر مصروف کار ہے، اور چونکہ دین کی حفاظت کا قیامت تک خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اس لیے اس کی تکوینی حکمت کے تحت وجود میں آنے والا یہ نظام بھی اسی طرح قیامت تک قائم رہے گا۔ تجدید اور اجتہاد دونوں کی بنیاد جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی ایک معجزہ کے طور پر حدیث اور تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جہاں مجتہدین ہر زمانے میں لوگوں کو پیش آنے والے مسائل کا استدلال و استنباط اور اجتہاد و قیاس کے ذریعے سے قرآن و سنت کے ساتھ ربط قائم رکھیں گے، وہاں دین میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جو غیر متعلقہ چیزیں شامل ہوتی رہیں گی، ان کی چھانٹی کر کے دین کو اس کے اصلی رنگ میں پیش کرنے کے لیے مجددین بھی وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے۔
’’اجتہاد‘‘ کا تعلق نئے پیش آمدہ حالات اور مسائل سے ہے جبکہ ’تجدید‘‘ کا تعلق ادھر ادھر سے دین کے نظام کا حصہ بن جانے والی چیزوں کی چھانٹی کر کے اسے خیر القرون یعنی صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور اتباع تابعینؒ کے مثالی ادوار کی روشنی میں ازسرنو پیش کرنے سے ہے، اور اب تک جتنے بزرگوں کے حوالے سے بھی تجدید دین کی خدمات کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے، ان کی تجدیدی مساعی کا دائرہ یہی دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح ’’اجتہاد‘‘ کا تعلق اسلام کے مستقبل سے ہے اور ’’تجدید‘‘ اس کے ماضیٔ قدیم کی حفاظت کا عنوان ہے۔
البتہ گزشتہ چند صدیوں سے تجدید اور اجتہاد کے ساتھ ساتھ ایک نئی اصطلاح اسلام کی تعبیر نو اور اسلامی علوم کی تشکیل نو کے عنوان سے سامنے آ رہی ہے جس کا وجود اسلامی تاریخ کے پہلے ہزار سال میں نہیں ملتا، مگر اب اسے اجتہاد اور تجدید کے متبادل بلکہ نعم البدل کے طور پر پیش کرنے کے لیے بہت سے ارباب دانش کی صلاحیتیں مسلسل صرف ہو رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ان دونوں سے قطعی مختلف بلکہ متضاد چیز ہے اور ہمارے خیال میں اس کی بنیاد کسی داخلی ضرورت پر نہیں بلکہ خارجی اثرات کے تحت اس نے ہمارے ہاں ایک مستقل فکر کی حیثیت اختیار کر رکھی ہے۔
اب سے کم و بیش پانچ صدیاں قبل جرمنی کے ایک مسیحی راہنما مارٹن لوتھر نے مسیحیت کی تعبیر و تشریح کے پاپائی سسٹم کو سائنسی ترقی اور بادشاہت و جاگیرداری سے نجات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور مسیحیت کی تشکیل نو کی بنیاد رکھی تھی، جس کے تحت مسیحیت کا پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور بالآخر مسیحی مذہب سے معاشرے کی بغاوت اور سوسائٹی کے معاملات سے مذہب کی لاتعلقی کا عنوان بن گیا۔ چونکہ اس کی کوشش سیاسی و معاشرتی عوامل کے باعث کامیاب ہوئی اور اس کی فکر نے نئے عالمی فکر و فلسفہ و ثقافت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، اس لیے ہمارے بہت سے دانشوروں کو بھی سوجھی کہ وہ اسلام کی تعبیر نو اور اسلامی علوم کی تشکیل نو کا بیڑا اٹھائیں، یہ دیکھے بغیر کہ جو اسباب و عوامل مارٹن لوتھر کے سامنے مسیحیت کی تعبیر و تشریح کے روایتی نظام کو مسترد کرنے کے لیے موجود تھے ان کا ہمارے ہاں کوئی سراغ پایا جاتا ہے یا نہیں، یا جو نتائج مذہب سے انحراف اور معاشرے سے مذہب کی مکمل بے دخلی کی صورت میں مارٹن لوتھر کی تحریک کے حصے میں آئے ہیں، کیا ہم ان نتائج کے متحمل ہو سکتے ہیں بلکہ کیا ان کے امکانات بھی موجود ہیں؟
ہمیں اس سلسلے میں اپنے بہت سے دانشوروں کی نیت اور مقاصد سے غرض نہیں۔ یقیناؐ بہت سے دوستوں نے نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس ’’کار خیر‘‘ کا آغاز کیا ہوگا، وہ اس سے بلاشبہ اچھے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہوں گے۔ اور آج کے دور میں اس سے ’’اچھا ہدف‘‘ اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے کہ اسلام کو آج کے جدید ماحول اور مغرب کے، طاقت اور میڈیا کے زور پر غلبہ پانے والے فکر و فلسفہ سے ہم آہنگ ثابت کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کی ایسی تعبیر و تشریح سامنے لائی جائے جس سے مغرب کے اعتراضات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ ہمارے نزدیک اس طرز عمل کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں اس سوچ سے ضرور ملتے ہیں کہ جو فکر و فلسفہ غالب ہوتا ہے، بہرحال حق بھی وہی ہوتا ہے اور مغلوب فلسفہ و فکر کو اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے لچک پیدا کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سنجیدہ، راسخ العقیدہ اور روایتی مسلم علماء کے ہاں یہ سوچ راہ نہیں پا سکی اور اس سوچ کو پھیلانے کے لیے دنیائے اسلام کے جس حصے میں بھی کوئی فکری حلقہ کھڑا ہوا ہے، اسے ایک محدود دائرے سے ہٹ کر پذیرائی نہیں ملی۔
جہاں تک اجتہاد اور تجدید کا تعلق ہے، امت مسلمہ میں یہ دو ادارے جو کام پہلے کرتے تھے، بعض کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود وہی کام اب بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کی ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مسلمات کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں، بلکہ ہم خود بھی ایسی کوششوں کا حصہ ہیں۔ لیکن مارٹن لوتھر کی طرز کی تشکیل نو کو، جس کا مقصد دین کی تعبیر و تشریح کے چودہ سو سال سے چلے آنے والے روایتی فریم ورک کو سبوتاژ کر کے دین سے پروٹسٹنٹ طرز کی بغاوت کی راہ ہموار کرنا ہو، اسے نہ اجتہاد قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ تجدید ہی کے عنوان سے اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ اور ’’تجدید‘‘ کا مفہوم امت کے ہاں معروف ہے اور ان کا دائرہ کار بھی پہلے سے طے ہے جسے ممتاز مجتہدین اور مجددین کی اجتہادی اور تجدیدی خدمات کی روشنی میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں اس طرز کے فکری حلقوں کی ایک تاریخ ہے جو اپنا اپنا کام کر کے تاریخ کی نذر ہو گئے اور اب ان کے نام کتابوں میں معلوم کیے جا سکتے ہیں، جبکہ اب بھی بہت سے حلقے اس خدمت کی انجام دہی کے لیے متحرک ہیں جو اپنی اپنی بولی بول کر چلے جائیں گے۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے فکری حلقہ کو ہم اساسی طور پر اس فہرست میں شمار نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کے علم، صلاحیت اور خلوص سے ابھی بہت سی توقعات وابستہ ہیں، لیکن اس فکری محنت کے نتائج پر نظر ڈالتے ہوئے ہمیں یقیناً خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ راستہ بھی ’’ترکستان‘‘ ہی کو جاتا ہے۔ غامدی صاحب نے جس انداز سے دین کی بنیادی اصطلاحات کی تشکیل نو کی ہے اور اصطلاحات کے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے مفہوم و مصداق کے حوالے سے جو نیا تانابانا بنا ہے، وہ اجتہاد اور تجدید کے قدیمی اور روایتی مفہوم کے بجائے تشکیل نو (Reconstruction) کے دائرے میں آتا ہے۔ ہمارا ان سے اصولی اختلاف یہی ہے اور ہم پورے شرح صدر اور دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں بھی دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیل نو کی بات ہوگی، دین کی بنیادی اصطلاحات کو نئے معانی دے کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اور امت کے چودہ سو سالہ علمی ماضی کے خلاف بے اعتمادی کی فضا پیدا کر کے نئی نسل کو اس سے کاٹنے کی سوچ کارفرما ہوگی، وہاں ایسی کوششوں کا عملی نتیجہ گمراہی کا ماحول پیدا کرنے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوگا۔
ہم نے اسی جذبہ اور خیال کے تحت محترم جاوید احمد غامدی کے بعض افکار پر نقد کیا تھا جس کا ان کے بعض شاگردوں نے جواب دیا اور اس طرح ایک مکالمہ کی فضا بن گئی۔ یہ بحث جنوری ۲۰۰۱ء سے اپریل ۲۰۰۱ء تک ابتدءًا روزنامہ اوصاف، روزنامہ جنگ، اور روزنامہ پاکستان کے صفحات پر چلتی رہی، اور بعد میں ماہنامہ الشریعہ اور ماہنامہ اشراق میں بھی اس سلسلے میں بعض مضامین شائع ہوئے۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ اس مکالمہ کے دونوں طرف کے مضامین کو یکجا شائع کر دیا جائے تاکہ قارئین کو متعلقہ مسائل پر رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ چنانچہ یہ مضامین قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اس مجموعے میں غامدی صاحب کے افکار کے جائزہ پر مبنی بعض دیگر مضامین بھی تکملہ کے طور پر شاملِ اشاعت ہیں، مگر خود ہمیں اس تشنگی کا احساس ہے کہ یہ مضامین صرف چند مسائل کے حوالے سے ہیں جبکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ محترم غامدی صاحب کے افکار کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے، خدا کرے کہ فرصت اور توفیق کے کچھ ایسے لمحات میسر آجائیں جن میں احباب کی یہ خدمت بھی کی جا سکے، آمین یا رب العالمین۔