سوال: ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں سرسید احمد خان کا کردار کیا تھا؟ (حافظ محمد علی صدیقی ۔ لیہ)
جواب: ۱۸۵۷ء میں سرسید احمد خاں ضلع میرٹھ میں سرکاری ملازم تھے اور انہوں نے جہادِ آزادی کے دوران مسلمانوں کے خلاف انگریزی حکومت کا دل کھول کر ساتھ دیا۔ سرسید احمد خان نے ۱۸۵۷ء کے معرکۂ حریت پر ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں اپنے بارے میں ایک انگریز افسر مسٹر جان کری کرافٹ کے مندرجہ ذیل ریمارکس نقل کیے:
’’تم ایسے نمک حلال نوکر ہو کہ تم نے اس نازک وقت میں بھی سرکار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اور باوجود کہ بجنور کے ضلع میں ہندو اور مسلمانوں میں کمال عداوت تھی اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی حکومت کو مقابلہ کر کے اٹھایا تھا، جب ہم نے تم کو اور رحمت خان صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر کو ضلع سپرد کرنا چاہا تو تمہاری نیک خصلت، اچھے چال چلن اور نہایت طرفداری سرکار کے سبب ہندوؤں نے، جو بڑے رئیس اور ضلع میں نامی چودھری تھے، سب نے کمالِ خوشی اور نہایت آرزو سے تم مسلمانوں کا اپنے پر حاکم بنانا قبول کیا، بلکہ درخواست کی کہ تم ہی سب ہندؤں پر ضلع میں حاکم بنائے جاؤ۔ اور سرکار نے بھی ایسے وقت میں تم کو اپنا خیرخواہ اور نمک حلال نوکر جان کر کمال اعتماد سے سارے ضلع کی حکومت تم کو سپرد کی اور تم اسی طرح وفادار اور نمک حلال نوکر سرکار کے رہے۔ اس کے صلے میں اگر تمہاری ایک تصویر بنا کر پشت ہا پشت کی یادگاری اور تمہاری اولاد کی عزت اور فخر کو رکھی جاوے تو بھی کم ہے۔‘‘ (ص ۱۹۲)
یہ تو انگریز حکام کے تاثرات ہیں اور جہاد ۱۸۵۷ء کے بارے میں جس میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، حافظ ضامن شہید، مولانا سرفراز علی شہید، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبد القادر لدھیانوی، جنرل بخت خان اور سردار احمد خان کھرل رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے مجاہدین شریک ہوئے، سرسید احمد خان کے اپنے تاثرات کیا تھے وہ خود سرسید احمد خان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
’’غور کرنا چاہیئے کہ اس زمانہ میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بدرویہ اور بداطوار آدمی تھے کہ بخدا شراب نوشی، تماش بینی اور ناچ رنگ دیکھنے کے کچھ دریغ ان کا نہ تھا۔ یہ کیونکہ پیشوا اور مقتدا جہاد کے کہے جا سکتے تھے۔ اس ہنگامہ میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہ ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا، ملازمین سے نمک حرامی کرنی، مذہب کی رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا مذہب کے موجب گناہِ عظیم تھا۔ پھر یہ ہنگامۂ غدر کیونکر جہاد ہو سکتا تھا؟ ہاں البتہ چند بدذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کو بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت کرنے کو جہاد کا نام لے دیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرامزدگیوں میں سے ایک حرامزدگی تھی، نہ واقع میں جہاد‘‘۔ (ص ۹۳)