دیوبندیت! ایک عالمی فکری تحریک

   
اکتوبر ۲۰۱۱ء

روزنامہ اسلام لاہور (۱۰ ستمبر ۲۰۱۱ء) کی ایک خبر کے مطابق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ’’عالمگیر دیوبندیت اور تبلیغی جماعت‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا، معروف جرمن اسکالر اور کراس روڈ ایشیا پروجیکٹ (زنیٹرم ماڈرنر اورینٹ) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈائرچ ریٹز نے سیمینار کے موضوع کے حوالہ سے خطاب کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد، نائب صدر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی صاحبزادہ ساجد الرحمن سمیت اساتذہ، انتظامی افسران، ملازمین اور طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر ڈائرچ ریٹز نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دار العلوم دیوبند اب محض بھارت کے ایک شہر میں قائم ایک مدرسے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر تحریک بن چکا ہے جس کے مختلف مظاہر جنوبی ایشیا ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ دیوبندیت اب ایک اصلاحی تحریک سے آگے بڑھ کر ایک مذہبی اور سیاسی شناخت بن چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برصغیر کے اندر اور باہر دیوبندیت کے فروغ میں تبلیغی جماعت نے بہت اہم کردار ادا کیا اور اس کا سارا کریڈٹ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کو جاتا ہے۔ دیوبندیت اور بریلویت دونوں عالمی تحریکیں ہیں لیکن ان کے درمیان یہ امتیاز ہے کہ دیوبندیت صرف برصغیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہی محدود نہیں بلکہ تبلیغی جماعت کے ذریعے وہ دوسری نسلی اور قبائلی اکائیوں تک بھی پہنچ گئی ہے جبکہ بریلویت ابھی تک صرف برصغیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیوبندی تحریک کے مدارس پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے وہ برصغیر میں سب سے زیادہ ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر ڈائرچ ریٹز معروف جرمن اسکالر اور دانشور ہیں جو ایک عرصہ سے برصغیر پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے علمی حلقوں اور مذہبی مکاتبِ فکر کے حوالہ سے تحقیقی کام کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے مذکورہ بالا خطاب میں موجود عالمی تناظر میں دیوبندی مکتبِ فکر کے کردار کا جو تجزیہ پیش کیا ہے وہ ان کی حقیقت پسندی کی علامت ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی ؒ کے بقول دیوبند کے قصبہ میں ۱۸۶۶ء کے دوران مدرسہ عربیہ کے نام سے جو مدرسہ قائم کیا گیا تھا اس کا بنیادی مقصد ۱۸۵۷ء کے نقصانات کی تلافی تھا۔ یعنی جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تسلط اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جو صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور کم و بیش ایک ہزار سے چلے آنے والے مسلمانوں کے نظام حکمرانی اور معاشرتی ماحول کو اتھل پتھل کر کے برطانوی استعمار نے اپنے تہذیبی غلبہ کے لیے جو یلغار کی تھی، اس سے اسلام اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ دینی درسگاہ وجود میں آئی تھی۔ اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دیوبند نے نہ صرف برصغیر میں اس فکر کی آبیاری کی بلکہ جرمن دانشور کے بقول اب وہ پوری دنیا میں عالمی سطح پر حریت و استقلال اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بالا دستی کے فکر کی قیادت کر رہا ہے۔ دار العلوم دیوبند نے صرف تعلیمی اور روحانی دنیا میں ہی مسلمانوں کی راہنمائی نہیں کی بلکہ وہ فکر و سیاست اور تہذیب و ثقافت کی دنیا میں بھی امت مسلمہ کے ایک بڑے حصے کا بھی راہنما ہے اور اس کے اس کردار کو آج کی دنیا میں کھلے دل سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔

دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ سے ہماری گزارش ہے کہ وہ جرمن دانشور کے اس تجزیہ کو سامنے رکھتے ہوئے دیوبند اور دیوبندیت کے اس ہمہ جہت کردار کا مطالعہ کریں اور امت مسلمہ کی علمی، دینی، روحانی، فکری اور ثقافتی ضروریات کے وسیع تر تناظر میں اکابر علماء دیوبند کی فکری تحریک کا ادراک حاصل کر کے اس کی روشنی میں اپنے مستقبل کی صورت گری کا اہتمام کریں۔ کیونکہ دنیائے اسلام میں آنے والا دور اسی ولی اللّٰہی اور دیوبندی فکر کی راہنمائی کا دور ہے البتہ ہمارے لیے غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم دیوبند سے نسبت رکھنے والے دینی مدارس و مراکز اس ضرورت کے احساس سے بہرہ ور ہیں اور اس کے لیے کسی بھی درجہ میں کوئی تیاری کر رہے ہیں؟

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
   
2016ء سے
Flag Counter