ملک کی موجودہ سنگین صورتحال، اکابر علماء کرام کی نظر میں

   
تاریخ : 
یکم فروری ۲۰۰۸ء

ملک کے بعض سرکردہ علمائے کرام نے ملک کی موجودہ سنگین صورتحال کے بارے میں ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جسے اس کالم کے ذریعے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

’’آج کل وطن عزیز تہہ در تہہ بحران کے جس سنگین دور سے گزر رہا ہے اس کی کوئی مثال ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملک کا ہر حساس باشندہ اس صورتحال پر بے چین ہے اور اسے ان حالات میں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آ رہی۔ ایسے پر آشوب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے وجود اور بقا کی خاطر ہر شخص اپنی ذات سے بلند ہو کر سوچے اور ملک کے تمام طبقات، تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالیں اور مل کر اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کریں۔

ملک کے گوناگوں مسائل میں جس چیز نے کئی گنا اضافہ کر دیا ہے وہ بڑھتی ہوئی بد اَمنی، سڑکوں پر غارت گری، بالخصوص بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر ہفتے کہیں نہ کہیں درجنوں افراد کی ہلاکت سینکڑوں خاندانوں کو اجاڑ چکی ہے اور یہ سلسلہ کہیں پر رکتا نظر نہیں آ رہا۔

یہ بات تقریباً ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے اور قرآن حکیم اور احادیث شریفہ کے احکام و ارشادات اس بارے میں بالکل واضح ہیں، لیکن جب کسی دشمن سے جائز اور برحق جنگ ہو رہی ہو اس وقت دشمن کو مؤثر زک پہنچانے کے لیے کیا کوئی خودکش حملہ کیا جا سکتا ہے؟ شرعی اور فقہی طور پر اس بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک جائز اور برحق جنگ کے دوران حقیقی ضرورت پیش آ جائے اور ہدف بے گناہ لوگ نہ ہوں تو خودکش حملہ جائز ہے۔ یہ اسی طرح کا خودکش حملہ ہو گا جیسے ۱۹۶۵ء میں ہندوستان کے حملے کے وقت چونڈہ کے محاذ پر پاکستانی فوج کے جوانوں کی یہ داستانیں مشہور ہیں کہ وہ جسموں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں سے ٹکرا گئے تھے اور اس کے نتیجے میں ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی تھی۔

چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور ملک و ملت کو دشمن سے بچانے کے لیے ایک جائز اور برحق جنگ کے دوران کوئی شخص ایسا اقدام کرے تو امید ہے اللہ تعالٰی اس کے حسن نیت کی بنا پر اس کی قربانی کو قبول فرما لیں۔ لیکن یہ ساری بات اس وقت ہے جب کھلے دشمن سے کوئی جائز اور برحق جنگ ہو رہی ہو۔ اس بحث کا اس صورت سے کوئی تعلق نہیں ہے جہاں خودکش حملے کا نشانہ ایسے کلمہ گو مسلمانوں کو یا ایسے غیر مسلموں کو بنایا جائے جن کے جان و مال کو اللہ تعالٰی نے حرمت بخشی ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان خواہ عملی اعتبار سے کتنا گناہگار ہو لیکن وہ اللہ تعالٰی کی دی ہوئی اس حرمت کا حامل ہے اور قرآن و حدیث کے ارشادات نے ایسے شخص کے قتل کرنے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی جان و مال کو کعبے سے بھی زیادہ حرمت کا حامل قرار دیا ہے ۔۔۔۔ بلکہ وہ خودکش حملہ جس کا نشانہ مسلمان یا مسلمان ریاست کے پراَمن شہری ہوں، دوہرا گناہ ہے۔ ایک تو دوسرے کے خلاف قتل عمد کا گناہ ہے اور اس کے نتیجے میں جتنے انسان ناحق قتل ہوں وہ اتنے ہی زیادہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ دوسرے اس صورت میں خودکشی کے حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لیے خودکشی کا گناہ اس کے علاوہ ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جو خودکش حملے ہو رہے ہیں اور جن کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان اور پراَمن شہری ناحق ہلاک ہو چکے ہیں وہ دینی اعتبار سے انتہائی سنگین گناہ ہیں اور ’’فساد فی الارض‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ خودکش حملے کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ ان اقدامات کی پوری مذمت کے ساتھ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جو لوگ اس قسم کے حملے کرتے ہیں وہ یہ جان کر کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا نشانہ بنے یا نہ بنے سب سے پہلے وہ خود موت کے منہ میں جائیں گے۔ عام حالات میں زندگی ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص انتہائی غیر معمولی حالات کے بغیر اپنے آپ کو موت کے گھاٹ نہیں اتار سکتا۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد یکایک کس وجہ سے اس غیر معمولی اقدام پر آمادہ ہو گئی ہے کہ نہ اسے اپنی جان کی پروا ہے، نہ اپنے یتیم ہونے والے بچوں، بیوہ ہونے والی بیوی اور غمزدہ خاندان کا کوئی خیال ہے، اور نہ اس بات سے کوئی بحث ہے کہ اس کے مرنے کے بعد دنیا اسے کیا کہے گی۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خودکش حملوں کی یہ بہتات ہمارے ملک میں پچھلے چند سالوں ہی سے پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے اس کا کوئی وجود ہمارے ملک میں نہیں تھا۔ یقیناً اس کے کچھ اسباب ہیں جنہیں دور کیے بغیر محض ایسے لوگوں پر غصے سے دانت پیس کر تشدد کی فضا کو مزید ہوا دینے سے یہ صورتحال ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر واقعی ہم اس صورتحال کو ختم کر کے ملک میں امن و امان بحال کرنے میں مخلص ہیں تو ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنا ہو گی، اور جو غلط پالیسیاں اس کا سبب بنی ہیں انہیں تبدیل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ یہ خودکش حملے جن میں ایک انسان اپنے ساتھ کبھی دوچار، کبھی آٹھ دس، کبھی پچیس تیس اور کبھی اس سے بھی زیادہ افراد کو ہلاکت کے غار میں دھکیل دیتا ہے، درحقیقت ایک شدید جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاہٹ ہے جو ہر طرف سے مایوس ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔

یوں تو ہماری بیشتر حکومتیں امریکہ کے زیراثر رہی ہیں لیکن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ہماری حکومت نے امریکہ کا بالکل تابع مہمل بن کر جس طرح اپنے آپ کو امریکہ کی بھینٹ چڑھایا اور امریکی مفادات کی جنگ کو اپنے ملک میں لا کر جس بے دردی سے قومی مفادات کا خون کیا، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ ہماری افواج کو امریکہ کی رضامندی کی خاطر خود اپنے ہم وطنوں کے خلاف آپریشن میں استعمال کیا گیا۔ امریکہ اور بھارت کے مقابلے میں بزدلی دکھائی گئی اور تمام تر بہادری کا مظاہرہ وانا، وزیرستان، سوات، بلوچستان اور لال مسجد کے نہتوں پر کیا گیا۔ خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں خواتین کو بھی خون میں نہلا کر واشنگٹن کی شاباش حاصل کی۔ دوسری طرف ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں ملک کو بے دینی کی طرف لے جانے کی کوششیں پورے اہتمام کے ساتھ جاری ہوئیں۔ نظام تعلیم کو اپنے قومی مقاصد اور مصالح کے بجائے غیروں کے لیے خوشنما بنانے کی خاطر نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں۔ حدود قوانین میں عورتوں کے حقوق کے نام پر سراسر بے جواز ترمیمات کی گئیں، جن کا نہ صرف یہ کہ عورتوں کے حقوق سے تعلق نہ تھا، بلکہ وہ ان کے لیے مزید بے انصافی پر مشتمل تھیں۔ عریانی و فحاشی کو فروغ دیا گیا، اور فحاشی کے اڈوں کی عملاً سرپرستی کی گئی۔ روز افزوں گرانی اور بے روزگاری نے غریبوں کے لیے جینا دوبھر کر دیا۔ ملک بھر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا طوفان برپا ہے جس کی بنا پر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی جان اور مال کے بارے میں ہر وقت خطرات کا شکار نہ ہو۔ مگر حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے میراتھن ریس، بسنت اور رقص و سرود کو فروغ دینے میں مصروف رہی۔ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا۔ پھر عدلیہ کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیا گیا اور دفتروں میں رشوت ستانی کے نتیجے میں عوام دربدر کی ٹھوکریں کھا کر بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرانے سے قاصر ہو گئے۔

ان تمام حالات کے باوجود حکومت نے اپنے طرز عمل سے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ اس کے دربار میں عوام کے حقوق اور مطالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہے اور اس ملک میں پراَمن اور آئینی راستے سے کوئی معقول مطالبہ منوانے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہاں لاقانونیت کا راج ہے، دھونس، دھاندلی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں، اور قانون پر چلنے والے لوگوں کو قدم قدم پر مصائب کا سامنا ہے۔ یہاں پراَمن طریقے سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کے حق میں قرآن و سنت اور عقل و دانش کی کوئی دلیل نہ صرف کارگر نہیں بلکہ مقتدر حلقے اسے توجہ سے سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

بہ ظاہر یہ وہ مجموعی حالات ہیں جنہوں نے کچھ جذباتی اور مایوس افراد کے دل میں وہ جھنجھلاہٹ پیدا کی جو خودکش حملوں کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ لوگ ہر طرح کے پراَمن راستوں سے مایوس ہو کر تشدد کے راستے پر چل پڑے ہیں، ان میں ایسے نوجوان بھی ہوں گے جن کے گھر حکومت یا امریکہ کے آپریشنوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔

اگر اس طرز فکر کی سچائی ایک مرتبہ دل میں بیٹھ جائے تو کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کر کے ہم موجودہ بحران سے نجات حاصل کر سکتے ہیں:

  1. ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر ہم نے جس طرح آنکھ بند کر کے امریکہ کی حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے بارے میں اس حقیقت کا دل سے اعتراف کیا جائے کہ وہ قطعی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس پالیسی نے ہمیں دیا کچھ نہیں بلکہ ہمارا بہت کچھ چھین لیا ہے۔ ہمارے اندرونی خلفشار کا بھی یہ ایک بنیادی سبب ہے اور اس کے نتیجے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا وطن عزیز ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔ اس پالیسی میں دینی اور زمینی حقوق کی روشنی میں وسیع تر مشاورت کے ذریعے بلاتاخیر تبدیلی لائی جائے۔
  2. شمالی علاقہ جات اور آزاد قبائل میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کر کے وہاں کی شورش کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور وہاں کے رہنماؤں سے اس پر کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور ان کے جائز مطالبات کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
  3. اس حقیقت کا ادراک کیا جائے کہ اصل میں سارے طالبان دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ ان میں سب انتہاپسند اور جذباتی ہیں، ان میں ایسے عناصر موجود ہیں جن سے معقولیت کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے۔
  4. شمالی علاقہ جات اور آزاد قبائل کے وہ معتدل علماء اور خوانین جو خونریزی کے حق میں نہیں ہیں لیکن ان کی بات مشتعل عناصر میں اس لیے مؤثر نہیں ہو رہی کہ حکومت کی طرف سے مسلسل خلاف اسلام پالیسیاں جاری ہیں جن کی موجودگی میں ان معتدل علماء اور خوانین کی طرف سے عدم تشدد کی اپیلیں بے اثر ہیں۔ کیونکہ تشدد رکوانے کے لیے ان کے ہاتھ میں کوئی ایسی مثبت بات نہیں ہے جو وہ ان مشتعل عناصر کے سامنے پیش کر کے سرخرو ہو سکیں۔ اگر حکومت لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کر سکے کہ اب وہ پالیسیاں مرتب کرتے وقت واشنگٹن کی چشم و ابرو کا اشارہ دیکھنے کے بجائے ملک و ملت کے مفاد پر نظر رکھے گی، اپنے ہم وطنوں کے خلاف فوجی کارروائیاں بند کرے گی اور اپنی خلاف اسلام پالیسیوں کو ختم کر دے گی، اور اس غرض کے لیے عملی اقدامات بھی کر کے دکھائے جائیں اور انہیں مؤثر طور پر جاری رکھا جائے تو یہ معتدل عناصر، جذباتی عناصر کی ایک بڑی تعداد کو شورش سے باز رکھ سکتے ہیں۔
  5. اس حقیقی کوشش کے باوجود اگر کچھ لوگ شورش پر آمادہ ہیں تو اولاً ان کی آواز اتنی مؤثر نہیں رہے گی، دوسرے معتدل حلقوں کی طرف سے ان کے خلاف کھل کر اعلان برأت ممکن ہو گا اور عام تائید کے فقدان کے بعد یہ شورش خودبخود دب جائے گی۔
  6. بلوچستان کے لوگوں کے کچھ حقیقی مسائل اور مطالبات ہیں جو بڑی حد تک انصاف پر مبنی ہیں، ان مطالبات کو ملک دشمنی سے تعبیر کر کے ان کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ وہاں کے رہنماؤں سے ایک مرتبہ پھر سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے وہاں کی شورش پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔
  7. پچھلے چند روز میں صدر مملکت کی طرف سے امریکہ کے بارے میں پہلی بار کچھ ایسے جرأت مندانہ بیانات آئے ہیں جو قومی غیرت کے عین مطابق ہیں اور ان سے عوام کے دلوں کو حوصلہ ملا ہے۔ ان بیانات کو صرف لفظی بیانات کی حد تک محدود رکھنے کی بجائے ان کو آئندہ اپنی عملی پالیسی کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔

ابھی وقت ہے کہ ان خطوط پر نیک نیتی سے کام شروع کر کے ملک و ملت کو اس گرداب سے نکالا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے قومی اتفاق رائے نہایت ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نازک حالات میں حکومت، سیاستدان اور فکری رہنما اپنی ذات سے بلند ہو کر ملک و ملت کی سالمیت کے لیے بنیادی نکات پر متفق ہوں اور اس مقصد کے لیے یکجان ہو کر کام کریں۔

اس اتفاق رائے کو حاصل کرنے کے لیے صدر مملکت کو پہل کرنا ہو گی۔ ان پر یہ فریضہ سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہو کر تمام طبقہ ہائے خیال کے لوگوں کو جمع کریں۔ اور اگر اختلافات کو ختم کرنے کے لیے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جوہری تبدیلیاں کرنا پڑیں، انتخابات کو قابل اطمینان بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے، خواہ وہ صدر صاحب کی پہلے اعلان شدہ پالیسی کے خلاف ہوں، ملک و ملت کی سالمیت اور ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر ان کو گوارا کریں۔ سیاسی رہنماؤں سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر ملک کو بچانے کے لیے سیاسی عداوتوں کو فراموش کر کے کم سے کم نکات پر متفق ہوں جو ملک کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔

موجودہ تہہ در تہہ بحرانوں کے حل کے لیے ہماری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ عدلیہ کو فعال کیا جائے، عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ لوگ سڑکوں پر انصاف کے حصول کی کوشش کے بجائے عدلیہ میں فریاد رسی کر کے حقیقی انصاف حاصل کر سکیں۔ ہماری یہ بھی رائے ہے کہ جملہ ماورائے آئین اقدامات کو منسوخ کیا جائے، ان مقاصد کے حصول کے لیے اگر صدر پرویز مشرف کو ملک و ملت کی خاطر مستعفی بھی ہونا پڑے تو اس سے گریز نہ کریں۔ یہ ایک باوقار طریقہ ہو گا جس کا اس منصب کے شایان شان راستہ یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق صدارت کا منصب سینٹ کے چیئرمین کے حوالے کر دیں۔

ہمارا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ اس لیے یہ تجویز کسی مخاصمت یا کسی ذاتی یا گروہی سیاسی مقاصد پر مبنی نہیں بلکہ ملک و ملت اور خود صدر پرویز مشرف صاحب کی خیرخواہی پر مبنی ہے۔ انہوں نے آئین سے ماورا جن اقدامات کے ذریعے صدارت کا عہدہ حاصل کیا ہے وہ کبھی ملک میں دیرپا استحکام پیدا نہیں کر سکتے۔ ان کی وجہ سے انہیں جلد یا بدیر یہ عہدہ چھوڑنا ہو گا لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اس کے برعکس اگر وہ رضاکارانہ طور پر ملک و ملت کی خاطر یہ اقدام کریں تو ایک طرف ان کا وقار بلند کرنے کا ذریعہ بنے گا، دوسری طرف ملک موجودہ سیاسی بحران سے نکل کر پٹڑی پر آ جائے گا، اور امید یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں میں بھی فوری بہتری آئے گی۔

اس مشترکہ اعلامیہ کی جن اکابر علمائے کرام نے منظوری دی ہے ان میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فداء الرحمان درخواستی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا محمد سلفی، مولانا انوار الحق حقانی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبید اللہ اشرفی، مولانا عبد الرحمان اشرفی، مولانا فضل الرحیم، مولانا غلام الرحمان، مولانا عبد القدوس ترمذی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter