(نماز فجر کے بعد درس حدیث کا ایک حصہ۔)
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کسی عورت کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ یعنی شرعی مسافت کا سفر کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ تین دن سے مراد شرعی مسافت ہے جو آج کل ۴۸ میل یا ۸۰ کلو میٹر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ عورت اپنے گھر میں بھی کسی مرد کے ساتھ تنہا نہ ہو جبکہ ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔
اللہ رب العزت نے مرد و عورت کے اختلاط میں، مرد و عورت کے میل جول میں کچھ حدود رکھی ہیں۔ اس لیے کہ یہیں سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے جناب نبی کریمؐ نے فرمایا، کوئی مرد اور عورت اگر اکٹھے ہوں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ شیطان کے ہاتھ میں سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ انسان کو گمراہ کرے۔ فرمایا، مرد و عورت جب اکٹھے ہوتے ہیں، تنہا ہوتے ہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، تو تیسرا شیطان ہوتا ہے اور شیطان ان کے درمیان سفیر کا کام کرتا ہے۔ ان کے خیالات، ان کے جذبات کو ابھارنا، احساسات پیدا کرنا، وسوسے ڈالنا یہ شیطان کا کام ہے۔
چنانچہ یہ بھی پابندی لگائی کہ مرد و عورت اکٹھے نہ ہوں، ہاں اگر محرم ساتھ ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ کیونکہ یہ بھی اسباب میں سے ہے۔ قرآن کریم نے جہاں بدکاری اور زنا کی مذمت فرمائی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ’’ولا تقربوا الزنا‘‘ کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔ باقی گناہوں کے بارے میں فرمایا یہ گناہ نہ کرو، جھوٹ نہ بولو، سود نہ کھاؤ، شراب نہ پیو، لیکن زنا کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ زنا نہ کرو بلکہ کہا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔
اس سے مفسرین یہ استدلال کرتے ہیں کہ زنا کے جو دواعی ہیں وہ بھی حرام ہیں۔ وہ اسباب جو کسی انسان کو زنا تک پہنچاتے ہیں وہ بھی حرام ہیں۔ حتٰی کہ جناب نبی کریمؐ نے اس بات پر بھی پابندی لگائی کہ کسی غیر محرم عورت کو نہ دیکھو اور اگر اتفاقاً نگاہ پڑ گئی ہے تو نگاہ ہٹا لو۔ یہ پہلا سبب ہوتا ہے، آنکھ پہلا دروازہ ہے۔ اس کے بعد گفتگو، پھر خلوت، پھر باقی معاملات۔ تو یہ جو اسباب ہیں جن سے گزر کر انسان گناہ تک پہنچتا ہے شریعت نے وہ بھی حرام قرار دیے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے یہ ارشاد فرمایا تو ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! دیور ہو تب بھی؟ فرمایا وہ تو نری موت ہے۔ کیا مطلب؟ کیونکہ میل جول زیادہ ہے، امکانات بھی زیادہ ہیں۔ میل جول، گفتگو، دیکھنا، یہ چونکہ اسباب ہیں اس لیے شریعت نے ان اسباب پر پابندی لگائی ہے۔ حدود مقرر کی ہیں، اس کی صورتیں متعین کی ہیں۔ اور ایسی صورت جو انسان کے گناہ کا سبب بنے وہ شریعت نے حرام قرار دی ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ کوئی عورت اکیلی سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔ تو یہ دو پابندیاں فقہاء لگاتے ہیں کہ اگر دن میں اپنی ضرورت کے تحت کسی کام کے لیے جاتی ہے تو جا سکتی ہے لیکن رات کو گھر واپس آئے۔
حضرت سوداء رضی اللہ عنہا ایک دفعہ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئیں، اس وقت تک پردے وغیرہ کے احکام آ گئے تھے، سودا رضی اللہ عنہا گئیں تو حضرت عمرؓ نے پہچان لیا، قد لمبا تھا جسم بھاری تھا۔ مطلب یہ تھا کہ آپ باہر کہاں جا رہی ہیں؟ یہ ڈانٹنے کا انداز تھا۔ ام المومنینؓ ہیں۔ سوداؓ واپس گئیں جناب نبی کریمؐ کے پاس۔ حضورؐ اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں کھانا کھا رہے تھے۔ جا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی تو عمرؓ نے مجھے آواز دی ہے، ٹوکا ہے مجھے۔ کہا کہ میں کیا کروں، ضرورت کے لیے بھی باہر نہ جاؤں؟ تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کچھ دیر حضورؐ نے خاموشی اختیار کی، حضورؐ پر وحی کی کیفت طاری ہوئی ۔۔۔۔ رسول اللہؐ نے فرمایا، اللہ رب العزت نے تمہیں ضروریات کے لیے جانے کی اجازت دی ہے۔
ضرورت کی حد فقہاء یہ کرتے ہیں کہ ایسا کام جو ضروری ہے اور کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، تو ایسی ضرورت کے لیے عورت جا سکتی ہے۔ لیکن دو شرطوں کے ساتھ کہ رات باہر نہیں رہے گی اور شرعی مسافت سے زیادہ نہیں جائے گی۔ جبکہ ایک پابندی اور لگائی ہے کہ سادہ لباس میں جائے، خوشبو یا ایسا لباس نہ ہو کہ خوامخواہ لوگوں کی نظریں اٹھیں۔ لباس سادہ ہو، پردہ ہو، حدود میں چلے، بلاوجہ باہر نہ رہے۔
حضورؐ خطبہ فرما رہے تھے، ایک شخص کھڑا ہو گیا، کہا کہ یا رسول اللہ! میری بیوی حج پر جا رہی ہے اور میرا نام مجاہدین میں لکھ دیا گیا ہے۔ تو جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم جہاد پر نہیں جاؤ گے بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ حج پر جاؤ گے۔ تم اپنی بیوی کے ساتھ جا کر حج کرو تاکہ اس کا حج ادا ہو جائے۔ تو یہ فرمایا کہ عورت اگر حج کے لیے جائے گی تو اپنے خاوند کے ساتھ یا کسی محرم کے ساتھ۔