مولانا محمد اکرم ندوی انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک محقق عالم دین ہیں جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ایک عرصہ سے علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات اچانک اور عجیب انداز میں ہوئی۔ پانچ سال قبل کی بات ہے جب راقم الحروف نے لندن جانے کے لیے تاشقند کا راستہ اختیار کیا، ازبک ائیرلائن سفر کا ذریعہ تھی، تاشقند میں چار پانچ روز گزارنے کے بعد جب تاشقند کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لندن کے لیے روانہ ہوا تو ایئرپورٹ پر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا جیسے تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے ہوائی اڈوں پر عموماً پیش آتے ہیں۔ بورڈنگ کارڈ کے حصول کے لیے ایک لمبی قطار میں لگ کر کاؤنٹر تک پہنچا تو بڑی سادگی کے ساتھ کہہ دیا گیا کہ آپ کی تو سیٹ ہی کنفرم نہیں ہے۔ حالانکہ ٹکٹ کے مطابق سیٹ کنفرم تھی اور دو روز قبل اسے ری کنفرم بھی کروا چکا تھا۔ لیکن کاؤنٹر پر کھڑے صاحب نے کہا کہ ان کے ہاتھ میں مسافروں کی جو فہرست ہے اس میں میرا نام نہیں ہے اس لیے سیٹ کنفرم نہیں۔ خدا خدا کر کے چانس کا حق استعمال کرتے ہوئے سیٹ کا مستحق قرار پایا تو ایئرپورٹ ٹیکس ڈالروں میں ادا کرنے کے لیے ڈالروں کا حصول الگ مسئلہ بن گیا اور ایک دوسری لائن میں لگنا پڑا۔ اس مرحلہ سے فراغت ہوئی تو سامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا، یہ اصرار ہوا کہ میں اپنے ہاتھ کا بیگ بھی دوسرے سامان کے ساتھ وزن کرواؤں جو کہ زندگی کا پہلا تجربہ تھا اور میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔
الغرض اس قسم کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب ہوائی جہاز میں داخل ہوا تو وہ فل ہو چکا تھا اور کوئی سیٹ خالی نظر نہیں آرہی تھی۔ بورڈنگ کارڈ پر سیٹ کا نمبر بھی نہیں تھا اس لیے سیٹ کی تلاش میں جہاز کے پچھلے حصہ کی طرف جا رہا تھا کہ ایک پتلے سے باریش نوجوان نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے آواز دے کر اپنے پاس بلا لیا۔ ان کے ساتھ والی سیٹ خالی تھی جس پر انہوں نے مجھے بیٹھنے کی دعوت دی ۔ اس طرح کم و بیش تین گھنٹے کی مسلسل تگ و دو اور ذہنی پریشانی کے بعد اطمینان سے بیٹھنے کا موقع میسر آیا۔ باہمی تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ مولانا محمد اکرم ندوی ہیں، ندوۃ العلماء لکھنو سے تعلق رکھتے ہیں، دہلی سے آنے والی فلائیٹ سے تاشقند پہنچے ہیں اور اب دوسری فلائیٹ سے لندن جا رہے ہیں جہاں وہ آکسفورڈ کے اسلامک سنٹر میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔سفر میں اچھی رفاقت مل جائے تو مشقت اور کلفت کا بوجھ خاصا ہلکا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور باقی ماندہ سفر مختلف موضوعات پر گفتگو میں آسانی سے کٹ گیا۔ اس کے بعد مولانا محمد اکرم ندوی سے آکسفورڈ اور لندن میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور ان کا علمی و تحقیقی کام مسلسل دلچسپی کا باعث رہا۔
ایک موقع پر مولانا کی وساطت سے عرب دنیا کے اپنے وقت کے سب سے بڑے حنفی عالم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃؒ کی زیارت و ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ الاستاذ ابو غدۃؒ شام سے تعلق رکھنے والے فقیہ و محدث و محقق تھے، درجنوں علمی کتابوں کے مصنف تھے، اور عرب دنیا میں احناف کے سرخیل تھے۔ شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ رہے ہیں، ریاستی جبر کے ہاتھوں مجبور ہو کر جلا وطن ہوگئے تھے اور ریاض میں گزشتہ سال ان کا انتقال ہوا ہے۔ ان سے ریاض میں ایک بار ملاقات ہو چکی تھی اور خواہش تھی کہ دوبارہ ملاقات ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث سنا کر ان سے روایت حدیث کی اجازت کی سعادت حاصل کی جائے۔ ایک روز مولانا محمد اکرم ندوی نے لندن میں فون پر اطلاع دی کہ استاذ ابو غدۃؒ تشریف لائے ہوئے ہیں اور واپسی کے لیے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو چکے ہیں اس لیے اگر ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو فورًا ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچ جائیں۔ راقم الحروف اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری یہ اطلاع ملتے ہی ایئرپورٹ کی طرف چل پڑے۔ ہم نے امام بخاریؒ کی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ ساتھ لے لی۔ ہیتھرو پہنچے تو استاذ ابو غدۃؒ بورڈنگ کارڈ حاصل کر چکے تھے اور ڈیپارچر لاؤنج کی طرف جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ ملاقات ہوئی، سلام عرض کیا اور کتاب سامنے کر دی۔ اس پر وہ مقصد سمجھتے ہوئے وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور پڑھنے کے لیے کہا۔ راقم الحروف نے ’’الادب المفرد‘‘ کی چند احادیث سنائیں تو انہوں نے کمال شفقت سے اپنی تمام اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرما دی۔
مولانا محمد اکرم ندوی کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ اس کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ مگر گزشتہ ہفتہ کو ساؤتھ آل لندن کے ابوبکرؓ اسلامک سنٹر میں ماہنامہ الفرقان لکھنو کے مدیر مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے اعزاز میں ورلڈ اسلامک فورم کی ایک نشست میں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کے موجودہ علمی کام کے بارے میں معلومات حاصل کر کے بے حد مسرت ہوئی۔
مولانا محمد اکرم ندوی کچھ عرصہ سے امت مسلمہ کی ان خواتین کے بارے میں تحقیقی کام کر رہے ہیں جنہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی تعلیم اور اشاعت کا کام کیا ہے۔ مولانا محمد اکرم ندوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے دور نبویؐ سے دسویں صدی ہجری تک اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور کم و بیش پانچ ہزار محدثات کے حالات جمع کیے ہیں جنہوں نے علم حدیث حاصل کیا اور اس کی تعلیم و تدریس کے لیے باقاعدہ خدمات سر انجام دیں۔ انہوں نے بتایا کہ صحابہ کرامؓ کے دور میں ایک ہزار سے زائد صحابیات نے احادیث نبویؐ کی اشاعت میں حصہ لیا جن میں سب سے نمایاں ام المومنین حضرت عائشہؓ ہیں اور ان کی عملی جانشین معروف صحابی حضرت سعد بن زرارہؓ کی دختر حضرت عمرہ انصاریہؓ تھیں جن کے بارے میں معروف فقیہ حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ نے امام زہریؒ سے کہا تھا کہ وہ اگر علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عمرہ انصاریہؓ سے رجوع کریں۔
مولانا اکرم ندوی نے کہا کہ ایک دور میں خواتین میں روایت حدیث کا ذوق اس قدر زیادہ تھا کہ چھٹی صدی کے معروف محدث ابن عساکرؒ نے جن شیوخ سے احادیث روایت کی ہیں ان میں ۸۰ خواتین ہیں۔ جبکہ نویں صدی کے امام جلال الدین سیوطیؒ کے اساتذہ میں پچاس خاتون محدثات شامل ہیں۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے بھی پانچ چھ خاتون اساتذہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ مولانا نے بتایا کہ ممتاز مؤرخ اور محدث خطیب بغدادیؒ نے امام بخاری کی ’’الجامع الصحیح‘‘ کی ایک خصوصی سند اس دور کی محدثہ حضرت مروزیہؒ سے حاصل کی جنہوں نے ایک سو برس کے لگ بھگ زندگی پائی اور عمر بھر حدیث نبویؐ کی خدمت میں مصروف رہیں۔ مولانا نے بتایا کہ وہ دسویں صدی ہجری تک کی پانچ ہزار محدثات کے حالات زندگی دس ضخیم جلدوں میں مرتب کر چکے ہیں جو کچھ عرصہ تک طبع ہو کر علمی حلقوں میں پہنچ جائیں گی۔
آج اسلام کے بارے میں مغرب کے ذرائع ابلاغ مسلسل یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا مخالف ہے، جبکہ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس دور میں علمی و تحقیقی کام کرنے والی خواتین کی تعداد ہزاروں میں تھی جب خود مغرب نے ابھی عورتوں کی تعلیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلم خواتین کی علمی خدمات کو سامنے لایا جائے اور مولانا محمد اکرم ندوی اس حوالہ سے اس وقیع اور اہم علمی خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔