بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ گفتگو میں قرآن کریم کے تعارف پر، موضوع پر، اور ایجنڈے پر چند باتیں تمہیدی طور پر عرض کی تھیں۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آج قرآن کریم کی تشریح اور تفسیر کے حوالے سے چند باتیں اسی لہجے میں عرض کروں گا کہ قرآن کریم کی تشریح، تفسیر اور وضاحت کی اتھارٹی کون ہے اور کس کا حق ہے کہ قرآن کریم کی وضاحت کرے، کوئی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو تو تشریح کرے۔ حق اور اتھارٹی دونوں، قرآن کریم کی تفسیر میں کون ہے؟
اس پر پہلی بات بطور اصول کے یہ عرض کروں گا، مفسرین کرام فرماتے ہیں ’’القرآن یفسر بعضہٗ بعضا‘‘ قرآن کریم میں خود آیات آپس میں ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ قرآن کریم کوئی دفعتاً نازل ہونے والا کلام نہیں ہے، تئیس سال میں نازل ہوتا رہا ہے، اس کے سینکڑوں مراحل ہیں، کہیں قرآن کریم نے اجمالاً بات کی ہے، کہیں تفصیلاً بات کی ہے، بہت سی باتیں ایک جگہ اجمال ہے تو دوسری جگہ تفصیل ہے۔ اسی لیے قرآن کریم کی کسی آیت کو سمجھنے میں اگر کوئی دقت پیش آ رہی ہے تو قرآن کریم میں اس موضوع کی دوسری آیات کو دیکھ کر قرآن کریم ہی سے تفسیر کریں گے۔ پہلا اصول یہ ہے ’’القرآن یفسر بعضہ بعضاً‘‘ خود قرآن کریم کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تشریح کرتا ہے، ایک جگہ اجمال ہے تو دوسری جگہ تفصیل ہے، قرآن کریم خود واضح کر دیتا ہے کہ مطلب کیا ہے۔
اس کی بیسیوں مثالیں ہیں، ایک مثال عرض کرتا ہوں، قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ دو تین جگہ پر ہے، اس سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہو گیا۔ ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصاریٰ والصابئین من اٰمن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ (البقرۃ ۶۲) وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ لوگ جو یہودی ہیں، وہ لوگ جو عیسائی ہیں، وہ جو صابئین ہیں، صابی بھی ایک مذہبی گروہ تھا، چار طبقوں کا ذکر کیا، مسلمان، یہودی، عیسائی، صابئین، ان چاروں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان میں سے جو ایمان لائے گا اللہ پر، آخرت پر، اور عمل صالح کرے گا، وہ خوف اور غم سے نجات پائے گا۔ یعنی نجات کے لیے تین باتیں ہیں: اللہ پر ایمان، آخرت پر ایمان، اور اعمالِ صالحہ۔
یہاں کتابوں پر، نبیوں پر ایمان کا کوئی تذکرہ نہیں، اس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا، اور آج تو یہ مغالطہ بہت پھیل گیا ہے کہ نجات کے لیے اور ایماندار کہلانے کے لیے کتابوں پر، انبیاء پر ایمان ضروری نہیں، اللہ اور آخرت پر ایمان کافی ہے۔ اسی بنیاد پر، اسی مغالطے سے ایک اور مغالطہ نکلا، جو مغالطہ ہوا نہیں بلکہ پیدا کیا گیا ہے، حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منسوب مذاہب کے بارے میں، کہ سارے ٹھیک ہیں۔ یہودی خود کو ابراہیمی کہتے ہیں، عیسائی خود کو ابراہیمی کہتے ہیں، اور ہم تو ہیں ابراہیمی۔ کہا، سارے ٹھیک ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، قرآن کریم پہ ایمان لانا ضروری نہیں ہے، سب ابراہیمی ہیں، سب مومن ہیں۔ اس آیت کے اجمال کی وجہ سے یہ دو مغالطے دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ میں اجمال ہے، اس سے لوگ مغالطے کا شکار ہوئے دوسری آیات کو نہ دیکھنے کی وجہ سے۔
قرآن کریم نے اس کی تشریح دوسرے مقام پہ کر دی۔ مثلاً ایمان کی بات، ٹھیک ہے وہاں ’’اٰمن باللہ والیوم الاٰخر و عمل صالحا‘‘ ہے لیکن بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے جہاں خود خطاب کیا، ’’یا بنی اسرآئیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم واوفوا بعھدی اوف بعھدکم وایای فرھبون و اٰمنوا بمآ انزلت مصدقا لما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ‘‘ (البقرۃ ۴۰، ۴۱) جو میں نے قرآن کریم نازل کیا ہے، آپ کی تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے، اس پر ایمان لاؤ، کافر نہ بنو اس کے۔
اس لیے میں نے عرض کیا کہ پہلا اصول یہ ہے کہ قرآن کریم خود اپنی تفسیر کرتا ہے۔ قرآن کریم کی کسی آیت کے اجمال کو، ابہام کو دور کرنے کے لیے قرآن کریم ہی کو دیکھیں گے، دوسرے مقام پر قرآن کریم نے اس کی تشریح کی ہے تو وہی اتھارٹی ہوگی، وہی اتھنٹک ہوگی۔
اور اسی طرح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ، قرآن کریم کی وضاحت کے بعد دوسری اتھارٹی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دو حوالوں سے، بلکہ تین حوالوں سے، ایک اس حوالے سے کہ اللہ رب العزت نے حضورؐ سے ہی کہا ’’لتبین للناس ما نزل الیھم‘‘ (النحل ۴۴) جو قرآن کریم اتارا ہے اس کی وضاحت آپ کریں گے۔ اللہ رب العزت نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتھارٹی قرار دیا ہے۔ ’’لتبین للناس ما نزل الیھم‘‘۔
دوسرا اس حوالے سے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نمائندے ہیں، اور نمائندہ جو تشریح کرتا ہے وہ اس کی بات نہیں ہوتی، وہ جس کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی بات ہوتی ہے۔ میں نے دو مثالیں دی تھیں۔ کسی کمپنی کا نمائندہ اگر آیا ہے تو آپ اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تسلی کریں کہ نمائندہ ہے یا نہیں ہے، جو بھی تسلی کا ذریعہ ہوگا، لیکن اگر آپ نے تسلی کر کے کنفرم کر کے بات شروع کر دی ہے تو آپ اس کی کسی بات پر نہیں پوچھیں گے کہ کس کی طرف سے کر رہے ہو؟ نمائندہ ہے بھئی، نمائندہ جو بات کرتا ہے، وہ جس کا نمائندہ ہے اس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اسی طرح ملکوں کے سفیر ہیں، مثلاً پاکستان میں امریکہ کے سفیر ہے، جب وہ صدر محترم کو اسنادِ سفارت پیش کر کے بطور سفیر کنفرم ہو جاتا ہے، اس کے بعد جب تک ڈیوٹی پر ہے، وہ کسی مسئلے پر کسی پالیسی پر جو بات کرے گا وہ اس کی نہیں ہوگی امریکہ کی ہوگی۔ اور اگلی بات بھی، کوئی مسئلہ پیش آیا ہے، اس نے اپنی حکومت سے پوچھ کر بات کی ہے تب امریکہ کی ہے، بغیر پوچھے کی ہے تب امریکہ کی ہے۔ آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ پوچھ کے کی ہے؟ نمائندہ ہے، آپ کا اتنا ہی کام تھا کہ اسنادِ سفارت قبول کریں، کنفرم کریں، اور بطور سفیر اس کو اس کا پروٹوکول دیں۔ اس کے بعد اس کی مرضی ہے اس کی صوابدید ہے، یا اس کا مسئلہ ہے کہ پوچھ کے کر رہا ہے، بغیر پوچھ کے کر رہا ہے، وہ بطور سفیر کے جو بات کرتا ہے، اپنی گورنمنٹ سے پوچھ کے کرتا ہے تب امریکہ کی ہے، پوچھے بغیر کرتا ہے تب امریکہ کی ہے۔
یہ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کی وضاحت میں دوسری اتھارٹی جناب نبی کریم کی ذات گرامی ہے، اور وہ اتھارٹی بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرمایا ’’ان علینا جمعہ و قرآنہ … ثم ان علینا بیانہ‘‘ (القیامۃ ۱۷، ۱۹) آپ کے سینے میں محفوظ کرنا ہمارا کام ہے، آپ کی زبان سے قراءت کرانا ہمارا کام ہے، اس کا بیان اور وضاحت آپ کو ڈلیور کرنا یا میسج کرنا ہمارا کام ہے۔ تو میں نے پہلی بات یہ عرض کی تھی کہ قرآن کریم ایک دوسرے کی تشریح خود کرتا ہے، قرآن کریم کی تفسیر قرآن کریم سے تلاش کریں گے، اس پر میں نے ایک مثال دی تھی۔
آج کل کہتے ہیں کہ قرآن کریم پر ہم غور کریں گے اور غور کر کے اس کا فیصلہ متعین کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، نہیں، قرآن کریم کی تشریح قرآن خود کرے گا، یا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تشریح فرمائیں گے وہ تشریح ہوگی، لفظ کا معنیٰ بھی وہی بیان فرمائیں گے، حکم کا مقصد بھی وہی بیان فرمائیں گے۔ میں مثال دوں گا، قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی ’’الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون‘‘ (الانعام ۸۲) وہ لوگ جو ایمان لائے اور ایمان کے ساتھ ظلم کو خلط ملط نہیں ہونے دیا، ان کے لیے نجات ہو گی، وہ ہدایت پر ہیں۔ ہدایت اور نجات کے لیے ایمان کے ساتھ ظلم کا التباس نہ ہو۔
اب ظلم تو ہر آدمی کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے، ظلم کا عام مفہوم کیا ہے؟ ایک دوسرے کے ساتھ حق تلفی۔ وہ انسان کرتا ہے۔ صحابہ کرامؓ پریشان ہو گئے۔ بخاری کی روایت ہے، یہ بڑی سخت شرط ہے، اگر ایمان کی قبولیت کے لیے ظلم کا ساتھ نہ ہونا شرط ہے تو ’’اینا لم یظلم یا رسول اللہ؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ، ہم میں سے کون ہے جو تھوڑی بہت زیادتی نہیں کرتا۔ یہ مغالطہ کیوں پیدا ہوا؟ ظلم کا معنیٰ وہی سمجھے جو عام معروف معنیٰ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں بھئی، ظلم کا وہ معنیٰ نہیں جو تم سمجھے ہو، یہاں ظلم سے مراد وہ ہے جو لقمان علیہ السلام نے بیٹے سے کہا تھا ’’یا بنی لا تشرک با اللہ ان الشرک لظلم عظیم‘‘ (لقمان ۱۳) یہاں لفظ ظلم کا ہے، معنیٰ شرک ہے۔ اب قرآن کریم کے ایک لفظ کا عمومی معنی اور ہے، حضورؐ اور معنی کر رہے ہیں۔ اتھارٹی وہی ہے جو حضورؐ نے فرمائی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت اتھارٹی ہے قرآن کریم کے فہم میں، وضاحت میں۔
اس کے بعد قرآن کریم کی وضاحت کی اتھارٹی کون ہے؟ کسی بھی بات کا مفہوم اس کے پس منظر میں سمجھا جاتا ہے، کس بیک گراؤنڈ میں بات کی تھی؟ یہ آج بھی کامن سینس کی بات ہے، کہاں بات کی تھی، کس ماحول میں بات کی تھی، کس بیک گراؤنڈ میں بات کی تھی؟ کسی بات کا پس منظر اس کا معنیٰ بیان کرتا ہے، پس منظر بدل جائے تو معنیٰ بدل جاتا ہے۔ سارے تسلیم کرتے ہیں کہ بات کا صحیح مطلب اس کے پس منظر کو سامنے رکھ کر ہی طے ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ مفسرین نے اس کو شانِ نزول کہتے ہیں، کہاں نازل ہوئی تھی، کیسے نازل ہوئی تھی؟ اس پر بھی بیسیوں مثالیں ہیں، میں ایک مثال عرض کروں گا۔
بعض حضرات کو مغالطہ ہوا کہ قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا ہے، جہاں شراب کی حرمت کی بات کی ہے، تین چار آیات ہیں، پہلی آیت ہے ’’یا ایھا الذین اٰمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطٰن‘‘ (المائدۃ ۹۰) شراب اور جوا گندگی ہے، شیطانی کام ہے، چھوڑ دو۔ اگلی آیت میں حکمت بیان کی ہے ’’انما یرید الشیطٰن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوٰۃ‘‘ (المائدۃ ۹۱) شراب اور جوئے کے ذریعے شیطان تمہیں لڑاتا ہے، اللہ کے ذکر سے غافل کرتا ہے، نماز سے غافل کرتا ہے، دشمنی پیدا کرتا ہے، یہ حکمت بیان کی ہے۔ اگلی آیت میں تاکید ہے ’’اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول‘‘ (المائدۃ ۹۲) اس سے اگلی آیت یہ ہے ’’لیس علی الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا‘‘ (المائدۃ ۹۳) وہ لوگ جو ایمان لائے، عملِ صالح کیے، ان پہ کوئی حرج نہیں اگر چکھ چُکھ لیے تو۔ ترجمہ یہی ہے اور ترتیب بھی یہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کبھی کبھی پی جا سکتی ہے۔ ظاہری معنیٰ تو یہی ہے اس کا۔ یہ مغالطہ تھا۔ یہ دور کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، ان کی خدمت میں مقدمہ پیش کیا ایک صاحب نے۔
جب شراب کی حرمت کا اعلان ہوا، حکم جاری ہوا، لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ جو لوگ پیتے پلاتے چلے گئے ہیں دنیا سے، ان کا کیا بنے گا؟ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ پیتے تھے، جب حرام نہیں تھی تو پینے میں حرج بھی کوئی نہیں تھا۔ بلکہ بخاری کی روایت ہے کہ اُحد کی جنگ میں بھی بہت سے حضرات جہاد پر جاتے ہوئے بھی شراب پی کر گئے ہیں۔ وہ جو پیتے پلاتے دنیا سے چلے گئے، ان کا کیا بنے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، بھئی، یہ ان کے بارے میں پوچھا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہ جو پیتے پلاتے چلے گئے ہیں ان پہ کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ تمہارے لیے نہیں ہے، ان کے لیے ہے۔
اب ’’لیس علی اٰمنوا وعملوا الصالحات جناح‘‘ کا یہ پس منظر اگر سامنے نہ ہو تو قیامت تک فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا صحیح مفہوم تب متعین ہوگا جب بیک گراؤنڈ سامنے ہوگا، کن کے لیے نازل ہوئی تھی۔
میں نے قرآن کریم کی تفسیر کے چند اصول بیان کیے ہیں، سب سے پہلے قرآن کریم سے پوچھیں گے، قرآن کریم میں خود اس کے بارے میں کیا ہے۔ پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث دیکھیں گے کہ حضورؐ نے اس کی کیا وضاحت کی ہے عمل سے یا قول سے۔ پھر پس منظر دیکھیں گے، کس بیک گراؤنڈ میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، اس وقت کیا معنیٰ سمجھا گیا تھا۔
بسا اوقات محاورے کا فرق بھی پڑ جاتا ہے۔ ایک ہی زبان کے محاورے ایک جگہ کے اور ہوتے ہیں، دوسری جگہ کے اور ہوتے ہیں۔ ایک مثال اس کی بھی عرض کر دیتا ہوں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سحری کی حد بیان کی، رات کو روزے سے نکال دیا، کھا پی سکتے ہو بھئی سحری کے وقت۔ کب تک؟ ’’حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود‘‘ (البقرۃ ۱۸۷) سفید ڈوری سیاہ ڈوری سے جب تک الگ الگ نظر نہ آئے، کھا پی سکتے ہو۔ اب لفظ ہیں ’’خیط الابیض، خیط الاسود‘‘۔ ’’یتبین‘‘ کہ الگ الگ نظر آئیں۔ یہ محاورہ تھا۔ جن کا محاورہ تھا ان کو تو سمجھنے میں دقت پیش نہیں آئی۔ یہ محاورہ، صبح جب پو پھٹتی ہے نا مشرق میں، روشنی کی لکیر الگ ہوتی ہے، اندھیرے کی لکیر الگ ہوتی ہے، اس کو ہم اردو میں پو پھٹنا کہتے ہیں، عربی میں فجر کہتے ہیں، انگلش میں ڈان (dawn) کہتے ہیں۔
جن کا محاورہ تھا انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی، جن کا محاورہ نہیں تھا انہوں نے لفظوں کا ترجمہ کیا، کالی ڈوری، سفید ڈوری۔ بخاری کی روایت ہے کہ بعض صحابہؓ نے ٹانگوں سے ڈوریاں باندھ لیں، صبح سحری کھا رہے ہیں، ٹانگوں سے اٹھا اٹھا کے دیکھ رہے ہیں، الگ الگ نظر آتی ہیں کہ نہیں۔ ایک بڑے صحابی عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ، حاتم طائی کے بیٹے ہیں، انہوں نے سرہانے کے نیچے دو ڈوریاں رکھ لیں، ایک کالی، ایک سفید۔ سرہانہ اٹھا اٹھا کے دیکھتے ہیں، جب تک الگ الگ نظر نہیں آتیں، کھا پی رہے ہیں۔ ایک دن کوئی بادل وادل ہو گئے، سحری لیٹ ہو گئی، عدی بن حاتمؓ نے اس دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کر دیا، یا رسول اللہ آج سحری بہت دیر تک رہی۔ فرمایا، کیا ہوا؟ وہ ڈوریاں الگ الگ بہت دیر سے نظر آئیں۔ کون سی ڈوریاں؟ وہ قرآن نے نہیں کہا، ’’الخیط الابیض من الخیط الاسود‘‘ حضورؐ مسکرائے، فرمایا، کیا کیا تم نے؟ وہ میں نے سرہانے کے نیچے رکھی ہوئی ہیں۔ ’’ان وسادتک لعریض‘‘ عدی سرہانہ اتنا چوڑا ہے، وہ ڈوریاں تیرے سرہانے کے نیچے آ گئی ہیں؟ یہ والی ڈوریاں نہیں ہیں، وہ ڈوریاں ہیں۔ اب ایک محارہ ہے، جن کی سمجھ میں نہیں آرہا، وہ اپنی مرضی سے عمل کر رہے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا، نہیں نہیں۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد، حضورؐ کا عمل، حضورؐ کی وضاحت، یہ اتھارٹی ہے، اور پس منظر اتھارٹی ہے۔ یہ قرآن کریم کی تفسیر کے کچھ اصول ہیں۔ یہ نہیں کہ جو میں معنیٰ سمجھ لوں وہ میرا معنیٰ ہے، جو آپ سمجھ لیں آپ کا معنیٰ ہے، جو امریکہ والے سمجھ لیں امریکہ کا معنیٰ ہے، جو آسٹریلیا والے سمجھ لیں۔ نہیں نہیں، قرآن کریم کے جس طرح الفاظ متعین ہیں، اس کا معنیٰ و مفہوم بھی متعین ہے، اور اس کے اصول ہیں، قرآن کریم خود، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اور وہ شانِ نزول، وہ پس منظر جو صحابہ کرام نے بیان کیا ہے، اس دائرے میں جو تفسیر ہو گی وہ مستند ہو گی، اور جو باقی ہوں گی وہ خودساختہ ہوں گی، ان کا اعتبار نہیں ہو گا، یہ میں نے تفسیر کے بارے میں چند اصول عرض کیے ہیں۔ ان شاء اللہ اسی کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ و بارک وسلم۔