سیرۃالنبیؐ اور مزدوروں کے حقوق

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
فروری ۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے ’’سیرۃ النبیؐ اور مزدوروں کے حقوق‘‘ اس حوالے سے دو تین اصولی باتیں عرض کروں گا۔

  1. پہلی بات یہ کہ مزدور کسے کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ کہتے ہیں کہ ہم آپس میں اشیا اور صلاحیتوں کا تبادلہ کرتے ہیں تو ہمارا نظام چلتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری ضروریات خود پوری نہیں کر سکتا، کوئی ضرورت کوئی بندہ پوری کرتا ہے، دوسری ضرورت کوئی اور پوری کرتا ہے۔ ایک آدمی کہے کہ میں گھر بھی خود بنا لوں گا، غلہ بھی خود اگا لوں گا، دروازے بھی خود بنا لوں گا، زمین سے پانی بھی خود نکال لوں گا، جانور بھی خود چرا لوں گا، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ایک آدھ کام خود کرے گا اور باقی کاموں میں دوسروں کی خدمت لے گا۔ انسان کی فطرت ہے کہ کسی کام میں، جو یہ جانتا ہے، دوسروں کا تعاون کرے گا اور دوسروں سے اپنے کاموں میں تعاون حاصل کرے گا۔ مثلاً ایک آدمی بکریاں چراتا ہے تو بکریاں چرانے کے کام میں تعاون کرے گا اور باقی کاموں میں تعاون لے گا۔ کسی سے غلہ لے گا، کسی سے کپڑے لے گا وغیرہ۔ تبادلہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر ہمارا سارا نظام چلتا ہے۔ اگر سارے لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں کہ ہم اپنا اپنا کام کریں تو کتنے دن تک گزارا کر لیں گے، چوبیس گھنٹے بھی اس کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا کہ ہمارا سارا نظام اس پر ہے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ تبادلے اور تعاون کی دو صورتیں ہیں:
    • ایک ہے چیزوں کا تبادلہ، مثلاً دودھ دے دیا، غلہ لے لیا۔ پرانے زمانے میں دکانداری زیادہ تر گندم اور مونجی پر چلتی تھی کہ دکان پر مونجی دے آئے اور دال لے آئے، باجرہ دے آئے اور مولیاں لے آئے، گندم دے آئے اور گڑ لے آئے۔ اب بھی دور دراز دیہات میں یہ چلتا ہے۔ کوئی چیز دے کر دوسری چیز لینے کو تجارت کہتے ہیں، اسی طرح پیسے دے کر چیز لینا بھی تجارت ہے کیونکہ پیسے بھی کسی چیز کے نمائندے ہیں۔
    • دوسری صورت یہ کہ اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے اور میرے پاس اس کے عوض دینے کے لیے کوئی چیز یا پیسے نہیں ہیں تو میں کوئی خدمت و محنت کروں گا اور اس کے عوض میں وہ چیز لوں گا۔ یہ ہے مزدوری، جیسے گندم کی کٹائی کرتے ہیں اور معاوضہ میں گندم لیتے ہیں۔ اجرت پر کام کرنا مزدوری ہے اور ساری دنیا کا دارومدار اس پر ہے۔
  2. دوسری بات یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سارے پیغمبر اپنے اپنے دور میں مزدور رہے ہیں۔ یہ حقیر پیشہ نہیں ہے، انبیاء کا پیشہ ہے۔ فرمایا، ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، کوئی پیغمبر ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ موسٰی علیہ السلام نے دس سال حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں اور پھر وہاں سے رشتہ بھی مل گیا تھا۔ انہوں نے جو آٹھ یا دس سال خدمت کی اور بکریاں چرائیں، یہ مزدوری تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ ہر پیغمبر نے مزدوری کی۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریاں چرانا بہت مشکل کام ہے اور بندوں کو چلانا اس سے بھی مشکل کام ہے۔ بھیڑیں چرانا آسان ہے کہ ایک بھیڑ کو جدھر لے جائیں باقی ساری اس کے پیچھے ہی آئیں گی، جبکہ بکریاں چر رہی ہوں تو ہر بکری علیحدہ رخ پر ہو گی۔ بیس بکریاں سنبھالنا مشکل ہوتا ہے اور سو بھیڑیں سنبھالنا آسان ہے۔ اللہ تعالٰی پیغمبروں کو پہلے بکریوں کی ٹریننگ کراتے ہیں تاکہ بندوں کو صحیح سنبھال سکیں کیونکہ بندوں کے مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ جب آپؐ نے یہ فرمایا کہ ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں تو ایک صحابی نے عرض کیا ’’وانت یارسول اللہ؟‘‘ یا رسول اللہ! آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا، ہاں میں کئی سال مکہ میں فلاں قبیلے کے بکریاں چند پیسوں کے عوض چراتا رہا ہوں۔ گویا فرمایا یہ کوئی حقارت والا کام نہیں ہے، عزت والا کام ہے۔

    حضورؐ نے پیغمبروں کا سردار ہو کر مزدوری کی اور حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ ہو کر مزدوری کرتے رہے ہیں۔ وہ زرہیں بناتے تھے اور زرہوں کی کمائی پر گھر کا خرچہ چلتا تھا، شاہی خزانے سے لینا ان کا حق تھا لیکن وہ اس سے نہیں لیتے تھے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ہم نے بطور خاص ان کو ایک ہنر سکھایا تھا ’’علمنٰہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم‘‘ ہم نے داؤدؑ کو زرہیں بنانا سکھایا تھا۔ زرہیں بنا کر بیچتے تھے اور گھر کا خرچہ چلاتے تھے۔ یعنی بنی اسرائیل کے بڑے خلیفہ حضرت داؤدؑ مزدوری کرتے رہے، جبکہ مسلمانوں کے بڑے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ جب خلیفہ بنے تو دوسرے دن کپڑوں کی گٹھری سر پر اٹھائی اور بیچنے بازار چل دیے۔ آپؓ پھیری لگایا کرتے تھے، کپڑا بنتے بھی تھے اور بیچتے بھی تھے۔ راستے میں حضرت عمرؓ ملے۔ پوچھا، حضرت! کدھر جا رہے ہیں؟ فرمایا کام پر جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا، آپ کام پر جائیں گے تو پیچھے مقدمے کون سنے گا؟ کسی ملک کا سفیر آجائے تو وہ کس سے ملے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا، اگر میں کام نہ کروں گا تو شام کو بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟ حضرت عمرؓ نے کہا، میں اس کا حل نکالتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے بڑے بڑے صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور ان سے مشورہ کیا کہ اگر خلیفۃ المسلمین محنت و مزدوری کا کام کریں گے تو حکومت کے کام کون کرے گا اور اگر آپؓ حکومتی کاموں کے لیے یہاں بیٹھ جاتے ہیں تو وہ شام کو کھانا کہاں سے کھائیں گے؟ اس کا کوئی بندوبست ہونا چاہیے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علیؓ نے مشورہ دیا کہ یہ جب ہمارا کام کریں گے، امت کا کام کریں گے، تو ہم امت کے خزانے بیت المال میں سے انہیں تنخواہ دے دیا کریں گے۔ اس کو ملازمت کہتے ہیں، اس سے حکمران کی تنخواہ طے ہو گئی۔

    انبیاء بھی مزدوری کرتے رہے ہیں، خلفاء بھی مزدوری کرتے رہے ہیں اور ہندوستان کے مغل بادشاہوں میں بڑے بادشاہ اورنگزیب گزرے ہیں، پچاس سال انہوں نے حکومت کی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، افغانستان، اور چین کا مغربی حصہ ان کے زیرنگیں تھا اور موبائل فون کے بغیر اس سارے علاقے پر اورنگزیب نے حکومت کی ہے کہ جہاں اطلاع ملے وہاں خود جانا پڑتا تھا۔ اگرچہ شاہی خزانہ تھا، مغلوں کے پاس بہت بڑی دولت تھی، لیکن اورنگزیب خود دو کام کرتے تھے، ایک قرآن پاک لکھتے تھے اور اس کا معاوضہ لیتے تھے۔ میں نے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا نسخہ لندن کے میوزیم میں دیکھا ہے، بڑا خوبصورت لکھتے تھے۔ اور دوسرا کام یہ کرتے کہ ٹوپیاں بناتے تھے اور بیچتے تھے۔ میں نے یہ بتایا کہ مزدوری کوئی حقارت کا کام نہیں ہے، یہ نبیوں، بادشاہوں اور خلفاء کا کام ہے۔

  3. تیسری بات یہ کہ مزدور کا حق کیا ہے؟ مزدور کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ جو کچھ طے کیا ہے اس کو بروقت دیا جائے۔ بلاوجہ ٹال مٹول کرنا اس پر ظلم ہے، جبکہ پیسے لے کر کام پورا نہ کرنا یہ اُس کی طرف سے ظلم ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے ’’اعطوا الاجیر اجرہ قبل ان یجف عرقہ‘‘ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو، اس کو پھیرے نہ لگواؤ۔
  4. چوتھی بات یہ کہ آپؐ نے ہدایت دی کہ مزدور سے کام لو لیکن اس پر سختی، ظلم اور زیادتی نہ کرو۔ اس زمانے میں مزدور زیادہ تر غلام ہوتے تھے۔ جبکہ مزدور بھی ماتحت سمجھے جاتے ہیں ’’تحت ایدیکم‘‘۔ حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں، ایک دفعہ میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی کہ کچھ دیر وہ بے پرواہ ہو گئی، اس کی بے پرواہی سے بھیڑیا آیا اور ایک بکری لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا، میں لونڈی کے پاس گیا اور غصے میں اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا بے پرواہ بیٹھی ہوئی ہو، بھیڑیا بکری لے گیا ہے۔ جب زور سے تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود! اس کو تھپڑ مارنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم سے طاقتور بھی کوئی ہے جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول اللہؐ تھے۔ نیچے والے پر ظلم کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میرے اوپر بھی کوئی ہے۔ ذرا غور کریں کہ انہوں نے تھپڑ کس کو مارا تھا؟ نوکرانی کو اور بے قصور بھی نہیں مارا بلکہ غلطی کرنے پر مارا تھا، پھر بھی حضورؐ ناراض ہوئے کہ کیوں مارا ہے۔ حضورؐ نے جب ڈانٹا تو ابومسعودؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی اس غلطی کے کفارے میں اس لونڈی کو آزاد کیا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا، اگر تم اس کو آزاد نہ کرتے تو ’’للفحتک النار‘‘ آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ اس تھپڑ کا صلہ یہی تھا کہ تم اسے آزاد کر دو۔ ایک تھپڑ جو کہ جرم کرنے پر مارا، اس پر یہ وعید فرمائی، ہمارے ہاں ماتحتوں کے ساتھ نہ معلوم کیا کیا ہوتا ہے۔

    حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ جیسے کپڑے خود پہنتے تھے ویسے ہی نوکروں کو پہناتے تھے۔ ایک دن ایک آدمی نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے کہا آپ نے جو اتنا قیمتی لباس پہنا ہوا ہے ویسا ہی اپنے غلام اور نوکر کو پہنا رکھا ہے، اس کو کوئی ہلکی پھلکی چادر کافی تھی۔ فرمایا، نہیں بھئی! میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تمہارے ماتحت ہیں ’’اطعموھم مما تطعمون والبسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی وہی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی وہی پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالو، جتنا کر سکتے ہیں ان سے اتنا کام لو، اور اگر زیادہ کام اس کے ذمہ لگا دیا ہے اور تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اکیلے نہیں کر سکے گا تو ’’اعینوھم‘‘ اس کے ساتھ مل کر کام کرو۔

یہ میں نے چند اصول بتائے ہیں جن کا خلاصہ یہ کہ مزدوری انبیاء کا کام ہے، کوئی حقیر پیشہ نہیں ہے، عزت والا پیشہ ہے۔ مزدور کے ساتھ جو کچھ طے ہو اس کو ٹال مٹول کیے بغیر دیا جائے، ان پر ظلم نہ کیا جائے، ان کو کھانے، پینے، پہننے میں شریک کیا جائے، اور اگر کام ان کی صلاحیت سے زیادہ ہو تو ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے ،کام میں ان کی معاونت کی جائے۔

2016ء سے
Flag Counter