گوجرانوالہ کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد کا سالہا سال سے معمول ہے کہ عید الاضحی کی تعطیلات میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ لگاتے ہیں اور مجھے بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سال چالیس کے لگ بھگ علماء کرام اور ان کے رفقاء کی جماعت تھی جس کی تشکیل منڈی بہاء الدین کی مرکزی جامع مسجد میں ہوئی اور ہم بحمد اللہ تعالیٰ جمعۃ المبارک کی شام سے اتوار کو شام تک وہاں مصروف عمل رہے۔ جلیل ٹاؤن کے مفتی محمد رضوان جماعت کے امیر تھے جبکہ جماعت میں مولانا داؤد احمد، مولانا قاری گلزار احمد قاسمی، مولانا محمد افضل، مفتی محمد نعمان اور دیگر سرکردہ علماء کرام کے علاوہ حافظ شیخ بدر منیر اور محمد جمیل خان بھی شامل تھے۔
تبلیغی جماعت کے سہ روزے میں عام طور پر طریق کار یہ ہوتا ہے کہ اردگرد کے ماحول میں گشت کر کے عام مسلمانوں کو مسجد میں آنے اور علماء کرام سے ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔ مختلف طبقات کے لیے خصوصی گشت ہوتا ہے، عوام، تاجر حضرات اور علماء کرام کے لیے الگ الگ نشستیں ہوتی ہیں اور ان اجتماعات کے ساتھ ساتھ گشت کے دوران ملنے والوں کو اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ دنیاوی کاموں میں جائز مصروفیت کو قائم رکھتے ہوئے آخرت کی فکر کی طرف بھی توجہ دی جائے، نماز روزے اور دیگر فرائض دینیہ کی بجا آوری کا اہتمام کیا جائے، ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کیا جائے، ایک دوسرے میں خیر کی تلقین اور گناہ سے بچنے کا ذوق بیدار کیا جائے۔ کلمہ، نماز، قرآن کریم کی صحیح تلاوت کے لیے بنیادی تعلیم کا اہتمام کیا جائے اور اس تعلیم و تربیت کے لیے کچھ وقت فارغ کر کے دعوت و تبلیغ کے ماحول میں تین دن، دس دن یا چالیس دن گزارے جائیں تاکہ بنیادی باتوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تربیت کے ماحول سے بھی آشنائی ہو۔ جبکہ اس دفعہ ہمارے اہداف میں ۳۱ اکتوبر سے رائیونڈ میں شروع ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں شرکت کی دعوت دینا بھی شامل تھا۔
میری تشکیل خواص کے لیے گشت میں ہوئی اور چند دوستوں کے ہمراہ ڈی سی او، ڈی پی او، ایم این اے، اور ایم پی اے حضرات سے ملنا طے ہوا۔ ڈی سی او صاحب تو بلدیاتی الیکشن کی تیاری کے سلسلہ میں میٹنگ میں مصروف تھے۔ ڈی پی او صاحب بھی دفتر میں موجود نہیں تھے، البتہ ان کے دفتر میں آئے ہوئے ضلع بھر کے چند سیاسی راہ نماؤں سے ملاقات ہوئی اور کچھ دیر مفید گفتگو رہی۔ مرکزی جامع مسجد منڈی بہاء الدین کے خطیب مولانا عبد الماجد بھی ہمارے ساتھ تھے جو بڑے باذوق اور متحرک عالم دین ہیں۔ اس موقع پر جن حضرات سے گفتگو ہوئی ان میں زیادہ تر دوست سیاسی زندگی سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر باہمی تبادلہ خیال ہوا اور متنوع پہلوؤں پر مختلف خیالات سننے کو ملے۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ اپنی ایک بات کہنے کے لیے لوگوں کی بہت سی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے ’’سننا پڑتی ہیں‘‘ سے اختلاف ہے اس لیے کہ میں ’’سننی چاہئیں‘‘ کا قائل ہوں۔ ہمیں عام لوگوں کے ذوق اور معاشرہ کی عمومی نفسیات سے آگاہ ہونے کے لیے طرح طرح کے لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سننا چاہئیں تاکہ ہمیں عام لوگوں کے عمومی رجحانات سے آگاہی حاصل ہو، اور ہم سب باتوں کو سامنے رکھ کر اپنی گفتگو اور محنت کے راستے نکال سکیں۔ میں نے گزارش کی کہ میرا مزاج یہ ہے کہ بسا اوقات طرح طرح کے لوگوں کی باتیں سننے کا بطور خاص اہتمام کرتا ہوں۔ ایسی مجالس جن میں مختلف طبقات کے لوگ بیٹھے ہوں، کوئی مسئلہ چھیڑ کر خاموشی کے ساتھ سننے لگتا ہوں اور مخالف حضرات کی باتوں کو زیادہ توجہ اور دل چسپی سے سنتا ہوں، اس سے مجھے اپنی گفتگو کا زاویہ متعین کرنے اور کام کو آگے بڑھانے میں بہت راہ نمائی ملتی ہے۔
خصوصًا علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کے لیے تو بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں اور مختلف طبقات کے حضرات کی باتوں کو سنیں، ان کے گلے شکوے معلوم کریں، ان کے رجحانات کا صحیح طور پر اندازہ لگائیں اور ان کے مزاج و نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ ان کے درمیان اپنے دینی فرائض کی صحیح طور پر انجام دہی کی راہ نکال سکیں۔
یہ گزارش میں نے علماء کرام کے خصوصی اجتماع میں بھی کی کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے میں علماء کرام کے لیے فائدے کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سے دو بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ ایک کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ عرصہ حالت سفر میں رہنے سے رنگا رنگ کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان سے براہ راست گفتگو کا موقع ملتا ہے اور ان کی کڑوی میٹھی ہر طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں جن سے ’’پبلک ڈیلنگ‘‘ کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور عام لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری شب و روز کے معمولات کی ترتیب قائم ہو جاتی ہے، ورنہ ہم عام طور پر بے ترتیب لوگ ہوتے ہیں کہ جو کام جس وقت چاہا کر لیا۔ ایک طے شدہ ترتیب کے ساتھ کچھ عرصہ پابندی کے ماحول میں گزار کر اس بات کی عادت بن جاتی ہے کہ ہر کام کو اپنے وقت پر کیا جائے اور وقت کو ضائع ہونے سے بچا کر کسی نہ کسی کام میں لایا جائے۔
علماء کو میں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ایک ڈاکٹر جب ایم بی بی ایس کر لیتا ہے تو اسے آزادانہ کام کا موقع دینے سے پہلے سال دو سال ’’ہاؤس جاب‘‘ کے مرحلہ سے گزرا جاتا ہے تاکہ جو کچھ پڑھا ہے اسے استعمال کرنے کا سلیقہ آجائے اور تھیوری محض تھیوری نہ رہے بلکہ پریکٹیکل میں بدل جائے۔ اسی طرح ایک نوجوان ایل ایل بی کا کورس کر کے وکیل بنتا ہے تو اسے عدالت میں براہ راست پیش ہونے سے قبل کسی سینئر وکیل کے ساتھ کچھ عرصہ رہ کر کام کا تجربہ حاصل کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد اسے بار کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے کے لیے لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک یہ ماحول نہیں بن سکا، ہم دینی تعلیم یا تخصص کے کسی شعبہ میں سند حاصل کر لینے کے بعد کام میں آزاد ہوتے ہیں اور ڈائریکٹ بھرتی ہو جاتے ہیں جس کے بہت سے نقصانات سامنے آرہے ہیں۔ پبلک ڈیلنگ اور شب و روز کے معمولات کو ترتیب میں لانے کے لیے میرے نزدیک حل یہ ہے کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک عالم دین کو یا تو کسی شیخ کامل کے ساتھ روحانی تربیت کا باقاعدہ تعلق قائم کر کے ان کی عملی نگرانی میں کچھ عرصہ رہنا چاہیے، یا تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگانا چاہیے۔ میرے خیال میں موجودہ حالات میں یہ دونوں مقصد اس کے سوا حاصل نہیں ہو سکتے، جبکہ یہ دونوں انتہائی ضروری ہیں، خدا کرے کہ ہم اپنی ان ضروریات کی طرف مناسب توجہ دے سکیں۔
ہم نے منڈی بہاء الدین سے حالیہ الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے رکن چودھری محمد اعجاز صاحب سے ان کے ڈیرے پر ملاقات کی اور انہیں رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جس کا انہوں نے وعدہ کر لیا۔ اس ملاقات میں ان سے ملنے کے لیے ضلع کے مختلف علاقوں سے آنے والے دیگر سرکردہ حضرات سے بھی ملاقات ہو گئی اور ہمیں ان تک اپنی دعوت پہنچانے کا موقع ملا۔ پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے جناب طارق علوانہ کے ڈیرے پر بھی گئے اور ان کے علاوہ وہاں بھی بہت سے حضرات سے ملاقات ہو گئی۔ الغرض ہماری یہ تین روزہ مصروفیات دین کی دعوت و تبلیغ کے بابرکت کام میں شرکت کے ساتھ ساتھ مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات سے ملاقاتوں اور بات چیت کا ذریعہ بھی بن گئی اور اس سے تجربہ و مشاہدہ کا دائرہ وسیع ہوا۔
اس کے ساتھ ہی وہ دعوت جو ہم اس دوران ہر ملاقاتی کو دیتے رہے، اسے اپنے قارئین کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغی جماعت کا سالانہ عالمی اجتماع ۳۱ اکتوبر جمعرات سے شروع ہو رہا ہے جو دو مرحلوں میں ہوگا۔ پہلا مرحلہ ۳ نومبر کو مکمل ہوگا اور اتوار کو صبح دُعا پر اختتام پذیر ہوگا، جبکہ دوسرا مرحلہ ۷ نومبر جمعرات سے شروع ہو گا اور ۱۰ نومبر اتوار کو دُعا پر مکمل ہوگا۔ ان اجتماعات میں دنیا بھر سے علماء کرام، دینی کارکنوں اور عام مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، ایک دوسرے کو آخرت کی فکر دلائی جاتی ہے، دین کے اعمال کی ترغیب دی جاتی ہے اور امت کے لیے دعاؤں کا اہتمام ہوتا ہے، سب دوستوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس اجتماع میں کچھ نہ کچھ شرکت ضرور ہو جائے۔