علومِ حدیث: امام بخاریؒ، امام طحاویؒ اور شاہ ولی اللہؒ کا اسلوب

   
تاریخ: 
۲۱ اپریل ۲۰۱۰ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم اس وقت سب حدیث نبویؐ کے طلبہ بیٹھے ہیں اور حدیث نبویؐ کے حوالہ سے گفتگو کر رہے ہیں، حدیث نبویؐ اپنے عمومی مفہوم میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال اور احوال و واقعات پر مشتمل ہے اور تمام علوم دینیہ کا سر چشمہ اور ماخذ ہے۔ ہمیں قرآن کریم حدیث نبویؐ کی وساطت سے ملا ہے، سنت نبویؐ کے حصول کا ذریعہ بھی یہی ہے، اور فقہ کا استنباط بھی اسی سے ہوتا ہے۔ اسی لیے حدیث نبویؐ کو ہمارے نصاب میں سب سے زیادہ مقدار میں اور تفصیل کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ ہمارا آخری تعلیمی سال پورا حدیث نبویؐ کی تدریس و تعلیم میں گزرتا ہے، اور طلبہ دورۂ حدیث کے عنوان سے حدیث نبویؐ کی اہم کتابوں کا سماع کرتے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اس وقت حدیث نبویؐ کی تعلیم کے حوالہ سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں حدیث نبویؐ کی یہ بڑی بڑی کتابیں کس طرح پڑھنی چاہئیں اور ان سے کس طرح استفادہ کرنا چاہیے؟

جہاں تک مسائل کا تعلق ہے انہیں ہم اس سے قبل فقہ کی کتابوں میں پڑھ چکے ہیں اور مسائل کی تفصیلات انہیں میں ملتی ہیں، اس لیے یہ گزارش کروں گا کہ دورۂ حدیث کے دوران حدیث نبویؐ کی یہ کتابیں مسائل معلوم کرنے کی بجائے محدثین کے الگ الگ ذوق، اسلوب اور طرز استدلال سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے پڑھنی چاہیں۔ محدثین کا اپنا اپنا ذوق ہے، الگ الگ دائرہ کار ہے، اور جداگانہ طرز استدلال ہے۔ اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں حدیث نبویؐ کی کتابوں کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اس تنوع اور توسع سے مستفید ہونے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر تین بزرگوں کا ذکر کروں گا۔

  1. امام بخاریؒ سب سے بڑے محدث سمجھے جاتے ہیں اور ان کی ’’الجامع الصحیح‘‘ کو حدیث کی سب کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کے ہاں سند و روایت کا کڑا معیار اور اس کی پابندی ہے جس کی وجہ سے اسے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک اہم امتیاز امام بخاریؒ کا طرز استدلال اور اسلوب استنباط بھی ہے، جسے ہمارے ہاں ترجمۃ الباب کا اس کے تحت درج روایت کے ساتھ تعلق اور ان میں مناسبت تلاش کرنے کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ترجمۃ الباب کا حدیث و روایت کے ساتھ کیا تعلق ہے اور امام بخاریؒ نے اس سے کس طرح استدلال کیا ہے؟ یہ معلوم کرنا اور بیان کرنا تدریسِ بخاری شریف کی مہمات میں شمار ہوتا ہے۔ میں اس کو طرزِ استدلال اور اسلوبِ استنباط سے تعبیر کر رہا ہوں کہ ہمیں امام بخاریؒ سے استدلال اور استنباط کا فن سیکھنا چاہیے۔ بخاری شریف کے تراجم ابواب امام بخاریؒ کے استدلال و استنباط کے فن کے شاہکار ہیں، بسا اوقات وہ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں اور حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت تلاش کرنے میں خاصی مغز کھپائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ فرمایا کرتے تھے کہ امام بخاریؒ کا استدلال بسا اوقات اس طرز کا ہوتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ؎
    مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
    کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

    یعنی شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دینا اس لیے کہ وہ باغ میں جائے گی تو پھلوں اور پھولوں کا رس چوسے گی، پھر شہد بنائے گی، چھتہ بنائے گی، اس میں شہد نکالے گی، شہد کو حاصل کرنے کے لیے لوگ چھتے کو نچوڑیں گے، نچوڑنے کے بعد چھتے کے باقی ماندہ حصے سے موم حاصل ہو گی، اس سے موم بتی بنے گی اور موم بتی جب جلے گی تو پروانہ آ کر جل جائے گا۔ اسی لیے دورہ حدیث کے طلبہ کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ بخاری شریف پڑھتے ہوئے اس طرف بطور خاص توجہ دیں اور امام بخاریؒ کے استدلال کے اسلوب اور استنباط کی ندرت سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

  2. امام طحاویؒ کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ کا کچھ حصہ ہم دورۂ حدیث میں پڑھتے ہیں۔ میرے خیال میں اسے طلبہ کو دورۂ حدیث سے پہلے پڑھانا چاہیے اور مکمل پڑھانا چاہیے۔ امام طحاویؒ کے خوبصورت فقہی مجادلہ سے گزر کر جب طلبہ دورۂ حدیث میں آئیں گے تو حدیث نبویؐ پڑھنے کا لطف ہی اور ہو گا۔ امام طحاویؒ کا بنیادی ذوق فقہی مجادلہ اور مکالمہ کا ہے، اور حنفیت کے دفاع میں امام طحاویؒ کے فقہی مکالمہ کی طرز کو میں اس باب میں آئیڈیل سمجھتا ہوں، یہی فقہی مجادلہ کا اصل اور معیاری اسلوب ہے۔ مثلاً وہ:
    • کسی بھی فقہی مسئلہ میں تمام اقوال کا دیانتداری کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور سب کے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
    • پہلے دوسرے فریق کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں، ان کے دلائل کا ذکر کر کے ان کا تجزیہ کرتے ہیں، ان کی کمزوری واضح کرتے ہیں، پھر اپنے موقف اور دلائل بیان کرتے ہیں، ان کا تقابل کر کے وجوہ ترجیح کا ذکر کرتے ہیں اور اپنا موقف خالصتاً علمی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں۔
    • وہ کسی جگہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، اور امام محمدؒ کا یہ قول ہے اور فلاں فلاں حدیث ان کی تائید کرتی ہے، بلکہ اس کی بجائے وہ یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور ان کے رفقاء بھی یہی کہتے ہیں۔
    • ہر مسئلہ کی نوعیت اور اس کا دائرہ بیان کرتے ہیں کہ خطا و صواب کا معاملہ ہے، یا اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے۔ فقہی اختلافات میں ایک غلط رویہ ہمارے ہاں پیدا ہو گیا ہے کہ ہم فقہی مسائل میں درجہ بندی کا عام طور پر لحاظ نہیں رکھتے۔ مثلاً حق و باطل کا دائرہ الگ ہے، خطا و صواب کا دائرہ اس سے مختلف ہے، جبکہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ ان دونوں سے جدا ہے۔ مگر ہم اولیٰ و غیر اولیٰ کے مسائل میں بسا اوقات اس قدر شدت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ حق و باطل کا معرکہ دکھائی دینے لگتا ہے اور اسلام و کفر کی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہمیں طحاوی شریف پڑھتے ہوئے امام طحاویؒ سے یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ جس مسئلہ میں ہم بحث کر رہے ہیں اس کی سطح اور دائرہ کیا ہے کیونکہ امام طحاویؒ اس کا بطور خاص اہتمام کرتے ہیں۔
    • امام طحاویؒ کے طرز استدلال میں ایک اور بات آپ کو نظر آئے گی جو ہر سنجیدہ صاحب علم کی خصوصیت ہوتی ہے کہ مباحثہ و مکالمہ میں جہاں اپنے موقف یا استدلال میں کمزوری محسوس کرتے ہیں اس کے اظہار میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔ یہ علمی دیانت کی بات ہے اور امانت کا تقاضہ ہے جس سے کسی صاحب علم کو پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی ایک مثال کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ منی پاک ہے یا ناپاک؟ اس پر احناف اور شوافع میں اختلاف ہے، احناف اسے بول و براز کی طرح ناپاک سمجھتے ہیں جبکہ شوافع کے نزدیک یہ ناک کی رطوبت کی طرح پاک ہے۔ امام طحاویؒ نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے، دونوں طرف سے احادیث و آثار بیان کیے ہیں اور بحث و تمحیص کے بعد وہ نتیجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دونوں طرف روایات و آثار موجود ہیں اور ہم ان روایات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے، اس لیے ہم قیاس و نظر کی بنیاد پر اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں۔

    اس لیے میں دورہ حدیث کے طلبہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ طحاوی شریف پڑھتے ہوئے امام طحاویؒ سے فقہی مجادلہ کا اسلوب سیکھیں اور فقہی مکالمہ کی اخلاقیات کا درس لیں۔

  3. تیسرے بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں جن کا میں اس حوالہ سے ذکر کرنا چاہتا ہوں، اور ان کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہے جسے حضرت شاہ صاحبؒ نے بنیادی طور پر احادیث نبویہؐ کی کتاب کے طور پر ہی پیش کیا ہے، اور ہمارے ہاں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اس کے بعض ابواب دورۂ حدیث کے نصاب میں شامل ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں حدیث نبویؐ کی اہمیت بیان کی ہے، جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات و اعمال کی حکمتوں پر بحث کی ہے، اسلامی شریعت کی حکمتوں اور فوائد کو واضح کیا ہے، محدثین اور فقہاء کے اسلوب میں فرق کی نشاندہی کی ہے، اور احادیث نبویؐ سے مسائل و احکام کے استنباط و استدلال کے حوالہ سے صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ کے اسالیب سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ مختلف فقہوں کے وجود میں آنے کا پس منظر اور تاریخ بیان کی ہے۔ اسلامی احکام اور مسائلِ شریعت کی حکمتوں اور اسرار و رموز سے واقفیت اور اس اسلوب سے استفادہ کے لیے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے، اس لیے میری رائے میں حدیث نبویؐ کے اس پہلو سے ہمارے طلبہ اور اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے، بلکہ آج کے دور میں اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

میں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم و تدریس کے حوالہ سے صرف ایک پہلو پر کچھ معروضات پیش کی ہیں، دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں حدیث نبویؐ کے ذخیرے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter