روزنامہ جنگ لندن ۱۱ اکتوبر ۲۰۰۰ء کے مطابق برطانوی مسلمانوں کی ایک تنظیم ’’مسلم کونسل آف بریٹن‘‘ کے سیکرٹری جنرل یوسف بھائی نے برطانوی ہوم سیکرٹری کے نام ایک خط میں سنڈے ٹائمز کی اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ لندن میں فرانس کے سفارتخانہ نے مبینہ طور پر ایسے ایجنٹ بھرتی کیے ہیں جو مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اسامہ بن لادن کی حمایت میں امریکہ کے خلاف جہاد کا پرچار کریں گے، لیکن اس کی آڑ میں مساجد میں اثر و رسوخ بڑھا کر مسلمانوں کی جاسوسی کریں گے، تاکہ مسلمانوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہی حاصل کی جا سکے۔
اگرچہ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، لیکن وہ ایسی سرگرمیاں نہیں جنہیں انڈرگراؤنڈ قرار دیا جا سکے، یا ان سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے حکومتوں کو غیر معمولی انتظامات کی ضرورت محسوس ہو۔ لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں یورپی حکومتیں کس قدر حساس ہیں، اس کا اندازہ مذکورہ خبر سے لگایا جا سکتا ہے۔
مذہبی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صف میں گھسنے اور ان کی جاسوسی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مخصوص پلان کے تحت برانگیختہ کر کے اپنا کام نکالنے کا یہ طریق کار کوئی نیا نہیں ہے:
- لارنس آف عریبیا نے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے یہی طریقِ واردات استعمال کیا تھا۔
- اور تاریخی ریکارڈ کے مطابق ہمارے ہاں کوہاٹ کی ایک مسجد میں سالہا سال تک انگریزوں کے دور میں ایک ایسا امام رہا ہے جو اصل میں انگریز تھا لیکن امامت کی آڑ میں قبائلی مجاہدین کی سرگرمیوں کی جاسوسی کرتا رہا۔
- اسی طرح خود مسلمانوں میں سینکڑوں ایسے جاسوس ہر دور میں رہے ہیں جو مذہبی لبادے کی آڑ میں جاسوسی کرتے رہے ہیں اور دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں آلۂ کار رہے ہیں۔
اس لیے صرف برطانیہ یا فرانس نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمانوں بالخصوص دینی تحریکات اور راہنماؤں کو اپنے گرد و پیش کے حالات سے ہوشیار رہنا چاہیے۔